ایک بیکل گزاری ہوئی اتوار کی صبح

کیڑے نکالنے کا عمل اختتام پذیر ہوا۔ اب ذرا اس مختصر مگر بھرپور ’’فکاہیے‘‘ کا ’’نصف بہتر‘‘ دیکھتے ہیں۔

ایک بہت مضبوط تاثر کی حامل تحریر ہے۔ موضوع کو دیکھا جائے تو شاید کوئی اس پر غور ہی نہ کرتا ہو، یہ ہمارے فکاہیہ نگار کی زیرک نگاہی ہے کہ ایک بہت عام سی بات کو خاصے کی چیز بنا دیا۔ زبان کا انتخاب موضوع کی مناسبت سے بہت عمدہ ہے، کہ یہاں شوخی نہ آتی تو بات بن ہی نہیں سکتی تھی۔ بہت ساری داد قبول فرمائیے! جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔

اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو چٹکیاں ہم نے کاٹی ہیں، ان کے پیچھے ایک عجیب سا احساس کارفرما ہے۔ وہ بھی جان لیجئے۔
ہمارے دوست محمد خلیل الرحمٰن کی تحریریں بلامبالغہ اس سطح پر ہیں کہ نئے لکھنے والے اُن سے روشنی لیتے ہیں اور حوالہ بھی بناتے ہیں۔ گویا موصوف کی پگڑی خاصی بڑی ہے، ظاہر ہے اس کا بار بھی بڑا ہے! اور باقی سب کچھ آپ کی زیرک نگاہی پر موقوف۔
 
اور ہاں ہم پر ایک اور قوت کا شکریہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اور وہ ہیں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
مادام ۔۔۔۔ بجلی بیگم

جنہوں نے اتنی دیر تک ہمارا ساتھ دیا۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی پر لطف تحریر ہے، آسی بھائی کو شاید کچھ زیادہ ہی فرصت تھی، مادام بجلی نے تو محض ان کا ساتھ دینا قبول کر لیا!! بہر حال ان کے نکات بھی خوب ہیں۔ واقعی ان سے تحریر مزید بہتر ہو سکتی ہے
 
اچھی پر لطف تحریر ہے، آسی بھائی کو شاید کچھ زیادہ ہی فرصت تھی، مادام بجلی نے تو محض ان کا ساتھ دینا قبول کر لیا!! بہر حال ان کے نکات بھی خوب ہیں۔ واقعی ان سے تحریر مزید بہتر ہو سکتی ہے

آپ کی پسندآوری میرے لئے بہت اہم ہے، آداب عرض کرتا ہوں۔رہی بات ’’زیادہ ہی فرصت‘‘ والی! تو جناب محمد خلیل الرحمٰن کا اتنا حق تو ہے نا، کہ ان کے لئے ’’فرصت‘‘ پیدا کر لی جائے، یا کم از کم اس کی کوشش تو کی جائے۔

ایک شعر پیش کرتا ہوں شاید حسبِ حال ہو (بجلی کے حوالے سے)
درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غواصِ شوق​
موج خود کشتی بنی گرداب چپو کر دئے​
 
آپ کی پسندآوری میرے لئے بہت اہم ہے، آداب عرض کرتا ہوں۔رہی بات ’’زیادہ ہی فرصت‘‘ والی! تو جناب محمد خلیل الرحمٰن کا اتنا حق تو ہے نا، کہ ان کے لئے ’’فرصت‘‘ پیدا کر لی جائے، یا کم از کم اس کی کوشش تو کی جائے۔

استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی بھائی!
آپ کی محبتوں کے مقروض ہیں اور اس قرض کو اُتارنے کے لیے نقدِ جاں بھی کافی نہیں۔
ہمارے مضمون کی کیا خوبصورت شکل نکالی ہے۔ بہت شکریہ قبول فرمائیے۔ ہم پہلی فرصت میں آپ کی تدوین کی روشنی میں درستی کردیں گے۔
سدا خوش رہیے ۔
 
استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی بھائی!
آپ کی محبتوں کے مقروض ہیں اور اس قرض کو اُتارنے کے لیے نقدِ جاں بھی کافی نہیں۔
ہمارے مضمون کی کیا خوبصورت شکل نکالی ہے۔ بہت شکریہ قبول فرمائیے۔ ہم پہلی فرصت میں آپ کی تدوین کی روشنی میں درستی کردیں گے۔
سدا خوش رہیے ۔

