ایک بدعتی جملہ اور ہم !

"لوگ کیا کہیں گے" ؟​
آخر ہمیں اس خوف سے کب نجات ملے گی ؟ اگر آپ ایک دیسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو ”لوگ کیا کہیں گے“ آپ نے اپنی زندگی میں متعدد بار سنا ہوگا۔آپ دوستوں کے ساتھ بیرونِ ملک ٹرپ پر جانا چاہتے ہیں، اماں جان ”لوگ کیا کہیں گے“ کہہ کر انکار کر دیتی ہیں۔یہ مخلوق "لوگ" ہیں، اور ان کا ہتھیار ان کی "باتیں"۔ ہمارے درمیان ایسا کون ہے جو لوگوں کی باتوں سے خوفزدہ نہ ہوا ہو؟ چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، سماجی ہویا ذاتی، ہماری زندگیاں لوگوں کی باتوں کے خوف میں گزرتی ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے؟ کا سوال انسان کی ذاتی خواہشات پر سبقت لے جاتا ہے اور ہم اپنی سوچ اور اپنی فطرت کے برعکس لوگوں کی کہی باتوں پر چل پڑتے ہیں ۔کوئی خوشی کا موقع ہو یا غم کا، ہم وہ نہیں‌ کرتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں یا جو کرنے کو ہمارا دل کرتا ہے۔
لوگ کیا کہیں گے؟ سب سے بڑی رکاوٹ ہم میں سے اکثر لوگ کسی کام کو اس وجہ سے نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ہمارا خیال ہے کہ اگر لوگ نہ کہہ رہے ہوتے تو ہم آزادی سے وہ کام کر سکتے تھے۔ متفق؟ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اصل مسئلہ لوگ نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔
آئیے ان تین بدعتی الفاظ سے بچنے کے طریقے پرغوروفکر کرتے ہیں۔
لوگوں کے کچھ کہنے سننے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی اقلیم ذات پر خود حکمرانی کرنا سیکھیں ان کو اس حد تک اپنی ذات میں دخیل نہ کریں کہ ہر وقت خود کو منوانے کے لئے آپ کو اپنے گلے کی رگیں پُھلا پُھلا کر متاثر کرنا پڑے۔اس سے آپ کی شخصیت کا موجودہ قد مزید چھوٹا ہو جائے گا۔ آپ کے ذہن میں ہر وقت یہ بات رہنی چاہئے کہ آپ جو بھی عمل کریں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ہو بلکہ کوشش کریں کہ ہر لمحہ اس کے عذاب سے ڈر کر رہیں تاکہ فرشتے آپ کے اعمال نامے میں اچھی رائے درج کریں یہ دنیا اور دنیا کے لوگ آپ کو اچھا یا برا کہہ کر روز قیامت آپ کے اعمال کے میزان میں کچھ بھی نہیں ڈال سکیں گے۔ رائے صرف وہی رکھی جائے گی تب اپنے لئے جہنم یا جنت کا فیصلہ سن کر آپ یہ نہ کہہ سکیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے آپ کا اچھا یا برا انجام صرف آپ کے سامنے ہو گا جسے قبول کرنا ہو گا آپ کے ارد گرد جھوٹے، دوغلے اور مکار لوگ موجود نہیں ہونگے۔ جنہیں دیکھ کر آپ کہ سکیں کہ ہائے اللہ یہ لوگ کیا کہیں گے۔؟ ہمارے انجام کودیکھ کر کیا کیا باتیں بنائیں گے۔؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے بارے میں یہی سوچ کر غلط زندگی گزاری ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
یاد رکھئے زندگی آپ کی ہے اسے گزارنا بھی آپ کا ذاتی عمل ہے یہ کسی کے کچھ کہنے یا نہ کہنے پر انحصار نہیں کر رہی، آپ نیک، پاکیزہ اور ایسی سادہ زندگی گزارئیے کہ اس دنیا سے آپ کے رخصت ہو جانے کے بعد لوگ کہہ سکیں کہ آپ نے جو زندگی گزاری ہے اس سے ان کو فائدہ پہنچا ہے، کوئی اچھا سبق ملا ہے بلکہ یہ کہ اسے یاد کر کے وہ لوگ خود بھی ”لوگ کیا کہیں گے“ کے دائرہ ضرر سے آپ کی طرح باہر نکل گئے ۔
یہی انسان کی بعد از موت دوسروں پر فتح حاصل کر لینے کی فاتح دلیل ہے بلکہ اگر آپ نے تمام عمر نیکی، پاکبازی اور دوسروں کی فلاح و اصلاح کے حوالے سے گزاری ہے تو یہ صدقہ جاریہ ہو گا آپ کو تادیر یاد رکھا جائے گا اور اس حوالے سے بھی یاد رکھا جائے گا کہ آپ ”لوگ کیا کہیں گے “ کے سستے روئیے اور نعرے سے بھی باغی رہے ہیں تبھی زندگی کو ذاتی سوچ کے تحت خوش اسلوبی سے گزارا اور یہی ہمارے نزدیک ایک انسان کی عارضی اور ارضی زندگی کا مقصد وحید ہے۔
انٹرنیٹ سے ماخوز۔
 
