ایک اور ہی طرح کا جھگڑا / محمد اظہار الحق

علی وقار

محفلین

انور مسعود نے چائے اور لسی کے جھگڑے کو نظم کیا ہے۔ شدید ضرورت ہے کہ پلاؤ اور بریانی کے جھگڑے پر بھی بات کی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ پلاؤ کی جنم بھومی وسط ایشیا ہے۔ سوویت یونین نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تو جہاں کریم‘ کریموف بنا اور عبدالرحمن‘ عبد الرحمانوف بنا وہاں بیچارہ پلاؤ بھی پلاؤف اور پھر پلاف بن گیا۔ اب بہت سے ملکوں میں اسے پلاف کہا جاتا ہے‘ مگر اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے نام ہیں۔ مادہ سب کا پلاؤ ہی ہے۔ وسط ایشیا سے نکل کر پلاؤ پوری دنیا میں پھیلا۔ مغل ہندوستان میں آئے تو ساتھ پلاؤ بھی لائے۔ جنوبی ہند کے تامل دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ پہلے سے موجود تھا مگر یہ دعویٰ باطل ہے۔ بو علی سینا نے اپنی معروف تصنیف ''القانون‘‘ میں پلاؤ کا ذکر کیا ہے۔ شرقِ اوسط میں اسے بخاری پلاؤ کہتے ہیں۔ یہ نسبت بھی وسط ایشیا ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بریانی سے میری اَن بن ذاتی نوعیت کی ہے۔ اس میں مرچ اتنی زیادہ ڈالتے ہیں کہ کم از کم میرے لیے اسے کھانا ایک سزا سے کم نہیں۔ پاک وہند پر اس وقت اصل حکمرانی مرچ کی ہے۔ لال مرچ ہو یا ہری‘ ہر پکوان میں ٹھونسی جاتی ہے۔ سموسہ بھی وسط ایشیا سے آیا۔ میں نے تاشقند میں سموسہ کھایا ہے۔ بے حد شریفانہ اور دوستی سے بھرپور! بیچارہ پاک و ہند میں آیا تو اسے مرچ سے بھر دیا گیا۔ حد یہ ہے کہ نوڈل اور سپیگتی بھی یہاں مرچ اور گھی میں پکائی جاتی ہے۔ معروف ثقافتی محقق سہیل ہاشمی‘ جن کا تعلق بھارت سے ہے‘ کہتے ہیں کہ مغل عہد میں مرچ یہاں تھی ہی نہیں۔ اس کی اصل جائے پیدائش جنوبی امریکہ ہے۔ مہاراشٹر یعنی بمبئی اور اردگرد کے دیگر علاقوں میں اسے پرتگالی لائے۔ اس کے پودوں کو انہوں نے اپنی کوٹھیوں کے اردگرد باڑ کے طور پر استعمال کیا۔ اس باڑ پر رنگا رنگ مرچیں لگتی تھیں۔ ہری‘ سفید‘ سرخ‘ پیلی۔ ان کے گھروں میں کام کرنے والی ‘ گھاٹ کی مقامی عورتوں نے انہیں چکھا تو بھا گئیں۔ انہوں نے اسے اپنے کھانوں میں ڈالنا شروع کر دیا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں جب مرہٹے مار دھاڑ کرتے دہلی پہنچے تو مرچ دہلی پہنچ گئی۔ آج کل جن کھانوں کو مغلئی کھانے کہا جاتا ہے‘ ان کی پہچان ہی مرچ ہے مگر کم ازکم بڑے مغلوں کے زمانے میں ان کے کھانوں میں مرچ تھی ہی نہیں۔ اب تو دلّی کے کھانوں کا جزوِ اعظم مرچ ہے۔ میں نے ستر کی دہائی کے شروع میں سرکاری ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ اُس وقت بوہری بازار میں چاٹ کی ایک دکان بہت مشہور تھی۔ ہم چند دوست وہاں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ اب تو شاید وہاں چاٹ کی کئی دکانیں ہوں۔ (نمکو کی بھی پہلے بوہری بازار میں ایک ہی دکان تھی۔ اب کئی ہیں اور اُس اصل دکان کو تلاش کرنا مشکل ہے) ایک بار ہم چاٹ والی دکان پر بیٹھے چاٹ کھا رہے تھے تو میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ایک صاحب دکان والے کو کہہ رہے تھے ''بھئی مرچ اور بھی ڈالو‘ ہم دِلّی کے ہیں!‘‘۔ مغل جب ہندوستان میں پلاؤ لائے تو کچھ کھانے یہاں سے لیے اور کچھ یہاں والوں کو دیے۔ پان کے وہ رسیا ہو گئے۔ مغل عہد کی فارسی شاعری میں پان کا خوب ذکر ہے۔ آم بھی انہیں بھائے اور اتنے کہ گرویدہ ہو گئے۔ ''رقعات عالمگیری ‘‘ میں اورنگزیب عالمگیر بیٹوں سے شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ آم اچھی کوالٹی کے نہیں بھیجے۔ شاہ جہاں کا رویہ اورنگزیب سے سرد مہری ہی کا رہا۔ اس کے زمانے میں اورنگزیب دکن کا گورنر تھا۔ شاہ جہاں کو بھی اورنگزیب سے یہی شکایت رہی کہ آم اچھے نہیں بھیجے جا رہے۔ پلاؤ جب ہندوستان پہنچا تو اس میں مقامی تبدیلیاں کی گئیں اور یہ بریانی بن گیا۔ اورنگزیب کے ایک بیٹے کے پاس ایک باورچی تھا جو بریانی پکانے کا ماہر تھا۔ اس نے بیٹے سے تقاضا کیا کہ وہ باورچی اس کے پاس بھیجا جائے۔ مگر شہزادہ طرح دے گیا۔ تاہم اورنگزیب جب بھی اس کے ہاں جاتا تو فرمائش کرتا کہ بریانی اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہو۔ مگر یہ بریانی تب تک مرچ سے آلودہ نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو شے پاکستان میں بریانی کے نام سے پکائی اور کھائی جا رہی ہے ‘ اس میں چاول کم اور مرچ زیادہ ڈالی جاتی ہے۔ کبھی اسے سندھی بریانی کا نام دیا جاتا ہے‘ کبھی بمبئی بریانی کا اور کبھی کچھ اور۔ مگر ڈھیروں مرچ سب میں مشترک ہے۔ کھاتے جائیے‘ ناک اور منہ سے دھواں نکالتے جائیے اور زہر معدے میں ڈالتے جائیے! پورے جنوبی ایشیا میں مرچ کا راج ہے۔ میلبورن میں ایک انڈین دکان سے بوندی والے لڈو خرید رہا تھا جو آج کے پاکستان سے اسی طرح غائب ہیں جیسے بوندی غائب ہوئی ہے۔ سری لنکا کی دو عورتیں مرچ کے پیکٹ خرید رہی تھیں۔ ان سے پوچھا کہ اس قدر مرچ کیوں کھاتے ہو؟ کہنے لگیں: دل کے لیے مفید ہوتی ہیں!