شاخ پر حسن مسکراتا ہے
غازۂ نورِ اولینِ سحر
اور مشّاط قطرۂ شبنم
چند گھڑیوں کی بات ہوتی ہے
زندگی بھر کو ساتھ رہتی ہے

کام بھی آپ کا ہے، حضرت! اور حسن بھی آپ کا! ہم نے ذرا مشاطگی کی کوشش کر لی، آپ کو بھا گئی، اپنی محنت ٹھکانے لگی!
 

عثمان قادر

محفلین
بہت خوب
ہمیں تو بیگم خود ہی حسیناؤں کی تصویریں دکھا دیتی ہے ۔۔۔۔۔
کسی کا سُوٹ اچھا ہے تو کسی کے جھمکے اور یہ واحد موقع ہے جب یہ ساری حسینائیں مجھے زہر لگتی ہیں ۔۔۔۔
 
تمہيد:

اتوار کی خوبصورت صبح جوں ہی ہمارے چہرے پر طلوع ہوئی، يعنی ہماری نصف بہتر نے ہمارے چہرے پر سے چادر ہٹاتے ہوئے ہميں يہ روح فرسا خبر سنائی کہ ہمارا پيارا اخبار پانی سے بھری ہوئی بالٹی کی نذر ہوچکا ہے، ہم بے چين ہوگئے ۔ اتوار کی خوبصورت صبح گئی بھاڑ ميں، اور تمام تر سُکھ چين اِس بے کلی کی نذر ہوئے۔

اتوار کی صبح ايک مہذب انسان کے ليے سب سے خوش گوار وہ لمحات ہوتے ہيں جب آنکھ کھلتے ہی بيگم کی سُريلی آواز کانوں ميں رس گھولتی ہے: ’’ليجيے يہ آپ کا نگوڑا اخبار آگيا ہے۔‘‘

اب ہم اخبار کو بائيں ہاتھ سے تھامتے ہيں، آنکھيں بند کيے ہی اسے کھولنے کی تگ و دو کرتے ہيں ، داہنے ہاتھ سے اپنی عينک سنبھالتے ہوئے اسے اپنی ناک پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ سے يوں گويا ہوتے ہيں: ’’بيٹا ! لو اب آنکھيں کھولو‘‘۔ اخبار ميں خبروں کا سيکشن، مقامي سيکشن اور کتب کي دنيا کے علاوہ ايک اور اہم حصہ ہمارا منتظر ہوتا ہے جہاں حسينانِ جہاں کي رنگين اور خوبصورت تصويريں سجي ہوتي ہيں۔ ہم دنيا و مافيہا سے بے خبر اس حسين دنيا ميں کھوسے جاتے ہيں۔ ہالي وڈ، بالي وڈ اور لالي وڈ کي چٹ پٹي خبريں اور حسينانِ ختن کي شوخ و چنچل ، اداؤں بھري رنگ برنگي تصويريں۔

ليکن آج يہ کيا غضب ہوگيا ۔ آن کي آن ميں يہ کيا ماجرا ہوگيا کہ اخبار کا اخبار پاني ميں شرابور ہوگيا۔ ہائے حسينانِ ختن ! کے پاني ميں بھيگے ہوئے چہرے۔۔۔ اُف وہ توبہ شکن حسنِ نمکين ۔۔ ہمارا مطلب ہے، ارے کوئي ہے جو اس اخبار کو خشک کر دے تاکہ ہم گزرے ہوئے کل کي وہ خبريں پڑھ سکيں جنہيں ٹي وي اسکرين پر نہيں ديکھ سکے تھے۔ اور اس طرح اپني معلومات ميں اضافہ کريں۔ مطالعہ علم حاصل کرنے کا ايک بڑا اہم ذريعہ ہے۔

اپني اس دُہائي کاکوئي خاطر خواہ جواب نہ پاکر ہم نے صورتِ حال کا بغور جائزہ لينے کي ٹھاني اور مائل بہ عمل ہوگئے۔۔

پس منظر:

