ایک تازہ غزل اصلاح کیلیے

نا میں شہزادہ کہیں کا، نا پری میرے لیے
فرش ہو بس خاک کا، اور اک دری میرے لیے
ہاں بنا سکتا نہیں ماٹی کے پتلے میں تو کیا؟
آدمی تُو خود بنا، کوزہ گری، میرے لیے
دل لگانے سے ملا نہ آج تک کچھ بھی مجھے
دل لگی سے باز آنا، بہتری میرے لیے
مشکلیں آسان کرتا ہے سبھی وہ چارہ گر
بھول کیوں جاتی اُسے چارہ گری، میرے لیے؟
دل گرفتہ، بال سے شیشے کے، روتا میں رہوں
نا مناسب سی ہے کچھ، شیشہ گری، میرے لیے
شہر کے حاکم کا نامہ تو ملا اظہر مجھے
کار گر ہونے لگی ہے خود سری، میرے لیے
 

الف عین

لائبریرین
اگر اس غزل کو اس بحر میں تبدیل کر دیا جائے تو بہت سے بھرتی کے الفاظ سے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے۔
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
آج کل میں اصلاح کی جگہ تم کو مشق زیادہ کروا رہا ہوں۔
 
محترم اُستاد،
آپ کے حکم کے مطابق غزل کو بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع میں موزوں کرنے کی کوشش کی ہے، پیش خدمت ہے

نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
بوریا میرا ہے اچھا، ہو دری میرے لیے
دے جنہیں دیتا ہے تُو، دنیا و دیں کی نعمتیں
بس یہ کافی ہے مری کوزہ گری، میرے لیے
زندگی پھولوں کی بھی، کانٹوں بنا ممکن نہیں
کیا ہوا جو ہو گئی کانٹوں بھری، میرے لیے
مشکلیں دیتے ہی رہنا، ہوں مگر وہ اسقدر
تجھ سے ممکن ہو سکے، چارہ گری، میرے لیے
ہے تلاتم گر سمندر میں، زمیں بے چین ہے
ایک جیسے ہو گئے خشکی تری، میرے لیے
مسکراوں بھی نہ اظہر، تو کروں میں اور کیا؟
بات کھوٹی تھی، لگی اُن کو کھری میرے لیے
 
محترم اُستاد،
آپ کے حکم کے مطابق غزل کو بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع میں موزوں کرنے کی کوشش کی ہے، پیش خدمت ہے

نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
بوریا میرا ہے اچھا، ہو دری میرے لیے
دے جنہیں دیتا ہے تُو، دنیا و دیں کی نعمتیں
بس یہ کافی ہے مری کوزہ گری، میرے لیے
زندگی پھولوں کی بھی، کانٹوں بنا ممکن نہیں
کیا ہوا جو ہو گئی کانٹوں بھری، میرے لیے
مشکلیں دیتے ہی رہنا، ہوں مگر وہ اسقدر
تجھ سے ممکن ہو سکے، چارہ گری، میرے لیے
ہے تلاطم گر سمندر میں، زمیں بے چین ہے
ایک جیسے ہو گئے خشکی تری، میرے لیے
مسکراوں بھی نہ اظہر، تو کروں میں اور کیا؟
بات کھوٹی تھی، لگی اُن کو کھری میرے لیے
 
کچھ تبدیلیاں اور سمجھ آئی ہیں

نا میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
خاک پر لیٹا رہوں، ہو نہ دری میرے لیے
دے جنہیں دیتا ہے تُو، دنیا و دیں کی نعمتیں
بس یہ کافی ہے مری کوزہ گری، میرے لیے
زندگی پھولوں کی بھی، کانٹوں بنا ممکن نہیں
کیا ہوا جو ہو گئی کانٹوں بھری، میرے لیے
مشکلیں اتنی بری بھی تو نہیں؟ ہوں اسقدر
بعد میں جو ہو سکے چارہ گری، میرے لیے
ہے تلاطم گر سمندر میں، زمیں بے چین ہے
ایک جیسے ہو گئے خشکی تری، میرے لیے
بات اتنی سی ہے اظہر کیسے ہو یہ فیصلہ
تُم کو کھوٹی جو لگے وہ ہو کھری میرے لیے
 
اگر اس غزل کو اس بحر میں تبدیل کر دیا جائے تو بہت سے بھرتی کے الفاظ سے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے۔
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے

نا میں شہزادہ کہیں کا، نا پری میرے لیے
فرش ہو بس خاک کا، اور اک دری میرے لیے
ہاں بنا سکتا نہیں ماٹی کے پتلے میں تو کیا؟
آدمی تُو خود بنا، کوزہ گری، میرے لیے
دل لگانے سے ملا نہ آج تک کچھ بھی مجھے
دل لگی سے باز آنا، بہتری میرے لیے
مشکلیں آسان کرتا ہے سبھی وہ چارہ گر
بھول کیوں جاتی اُسے چارہ گری، میرے لیے؟
دل گرفتہ، بال سے شیشے کے، روتا میں رہوں
نا مناسب سی ہے کچھ، شیشہ گری، میرے لیے
شہر کے حاکم کا نامہ تو ملا اظہر مجھے
کار گر ہونے لگی ہے خود سری، میرے لیے
خوبصورت غزل ہے جناب۔ اگر اسے جناب استادِ محترم کے بتائے ہوئے سانچے’’ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن‘‘ میں ڈھال دیا جائے تو کچھ مندرجہ ذیل شکل نہیں بنتی؟

نہ میں شہزادہ کہیں کا ، نہ پری میرے لیے​
فرش ہو خاک کا اور ایک دری میرے لیے​
گو بنا سکتا نہیں ماٹی کے پتلے میں خود​
آدمی تو ہی بنا، کوزہ گری میرے لیے​
دِل لگانے سے مجھے آج تلک کچھ نہ ملا​
باز آجاؤں تو یہ خوش خبری میرے لیے​
مشکلیں کرتا ہے آسان سبھی چارہ گر​
بھول کیوں جائے اسے چارہ گری میرے لیے​
بال آجائے جو شیشے میں تو روتا ہوں میں​
نہ مناسب سی ہے کچھ شیشہ گری میرے لیے​
حاکمِ شہر کا نامہ تو ملا ہے اظہر​
مجھ کو خوش آئی ہے آشفتہ سری میرے لیے​
 

الف عین

لائبریرین
اظہر نے اس بحر میں ڈھالنے کی ناکام کوشش کی ہے، دیکھو اظہر، تقطیع کہاں جا رہی ہے، اور کس بحر کی نشان دہی کر رہی ہے۔مجھ کو تو خلیل کی اصلاح اتنی پسند آئی ہے کہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اسے من و عن قبول کر لو۔ خلیل کا مقطع تو بطور خاص بہت اچھا ہے۔
 
محترم اُستاد صرف اپنی غلطی جاننا چاہتا ہوں علم کی خاطر، ذرا دیکھیے تو جو تقطیع میں نے کی کیا وہ صحیح ہے؟
نا (2) میں (1)شہ (2) زا (2) دہ(1) ک (1) ہیں (2)کا(2)، نہ(1) پ (1)ری (2)مے (2) رے (2)لی (1)یے(2)
خا (2)ک (1)پر(2) لی (2)ٹا(1) ر(1)ہوں(2)، ہو(2) نہ (1)د (1)ری(2) می (2)رے (2)لی (1)یے(2)
دے جنہیں دی (فاعلاتن)تا ہے تُو، دن (فعلاتن) یا و دیں کی(فعلاتن) نعمتیں(فاعلُن)
بس یہ کافی(فاعلاتن) ہے مری کو(فعلاتن)زہ گری، می (فعلاتن)رے لیے(فاعلُن)
زندگی پھو(فاعلاتن) لوں کی بھی، کان (فعلاتن)ٹوں بنا مم (فعلاتن)کن نہیں(فاعلُن)
کیا ہوا جو(فاعلاتن) ہو گئی کان (فعلاتن)ٹوں بھری، می (فعلاتن)رے لیے(فاعلُن)
مشکلیں ات (فاعلاتن)نی بری بھی(فعلاتن) تو نہیں؟ ہوں(فعلاتن) اسقدر(فاعلُن)
بعد میں جو (فاعلاتن)ہو سکے چا (فعلاتن)رہ گری، می (فعلاتن)رے لیے(فاعلُن)
ہے تلاطم(فاعلاتن) جو سمندر(فعلاتن) میں، زمیں بے(فعلاتن) چین ہے(فاعلُن)
ایک جیسے(فاعلاتن) ہو گئے خش (فعلاتن)کی تری، می (فعلاتن)رے لیے(فاعلُن)
بات اتنی (فاعلاتن)سی ہے اظہر (فعلاتن)کیسے ہو یہ (فعلاتن)فیصلہ(فاعلُن)
تُم کو کھوٹی(فاعلاتن) جو لگے وہ (فعلاتن)ہو کھری می(فعلاتن)رے لیےٖاعلُن)
 