"لوگ کیا کہیں گے" ؟​
آخر ہمیں اس خوف سے کب نجات ملے گی ؟ اگر آپ ایک دیسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو ”لوگ کیا کہیں گے“ آپ نے اپنی زندگی میں متعدد بار سنا ہوگا۔آپ دوستوں کے ساتھ بیرونِ ملک ٹرپ پر جانا چاہتے ہیں، اماں جان ”لوگ کیا کہیں گے“ کہہ کر انکار کر دیتی ہیں۔یہ مخلوق "لوگ" ہیں، اور ان کا ہتھیار ان کی "باتیں"۔ ہمارے درمیان ایسا کون ہے جو لوگوں کی باتوں سے خوفزدہ نہ ہوا ہو؟ چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، سماجی ہویا ذاتی، ہماری زندگیاں لوگوں کی باتوں کے خوف میں گزرتی ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے؟ کا سوال انسان کی ذاتی خواہشات پر سبقت لے جاتا ہے اور ہم اپنی سوچ اور اپنی فطرت کے برعکس لوگوں کی کہی باتوں پر چل پڑتے ہیں ۔کوئی خوشی کا موقع ہو یا غم کا، ہم وہ نہیں‌ کرتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں یا جو کرنے کو ہمارا دل کرتا ہے۔
لوگ کیا کہیں گے؟ سب سے بڑی رکاوٹ ہم میں سے اکثر لوگ کسی کام کو اس وجہ سے نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ہمارا خیال ہے کہ اگر لوگ نہ کہہ رہے ہوتے تو ہم آزادی سے وہ کام کر سکتے تھے۔ متفق؟ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اصل مسئلہ لوگ نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔
آئیے ان تین بدعتی الفاظ سے بچنے کے طریقے پرغوروفکر کرتے ہیں۔
لوگوں کے کچھ کہنے سننے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی اقلیم ذات پر خود حکمرانی کرنا سیکھیں ان کو اس حد تک اپنی ذات میں دخیل نہ کریں کہ ہر وقت خود کو منوانے کے لئے آپ کو اپنے گلے کی رگیں پُھلا پُھلا کر متاثر کرنا پڑے۔اس سے آپ کی شخصیت کا موجودہ قد مزید چھوٹا ہو جائے گا۔ آپ کے ذہن میں ہر وقت یہ بات رہنی چاہئے کہ آپ جو بھی عمل کریں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ہو بلکہ کوشش کریں کہ ہر لمحہ اس کے عذاب سے ڈر کر رہیں تاکہ فرشتے آپ کے اعمال نامے میں اچھی رائے درج کریں یہ دنیا اور دنیا کے لوگ آپ کو اچھا یا برا کہہ کر روز قیامت آپ کے اعمال کے میزان میں کچھ بھی نہیں ڈال سکیں گے۔ رائے صرف وہی رکھی جائے گی تب اپنے لئے جہنم یا جنت کا فیصلہ سن کر آپ یہ نہ کہہ سکیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے آپ کا اچھا یا برا انجام صرف آپ کے سامنے ہو گا جسے قبول کرنا ہو گا آپ کے ارد گرد جھوٹے، دوغلے اور مکار لوگ موجود نہیں ہونگے۔ جنہیں دیکھ کر آپ کہ سکیں کہ ہائے اللہ یہ لوگ کیا کہیں گے۔؟ ہمارے انجام کودیکھ کر کیا کیا باتیں بنائیں گے۔؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے بارے میں یہی سوچ کر غلط زندگی گزاری ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
یاد رکھئے زندگی آپ کی ہے اسے گزارنا بھی آپ کا ذاتی عمل ہے یہ کسی کے کچھ کہنے یا نہ کہنے پر انحصار نہیں کر رہی، آپ نیک، پاکیزہ اور ایسی سادہ زندگی گزارئیے کہ اس دنیا سے آپ کے رخصت ہو جانے کے بعد لوگ کہہ سکیں کہ آپ نے جو زندگی گزاری ہے اس سے ان کو فائدہ پہنچا ہے، کوئی اچھا سبق ملا ہے بلکہ یہ کہ اسے یاد کر کے وہ لوگ خود بھی ”لوگ کیا کہیں گے“ کے دائرہ ضرر سے آپ کی طرح باہر نکل گئے ۔
یہی انسان کی بعد از موت دوسروں پر فتح حاصل کر لینے کی فاتح دلیل ہے بلکہ اگر آپ نے تمام عمر نیکی، پاکبازی اور دوسروں کی فلاح و اصلاح کے حوالے سے گزاری ہے تو یہ صدقہ جاریہ ہو گا آپ کو تادیر یاد رکھا جائے گا اور اس حوالے سے بھی یاد رکھا جائے گا کہ آپ ”لوگ کیا کہیں گے “ کے سستے روئیے اور نعرے سے بھی باغی رہے ہیں تبھی زندگی کو ذاتی سوچ کے تحت خوش اسلوبی سے گزارا اور یہی ہمارے نزدیک ایک انسان کی عارضی اور ارضی زندگی کا مقصد وحید ہے۔
انٹرنیٹ سے ماخوز۔
بہت خوب عدنان بھیا۔ بہت اہم مسئلے پر بات کی آپ نے اور اس حوالے سے آپ کا نظریہ جان کر خوشی ہوئی۔ جزاک اللہ