ہمارا اخبار والا روز کا اخبار تو کچن کي بالکوني سے اوپر پھينکتا ہے، البتہ اتوار کا اخبار ضخيم ہونے کي وجہ سے اوپر آکر دروازے کي نچلي درز سے اندر سرکا ديتا ہے۔ يہ اس کا معمول ہے۔

پيش منظر:

آج چونکہ ہمارا معمول کا اخبار والا چھٹي پر تھا لہٰذا اس کي جگہ لينے والے نے اتوار کا ضخيم اخبار بھي بنڈل بناکر بالکوني سے اوپر کي جانب اچھال ديا ۔ حسنِ اتفاق کہيے يا سوئے اتفاق، کل رات پاني کي فراہمي ميں تعطل کے پيشِ نظر ہماري نصف بہتر نے (حفظِ ما تقدم کے طور پر )کچن کي بالکوني ميں ايک عدد بالٹي پاني سے بھري رکھ چھوڑي تھي تاکہ سحري ميں برتن دھونے کے کام آئے۔ وہ بالٹي اس طرح داشتہ آيد بکار کے مصداق کام آئي کہ اخبار نے فوراً اس کے اندر گھر کيا اور مآلِ کار ہمارے چہرے پر چھينٹے اُڑاتے ہوئے ہمارے ہاتھوں ميں آيا۔

اشيائے ضرورت:

ہمارے اِس تجربے کے ليے مندرجہ ذيل نکات کا خيال رکھنا نہايت ضروري ہے
1.برقي رو کي فراہمي ميں تعطل نہ ہو۔
2.اخبار اتوار ہي کا ہو
3.گھر ميں موجود بجلي کي استري قابلِ استعمال ہو اور اِس ميں کوئي بنيادي نقص نہ ہو۔
ہمارا کامياب تجربہ:
ہم نے سب سے پہلے احتياط کے جملہ تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خبروں کا حصہ اُٹھايا اور اس کے صفحات پر نہايت احتياط سےاستري پھيرتے چلے گئے۔ جب وہ کافي حد تک خشک ہوگيا تو اسے اپنے بستر پر ہلکے پنکھے ميں سوکھنے کے ليے پھيلا ديا۔ پھر مقامي سيکشن پر ہاتھ صاف کيا اور سب سے آخر ميں کتب دنيا پر اچھي طرح تجربہ کرنے کے بعد ہم تيار تھے کہ اپنے پسنديدہ اتوارميگزين کو خشک کريں جہاں پر چند حسينوں کے پاني ميں بھيگے ہوئے نمکين چہرے ہمارے منتظر تھے۔ ليکن!!! نصف بہتر کي قہر آلود نظروں نے ہميں اس منصوبے پر عمل درآمد سے باز رکھا اور ہم ان خوب صورت چہروں کوبستر پر پھيلا کر باقي ماندہ خشک اخبار کي بے مقصد ورق گرداني اور وقت گزاري کرنے لگے۔
ہمارا ناکام انجام:
انتظار، انتظار، انتظار۔۔۔۔۔ اے نسيمِ صبح!، جلد اِس پاني کو خشک کردےتاکہ ہم ان حسيناؤں کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے سہانے دِن کا آغاز کرسکيں۔
سبق:
اس تجربے سے ہميں يہ سبق ملتا ہے کہ اخبار پڑھتے وقت ، خاص طور پر حسينوں کے گداز چہروں پر نظر ڈالتے وقت، خيال رکھيے کہ بيگم صاحبہ کچن ميں مصروف ہيں۔ ان کے قريب آتے ہي خبروں والے حصے کا بغور مطالعہ شروع کرديجيے کہ سياست، صحافت، مذہب، دِگرگوں سماجي و معاشرتي حالات ہي آپ کے مطالعۂ اخبار کا مطمحِ نظر ہيں۔ خبردار
«سيکھے ہيں مہ رخوں کے ليے ہم مصوري»

کا راز کہيں بيگم پر افشاٗ نہ ہوجائے۔

[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Tahoma, arial]http://khazeena.tk/اردو-مضامین/ایک-بيکل-گزاري-ہوئي-اتوار-کي-صبح/[/FONT]​
 

زیک

مسافر
Top