محمد شکیل خورشید
محفلین
حرف سب بے وفا سے لگتے ہیں
دوست ناآشنا سے لگتے ہیں
رات کی خامشی میں یہ تارے
کتنے بے آسرا سے لگتے ہیں
جھوٹ کہتے ہیں جب حسیں چہرے
کس قدر بدنما سے لگتے ہیں
ایک منزل پہ جانے والوں کے
راستے کیوں جدا سے لگتے ہیں
ساری باتیں تمام تاویلیں
اب زبانی دلاسے لگتے ہیں
خشک پتوں پہ گھونسلے جو بنیں
کانپنے وہ ہوا سے لگتے ہیں
اب زمانے کے ہوگئے جو شکیلؔ
طور وہ ناروا سے لگتے ہیں
دوست ناآشنا سے لگتے ہیں
رات کی خامشی میں یہ تارے
کتنے بے آسرا سے لگتے ہیں
جھوٹ کہتے ہیں جب حسیں چہرے
کس قدر بدنما سے لگتے ہیں
ایک منزل پہ جانے والوں کے
راستے کیوں جدا سے لگتے ہیں
ساری باتیں تمام تاویلیں
اب زبانی دلاسے لگتے ہیں
خشک پتوں پہ گھونسلے جو بنیں
کانپنے وہ ہوا سے لگتے ہیں
اب زمانے کے ہوگئے جو شکیلؔ
طور وہ ناروا سے لگتے ہیں