میں ایک روایتی خاندان کا (باغی) چشم و چراغ ہوں اس لئے یہ جملہ مجھے اکثر سننے کو ملتا رہا۔ اور ہر بار میرا ایک ہی جواب رہا کہ
"لوگ جو کہیں گے وہ میں سن لوں گا، آپ یہ بتائیں کہ اللہ اور ہمارے نبی ﷺ کیا کہیں گے"؟
اب مجھ سے کوئی نہیں کہتا کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔ کچھ لوگ لاجواب ہونے کے ڈر سے نہیں کہتے اور کچھ لوگ مجھ بدتمیز کے منہ لگنے سے بچنے کے لئے :)
 

اے خان

محفلین
یو خوا پختو بل خوا جانان دے
زہ د پختو زنجیر شلوم جانان لہ زم
ترجمہ. ایک طرف پشتو(پشتونولی کا قانون) اور دوسری طرف میرا محبوب میں پشتو کی زنجیر توڑ کر اپنے محبوب کے پاس جارہی ہوں.
 
بہت خوب عدنان بھیا۔ بہت اہم مسئلے پر بات کی آپ نے اور اس حوالے سے آپ کا نظریہ جان کر خوشی ہوئی۔ جزاک اللہ

میں ایک روایتی خاندان کا (باغی) چشم و چراغ ہوں اس لئے یہ جملہ مجھے اکثر سننے کو ملتا رہا۔ اور ہر بار میرا ایک ہی جواب رہا کہ
"لوگ جو کہیں گے وہ میں سن لوں گا، آپ یہ بتائیں کہ اللہ اور ہمارے نبی ﷺ کیا کہیں گے"؟
اب مجھ سے کوئی نہیں کہتا کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔ کچھ لوگ لاجواب ہونے کے ڈر سے نہیں کہتے اور کچھ لوگ مجھ بدتمیز کے منہ لگنے سے بچنے کے لئے :)
شکریہ راجا بھیا،آپ کے اظہار محبت پر مشکور ہوں،
ہمارا بھی یہی رونا رہا ہے،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بس اب ہم وہ کرتے ہیں جو ہمارا دل چاہتا ہے۔محفل پر بھی لوگ ہم سمجھتے رہتے ہیں مگر ہم نے خود اپنے لیے" ڈھیٹ" کا خطاب تجویز کر دیا ہے۔آپ سدا خوش رہیں،آمین
 

جاسمن

لائبریرین
IMG-20180216-_WA0062.jpg
 
Top