کوئی مانے یا نہ مانے ‘ اصل شاہانہ کھانا تو پلاؤ تھا جو اَب خال خال رہ گیا ہے۔ پلاؤ میں متانت ہے۔ شرافت ہے‘ شان وشوکت ہے ‘ روایت ہے‘ آہستگی ہے‘ نرمی ہے اور ایک خاص قسم کا تہذیبی رچاؤ ہے! بریانی میں دھوم دھڑکّا ہے۔ شور وغل ہے۔

دیگر خواتین کی طرح میری بیٹیاں بھی بریانی کے متاثرین میں سے ہیں۔ جب ان سے پلاؤ کی برتری پر بحث کرتا ہوں تو بریانی کو نیچا دکھانے کے لیے یہ بھی کہتا ہوں کہ آخر بریانی کیا ہے؟ چاول کو سالن میں مکس کر دیں تو بریانی بن جاتی ہے۔ مگر اب مجھ جیسے پلاؤ کے شائقین کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ بہت کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جو کچھ مشاعروں میں اُردو شاعری کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کچھ ایسا ہی پلاؤ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پلاؤ کی دیگ کا آرڈر دیں تو منت کر کے کہنا پڑتا ہے کہ مرچ نہیں ڈالنی! مگر وہ باورچی ہی کیا جو بات مان لے! ایک بار دورانِ سفر کسی گیسٹ ہاؤس میں قیام تھا۔ باورچی کو ہدایت کی کہ ٹِنڈے پکائے۔ پھر کئی بار سمجھایا کہ لال‘ ہری یا کالی‘ کسی قسم کی مرچ نہیں ڈالنی! پھر پوچھا کہ کیا سمجھے؟ کہنے لگا: صاحب! سمجھ گیا ہوں! مرچ کسی قسم کی نہیں ڈالنی! کھانے کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو نِرا زہر ! پوچھا تو کہنے لگا: صاحب! بالکل پھیکا سالن تھا۔ میں نے اس پر چاٹ مسالا چھڑک دیا ہے!


ربط: ایک اور ہی طرح کا جھگڑا
 

الف نظامی

لائبریرین
پلاؤ میں متانت ہے۔ شرافت ہے‘ شان وشوکت ہے ‘ روایت ہے‘ آہستگی ہے‘ نرمی ہے اور ایک خاص قسم کا تہذیبی رچاؤ ہے!
بریانی میں دھوم دھڑکّا ہے۔ شور وغل ہے۔

واہ کیا جامع جملے ہیں۔ دو سطروں میں پورے کالم کا نچوڑ مل گیا۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
تو کیا آج سے چند سو سال پہلے ہمارے کھانوں میں مرچیں نہیں ڈلتی تھیں؟
فی زمانہ، بغیر مرچوں کے پکائے جانے والے پکوانوں کے نام تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
جھگڑا تو واقعی ہے۔ مہمان داری کے لیے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ بریانی یا پلاؤ۔
مرچ کا ذکر تو بہت ہوا اس مضمون میں لیکن گرم مصالحے کا تذکرہ نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں تو کئی لوگ گرم مصالحہ بھی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ دیگ بنوائیں تو چنوں کے پلاؤ کی بھی ہو تب بھی دبا کے ثابت گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کھایا بھی نہیں جاتا۔
 

علی وقار

محفلین
کئی لوگ گرم مصالحہ بھی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ دیگ بنوائیں تو چنوں کے پلاؤ کی بھی ہو تب بھی دبا کے ثابت گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کھایا بھی نہیں جاتا۔
خدا آپ کا بھلا کرے۔ ایسا ہی ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
جزاک اللہ علی وقار بھائی ۔

نیٹ گردی بلکہ استاد چیٹ جی پی ٹی سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سیاہ مرچ ہند الاصل ہے اور بھارتی ریاست کیرالہ میں آج بھی اعلیٰ درجے کی سیاہ مرچ بہت بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
ایک کینیڈین نے مجھے ایک بار بتایا کہ کینیڈا کے کھانوں میں سیاہ مرچ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو ہری و سرخ مرچوں اور سیاہ مرچ نے اپنے وطن ایک دوسرے سے بدل لیے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہماری تو اپنی مددگار یہ سمجھتی ہیں کہ جتنے مصالحہ جات ڈبوں میں پڑے ہیں، سب ہی کا استعمال کریں اور خوب کریں، تب ہی کھانا اچھا بن سکتا ہے۔ سمجھا سمجھا کے ٰہتھ ہولاٰ رکھنے کو کہا ہے۔ ورنہ ہم تو گرم مصالحے کے لوازمات نکالتے نکلاتے کھانا ڈھنڈا کر لیتے تھے۔ اب بھی کبھی انھیں جوش آ جائے تو کوئی مائی کا لال انھیں روک نہیں سکتا۔:love:
 
آخری تدوین:

