محمد خرم یاسین
محفلین
فیض کی نظم "تنہائی" پڑھتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کسی ٹرانس کی حالت میں ہوں گےجب انھوں نے یہ کہی۔ ہر مصرعہ اپنی جگہ ایک عنوان ہے، ایک افسانہ ہے اور ایک مکمل غزل سے زیادہ مزہ دیتا ہے۔ اس نظم کو تحت اللفظ پڑھنا ایک ایسی آرٹ ہے جو اردو دان طبقے کی علمیت کی قلعی بھی کھول دیتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا!کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اِک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلادئیے قدموں کے سراغ
گل کروشمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کردو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
خرم!
پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا!کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اِک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلادئیے قدموں کے سراغ
گل کروشمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کردو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
خرم!