فہیم

لائبریرین
ہماری طرف پلاؤ اور بریانی کا رشتہ طے ہوچکا ہے اور ایک نئی قسم کی ڈش بنام ٰپلاؤبریانیٰ وجود میں آچکی ہے۔
جس کی ترکیب کچھ یوں ہے کہ گوشت کی یخنی بنائی جاتی ہے جس میں پلاؤ کے تمام اجزاء یعنی سونف، دھنیا، لہسن وغیرہ ڈالا جاتا ہے۔
پھر یخنی سے گوشت کو علیحدہ کرکے مسالوں کے ساتھ پکایا جاتاہے جس میں عموماً بریانی کے مسالے شامل ہوتے ہیں۔ بعد میں چاول اور اور یخنی شامل کرکے دم دے دیا جاتا ہے۔
اور آپ کو کھانے کو ملتا ہے یا ملتی ہے لذید پلاؤ بریانی۔
 

عثمان

محفلین
یہ پلاؤ ہی ہے جو دنیا بھر میں مختلف ناموں سے مقبول ہے۔ مصالحے کا جگاڑ اسے بر صغیر میں لگایا گیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جھگڑا تو واقعی ہے۔ مہمان داری کے لیے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ بریانی یا پلاؤ۔
مرچ کا ذکر تو بہت ہوا اس مضمون میں لیکن گرم مصالحے کا تذکرہ نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں تو کئی لوگ گرم مصالحہ بھی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ دیگ بنوائیں تو چنوں کے پلاؤ کی بھی ہو تب بھی دبا کے ثابت گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کھایا بھی نہیں جاتا۔
یہ کن لوگوں کی اور کہاں کی بات ہو رہی ہے ؟
گرم مصالحہ زیادہ کیوں ڈالا جاتا ہے ؟ کیا انہیں پلاؤ بنانا نہیں آتا ؟
 

محمداحمد

لائبریرین
پلاؤ اور بریانی کا جھگڑا بھی بہت دلچسپ ہے۔

ہمارے ہاں کراچی والے بریانی کی طرفدار ہیں اور حیدرآباد والے پلاؤ پر فدا ہیں۔ اسی بات پر ایک دوسرے سے مکالمے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ :)
مزے کی بات یہ ہے کہ کراچی والے حیدرآباد کا پلاؤ بھی بہت شوق سے کھاتے ہیں اور حید ر آباد والے بھی مین میخ نکالنے کے ساتھ ساتھ بریانی کھاتے ہیں، اعراض نہیں برتتے۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
حیدرآباد شہر میں تو پلاؤ ہر گلی کوچے میں بکتا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ریستوران والے پلاؤ پر ہی چل رہے ہیں۔

یہاں کے لوگ بھی پلاؤ کھانے کے بہت شوقین ہیں اور یہاں کم و بیش چوبیس گھنٹے پلاؤ کہیں نہ کہیں مل جاتا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ کن لوگوں کی اور کہاں کی بات ہو رہی ہے ؟
گرم مصالحہ زیادہ کیوں ڈالا جاتا ہے ؟ کیا انہیں پلاؤ بنانا نہیں آتا ؟

اب وہ سفید رنگ کا پلاؤ خال خال ہی نظر آتا ہے کہ جس میں نفاست کی خاطر لہسن وغیرہ بھی پوٹلی میں باندھ کر ڈالے جاتے تھے اور سفید چاولوں کے ساتھ صرف سیاہ زیرہ نظر آتا تھا، اس کے علاوہ گرم مسالے کی کوئی شے اس میں نظر نہیں آتی تھی۔ :) :)
 

جاسمن

لائبریرین
پچھلی بڑی عید کے بعد کسی دن کا ذکر ہے کہ ہم نے اپنے سگھڑاپے کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچھلے دنوں میں کسی دن پلاؤ کی یخنی بنا کے فریز کی تھی۔ اُس دن کہ جس دن کا ہم ذکر کر رہے ہیں، وقت کی نزاکت اور کمیاب ہونے کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم نے بڑے زعم سے یخنی نکالی اور اس سے کہیں زیادہ فخر سے اس میں چاول ڈال کے تسّلی کا دم لگا دیا۔ ساتھ ہی بڑے گوشت کے کباب بھی تل لیے۔ شام کے بعد اور رات سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔ صاحب کو دے کے پڑوسیوں کو بھیجنے لگی کہ صاحب نے ٹوک دیا کہ نہ بھیجو۔ یہ فخریہ پیشکش کی بجائے کچھ نامناسب سی پیشکش لگ رہی ہے۔ ہم نے بیویانہ تیوری چڑھائی اور بیویانہ ہی شانِ بے نیازی سے اپنی فخریہ پیشکش ساتھ والے ہمسائے کے گھر بھیجوا دی۔ اوپر چند کباب بھی رکھ دیے۔ خود کھانے لگے تو بہت مزہ آ رہا تھا اور سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ یہ پلاؤ ہے یا آخر کیا ہے؟ پلاؤ نہیں لگ رہا تھا لیکن فریزر میں تو یخنی رکھی گئی تھی۔ پھر وہاں حالات کیسے بدل گئے؟ جادو کیسے ہو گیا؟ صاحب نے یہ کیوں کہا کہ ساتھ والوں کو نہ بھیجو۔ کیا انھیں پسند نہیں آیا۔ ان سے پوچھنا نوّے آں دا گھاٹا۔ اس فخریہ پیشکش پہ کوئی تہمت برداشت کرنی مشکل۔ سو چُپکے ہو رہے کہ صاحب کو فون آیا۔ ساتھ والی ہمسائی کے صاحب ہمارے صاحب سے۔
بھئی جو پلاؤ آپ نے بھیجا ہے، وہ اور بھیجیں، بہت مزے کا ہے۔
ہم نے بقیہ بچا سارے کا سارا مزید کباب اوپر رکھ کے پڑوس میں بھیج دیا۔
صاحب پہ دھاک بیٹھی تھی لیکن ہم نے ٹھونک ٹھونک کے اچھی طرح بٹھائی کہ آئیندہ کافی عرصے تک اٹھنے نہ پائے۔
چند دن بعد پڑوسیوں کو کھانے پہ بلایا تو اس واقعہ کا تذکرہ بھی ہوا۔ ہم نے پڑوسیوں کی بے تکلفی کی تعریف کی اور انھوں نے ہمارے پلاؤ کی۔۔۔
جو کہ
بریانی کا ادھورا مصالحہ بنا کے رکھا گیا تھا فریزر میں اور ہم نے یخنی سمجھ کے چاول ڈالے اور تسلی کے دم پہ لگا دیا تھا۔
سو یہ پلاؤ والی بریانی یا بریانی والا پلاؤ زیادہ مزے کا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پچھلی بڑی عید کے بعد کسی دن کا ذکر ہے کہ ہم نے اپنے سگھڑاپے کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچھلے دنوں میں کسی دن پلاؤ کی یخنی بنا کے فریز کی تھی۔ اُس دن کہ جس دن کا ہم ذکر کر رہے ہیں، وقت کی نزاکت اور کمیاب ہونے کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم نے بڑے زعم سے یخنی نکالی اور اس سے کہیں زیادہ فخر سے اس میں چاول ڈال کے تسّلی کا دم لگا دیا۔ ساتھ ہی بڑے گوشت کے کباب بھی تل لیے۔ شام کے بعد اور رات سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔ صاحب کو دے کے پڑوسیوں کو بھیجنے لگی کہ صاحب نے ٹوک دیا کہ نہ بھیجو۔ یہ فخریہ پیشکش کی بجائے کچھ نامناسب سی پیشکش لگ رہی ہے۔ ہم نے بیویانہ تیوری چڑھائی اور بیویانہ ہی شانِ بے نیازی سے اپنی فخریہ پیشکش ساتھ والے ہمسائے کے گھر بھیجوا دی۔ اوپر چند کباب بھی رکھ دیے۔ خود کھانے لگے تو بہت مزہ آ رہا تھا اور سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ یہ پلاؤ ہے یا آخر کیا ہے؟ پلاؤ نہیں لگ رہا تھا لیکن فریزر میں تو یخنی رکھی گئی تھی۔ پھر وہاں حالات کیسے بدل گئے؟ جادو کیسے ہو گیا؟ صاحب نے یہ کیوں کہا کہ ساتھ والوں کو نہ بھیجو۔ کیا انھیں پسند نہیں آیا۔ ان سے پوچھنا نوّے آں دا گھاٹا۔ اس فخریہ پیشکش پہ کوئی تہمت برداشت کرنی مشکل۔ سو چُپکے ہو رہے کہ صاحب کو فون آیا۔ ساتھ والی ہمسائی کے صاحب ہمارے صاحب سے۔
بھئی جو پلاؤ آپ نے بھیجا ہے، وہ اور بھیجیں، بہت مزے کا ہے۔
ہم نے بقیہ بچا سارے کا سارا مزید کباب اوپر رکھ کے پڑوس میں بھیج دیا۔
صاحب پہ دھاک بیٹھی تھی لیکن ہم نے ٹھونک ٹھونک کے اچھی طرح بٹھائی کہ آئیندہ کافی عرصے تک اٹھنے نہ پائے۔
چند دن بعد پڑوسیوں کو کھانے پہ بلایا تو اس واقعہ کا تذکرہ بھی ہوا۔ ہم نے پڑوسیوں کی بے تکلفی کی تعریف کی اور انھوں نے ہمارے پلاؤ کی۔۔۔
جو کہ
بریانی کا ادھورا مصالحہ بنا کے رکھا گیا تھا فریزر میں اور ہم نے یخنی سمجھ کے چاول ڈالے اور تسلی کے دم پہ لگا دیا تھا۔
سو یہ پلاؤ والی بریانی یا بریانی والا پلاؤ زیادہ مزے کا تھا۔

اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔

ایک محترمہ اپنے شوہر سے کہنے لگیں۔ آج پلاؤ بناؤں یا بریانی۔

شوہر نے کہا۔ پہلے تم بنا لو۔ پھر ہم فیصلہ کر لیں گے کہ یہ پلاؤ ہے یا بریانی۔ :) :)

----

ویسے آپ کے معاملے میں یہ بات اچھی ہوئی کہ جو بھی بنا مزے دار تھا۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہمارےسسرال میں پیش آیا۔

ہماری ساس نے کڑی بنانے کا قصد کیا، اور کڑی میں فریزر کا رکھا دہی ڈال دیا۔ پھر کڑی پکتی رہی لیکن ہر بار ذائقہ چکھنے پر اُس میں کھٹاس نام کو نہ تھی۔ پھر یہ عقدہ کھلا کہ دہی تو فریزر میں موجود ہے اور دہی کی جگہ دودھ کڑی میں ڈال دیا گیا۔ پھر بعد میں اُس میں دہی وغیرہ ڈال کر ٹھیک کیا گیا۔ :) :) :)
 

وجی

لائبریرین

انور مسعود نے چائے اور لسی کے جھگڑے کو نظم کیا ہے۔ شدید ضرورت ہے کہ پلاؤ اور بریانی کے جھگڑے پر بھی بات کی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ پلاؤ کی جنم بھومی وسط ایشیا ہے۔ سوویت یونین نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تو جہاں کریم‘ کریموف بنا اور عبدالرحمن‘ عبد الرحمانوف بنا وہاں بیچارہ پلاؤ بھی پلاؤف اور پھر پلاف بن گیا۔ اب بہت سے ملکوں میں اسے پلاف کہا جاتا ہے‘ مگر اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے نام ہیں۔ مادہ سب کا پلاؤ ہی ہے۔ وسط ایشیا سے نکل کر پلاؤ پوری دنیا میں پھیلا۔ مغل ہندوستان میں آئے تو ساتھ پلاؤ بھی لائے۔ جنوبی ہند کے تامل دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ پہلے سے موجود تھا مگر یہ دعویٰ باطل ہے۔ بو علی سینا نے اپنی معروف تصنیف ''القانون‘‘ میں پلاؤ کا ذکر کیا ہے۔ شرقِ اوسط میں اسے بخاری پلاؤ کہتے ہیں۔ یہ نسبت بھی وسط ایشیا ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بریانی سے میری اَن بن ذاتی نوعیت کی ہے۔ اس میں مرچ اتنی زیادہ ڈالتے ہیں کہ کم از کم میرے لیے اسے کھانا ایک سزا سے کم نہیں۔ پاک وہند پر اس وقت اصل حکمرانی مرچ کی ہے۔ لال مرچ ہو یا ہری‘ ہر پکوان میں ٹھونسی جاتی ہے۔ سموسہ بھی وسط ایشیا سے آیا۔ میں نے تاشقند میں سموسہ کھایا ہے۔ بے حد شریفانہ اور دوستی سے بھرپور! بیچارہ پاک و ہند میں آیا تو اسے مرچ سے بھر دیا گیا۔ حد یہ ہے کہ نوڈل اور سپیگتی بھی یہاں مرچ اور گھی میں پکائی جاتی ہے۔ معروف ثقافتی محقق سہیل ہاشمی‘ جن کا تعلق بھارت سے ہے‘ کہتے ہیں کہ مغل عہد میں مرچ یہاں تھی ہی نہیں۔ اس کی اصل جائے پیدائش جنوبی امریکہ ہے۔ مہاراشٹر یعنی بمبئی اور اردگرد کے دیگر علاقوں میں اسے پرتگالی لائے۔ اس کے پودوں کو انہوں نے اپنی کوٹھیوں کے اردگرد باڑ کے طور پر استعمال کیا۔ اس باڑ پر رنگا رنگ مرچیں لگتی تھیں۔ ہری‘ سفید‘ سرخ‘ پیلی۔ ان کے گھروں میں کام کرنے والی ‘ گھاٹ کی مقامی عورتوں نے انہیں چکھا تو بھا گئیں۔ انہوں نے اسے اپنے کھانوں میں ڈالنا شروع کر دیا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں جب مرہٹے مار دھاڑ کرتے دہلی پہنچے تو مرچ دہلی پہنچ گئی۔ آج کل جن کھانوں کو مغلئی کھانے کہا جاتا ہے‘ ان کی پہچان ہی مرچ ہے مگر کم ازکم بڑے مغلوں کے زمانے میں ان کے کھانوں میں مرچ تھی ہی نہیں۔ اب تو دلّی کے کھانوں کا جزوِ اعظم مرچ ہے۔ میں نے ستر کی دہائی کے شروع میں سرکاری ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ اُس وقت بوہری بازار میں چاٹ کی ایک دکان بہت مشہور تھی۔ ہم چند دوست وہاں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ اب تو شاید وہاں چاٹ کی کئی دکانیں ہوں۔ (نمکو کی بھی پہلے بوہری بازار میں ایک ہی دکان تھی۔ اب کئی ہیں اور اُس اصل دکان کو تلاش کرنا مشکل ہے) ایک بار ہم چاٹ والی دکان پر بیٹھے چاٹ کھا رہے تھے تو میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ایک صاحب دکان والے کو کہہ رہے تھے ''بھئی مرچ اور بھی ڈالو‘ ہم دِلّی کے ہیں!‘‘۔ مغل جب ہندوستان میں پلاؤ لائے تو کچھ کھانے یہاں سے لیے اور کچھ یہاں والوں کو دیے۔ پان کے وہ رسیا ہو گئے۔ مغل عہد کی فارسی شاعری میں پان کا خوب ذکر ہے۔ آم بھی انہیں بھائے اور اتنے کہ گرویدہ ہو گئے۔ ''رقعات عالمگیری ‘‘ میں اورنگزیب عالمگیر بیٹوں سے شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ آم اچھی کوالٹی کے نہیں بھیجے۔ شاہ جہاں کا رویہ اورنگزیب سے سرد مہری ہی کا رہا۔ اس کے زمانے میں اورنگزیب دکن کا گورنر تھا۔ شاہ جہاں کو بھی اورنگزیب سے یہی شکایت رہی کہ آم اچھے نہیں بھیجے جا رہے۔ پلاؤ جب ہندوستان پہنچا تو اس میں مقامی تبدیلیاں کی گئیں اور یہ بریانی بن گیا۔ اورنگزیب کے ایک بیٹے کے پاس ایک باورچی تھا جو بریانی پکانے کا ماہر تھا۔ اس نے بیٹے سے تقاضا کیا کہ وہ باورچی اس کے پاس بھیجا جائے۔ مگر شہزادہ طرح دے گیا۔ تاہم اورنگزیب جب بھی اس کے ہاں جاتا تو فرمائش کرتا کہ بریانی اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہو۔ مگر یہ بریانی تب تک مرچ سے آلودہ نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو شے پاکستان میں بریانی کے نام سے پکائی اور کھائی جا رہی ہے ‘ اس میں چاول کم اور مرچ زیادہ ڈالی جاتی ہے۔ کبھی اسے سندھی بریانی کا نام دیا جاتا ہے‘ کبھی بمبئی بریانی کا اور کبھی کچھ اور۔ مگر ڈھیروں مرچ سب میں مشترک ہے۔ کھاتے جائیے‘ ناک اور منہ سے دھواں نکالتے جائیے اور زہر معدے میں ڈالتے جائیے! پورے جنوبی ایشیا میں مرچ کا راج ہے۔ میلبورن میں ایک انڈین دکان سے بوندی والے لڈو خرید رہا تھا جو آج کے پاکستان سے اسی طرح غائب ہیں جیسے بوندی غائب ہوئی ہے۔ سری لنکا کی دو عورتیں مرچ کے پیکٹ خرید رہی تھیں۔ ان سے پوچھا کہ اس قدر مرچ کیوں کھاتے ہو؟ کہنے لگیں: دل کے لیے مفید ہوتی ہیں!

کوئی مانے یا نہ مانے ‘ اصل شاہانہ کھانا تو پلاؤ تھا جو اَب خال خال رہ گیا ہے۔ پلاؤ میں متانت ہے۔ شرافت ہے‘ شان وشوکت ہے ‘ روایت ہے‘ آہستگی ہے‘ نرمی ہے اور ایک خاص قسم کا تہذیبی رچاؤ ہے! بریانی میں دھوم دھڑکّا ہے۔ شور وغل ہے۔

دیگر خواتین کی طرح میری بیٹیاں بھی بریانی کے متاثرین میں سے ہیں۔ جب ان سے پلاؤ کی برتری پر بحث کرتا ہوں تو بریانی کو نیچا دکھانے کے لیے یہ بھی کہتا ہوں کہ آخر بریانی کیا ہے؟ چاول کو سالن میں مکس کر دیں تو بریانی بن جاتی ہے۔ مگر اب مجھ جیسے پلاؤ کے شائقین کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ بہت کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جو کچھ مشاعروں میں اُردو شاعری کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کچھ ایسا ہی پلاؤ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پلاؤ کی دیگ کا آرڈر دیں تو منت کر کے کہنا پڑتا ہے کہ مرچ نہیں ڈالنی! مگر وہ باورچی ہی کیا جو بات مان لے! ایک بار دورانِ سفر کسی گیسٹ ہاؤس میں قیام تھا۔ باورچی کو ہدایت کی کہ ٹِنڈے پکائے۔ پھر کئی بار سمجھایا کہ لال‘ ہری یا کالی‘ کسی قسم کی مرچ نہیں ڈالنی! پھر پوچھا کہ کیا سمجھے؟ کہنے لگا: صاحب! سمجھ گیا ہوں! مرچ کسی قسم کی نہیں ڈالنی! کھانے کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو نِرا زہر ! پوچھا تو کہنے لگا: صاحب! بالکل پھیکا سالن تھا۔ میں نے اس پر چاٹ مسالا چھڑک دیا ہے!


ربط: ایک اور ہی طرح کا جھگڑا
میرے خیال میں بریانی پلاؤ کی قسم نہیں نا ہی پلاؤ کے آنے پر بریانی آئی
بریانی ایران سے آئی جہاں اسکا زعفرانی رنگ دراصل زعفران کا استعمال ہی تھا چاولوں میں
اور ہمارے یہاں آئی تو مغل باورچیوں نے اس میں دیگر مسالاجات ملا کر اسکو بریانی بنا دیا ۔
 
Top