محمد اظہر نذیر بھائی!
  • جو بحر آپ استعمال کررہے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن‘‘ ہے ( نا میں شہزادا کہیں کا نا پری میرے لیے)
  • جو بحر استادِ محترم چاہتے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن‘‘ہے ( نہ میں شہزادہ کہیں کا نہ پری میرے لیے) ہے۔
  • آپ کی خوبصورت غزل ماشاء اللہ بحر میں ہے لیکن آپ نے تقطیع میں شاید خیال نہیں کیا،آپ کی غزل کے دونوں درمیانی اجزاء ’فَعِلاتن‘ نہیں بلکہ ’فاعلاتُن‘ ہیں ۔
امید ہے اس فن سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ہم سے کوئی فاش غلطی سر زد نہ ہوئی ہو۔اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
محمد اظہر نذیر بھائی!
  • جو بحر آپ استعمال کررہے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن‘‘ ہے ( نا میں شہزادا کہیں کا نا پری میرے لیے)
  • جو بحر استادِ محترم چاہتے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن‘‘ہے ( نہ میں شہزادہ کہیں کا نہ پری میرے لیے) ہے۔
  • آپ کی خوبصورت غزل ماشاء اللہ بحر میں ہے لیکن آپ نے تقطیع میں شاید خیال نہیں کیا،آپ کی غزل کے دونوں درمیانی اجزاء ’فَعِلاتن‘ نہیں بلکہ ’فاعلاتُن‘ ہیں ۔
امید ہے اس فن سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ہم سے کوئی فاش غلطی سر زد نہ ہوئی ہو۔اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں۔
محمد خلیل الرحمٰن صاحب! آپ کی بات درست ہے لیکن اظہر صاحب نے جو افاعیل درج کیے ہیں یعنی (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فاعلن) اور جن کے مطابق وہ مصرعے موزوں کرنا چاہ رہے ہیں وہ دراصل بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع کے ارکان ہیں ہی نہیں۔
مذکورہ بحر کے آخری رکن کی چار شکلیں ہو سکتی ہیں یعنی فعِلُن، فعِلان، فعلُن اور فعلان لیکن "فاعلن" ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اس بحر کی یہ مختلف شکلیں بنتی ہیں:
  1. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلُن
  2. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعلُن
  3. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
  4. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
  5. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلُن
  6. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعلُن
  7. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
  8. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
 
محمد اظہر نذیر بھائی!
  • جو بحر آپ استعمال کررہے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن‘‘ ہے ( نا میں شہزادا کہیں کا نا پری میرے لیے)
  • جو بحر استادِ محترم چاہتے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن‘‘ہے ( نہ میں شہزادہ کہیں کا نہ پری میرے لیے) ہے۔
  • آپ کی خوبصورت غزل ماشاء اللہ بحر میں ہے لیکن آپ نے تقطیع میں شاید خیال نہیں کیا،آپ کی غزل کے دونوں درمیانی اجزاء ’فَعِلاتن‘ نہیں بلکہ ’فاعلاتُن‘ ہیں ۔
امید ہے اس فن سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ہم سے کوئی فاش غلطی سر زد نہ ہوئی ہو۔اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں۔

بہت نوازش محترم
 
محمد خلیل الرحمٰن صاحب! آپ کی بات درست ہے لیکن اظہر صاحب نے جو افاعیل درج کیے ہیں یعنی (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فاعلن) اور جن کے مطابق وہ مصرعے موزوں کرنا چاہ رہے ہیں وہ دراصل بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع کے ارکان ہیں ہی نہیں۔
مذکورہ بحر کے آخری رکن کی چار شکلیں ہو سکتی ہیں یعنی فعِلُن، فعِلان، فعلُن اور فعلان لیکن "فاعلن" ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اس بحر کی یہ مختلف شکلیں بنتی ہیں:
  1. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلُن
  2. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعلُن
  3. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
  4. فاعلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
  5. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلُن
  6. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعلُن
  7. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
  8. فعِلاتن، فعِلاتُن، فعِلاتُن، فعِلان
بہت شکریہ جناب فاتح صاحب، دراصل میں جیسے کچھ خیال وارد ہوتا ہے لکھ دیتا ہوں ، یہ سوچ سمجھ کر کچھ لکھنے کی کوشش کرنا شاید مشکل ہے میرے لیے، اُستاد محترم نے اجازت دی تو پہلی بحر کو ہی بہتر کرنے کی کوشش کروں گا، ورنہ انتظار جب تک اسے اُن کی پسند مطابق ڈھال نہ لوں
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم اظہر، میرا خیال یہ ہے کہ نسبتاً مختصر بحر میں شاید بھرتی کے الفاظ سے بچ سکو، اس لئے تم کو مشورہ دیا تھا کہ بحر رمل ، بقول فاتح کے بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع، میں اس کو ڈھالنے کی کوشش کرو، لیکن تم نے نہ جانے کس وزن میں ڈھال دی۔ بہر حال پہلے نئی بحر کی کوشش کرو، بعد میں دیکھیں گے اگر اسی بحر میں کچھ بہتری ہو سکے۔
 
محمد اظہر نذیر بھائی!
  • جو بحر آپ استعمال کررہے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن‘‘ ہے ( نا میں شہزادا کہیں کا نا پری میرے لیے)
  • جو بحر استادِ محترم چاہتے ہیں وہ ہمارے ناقص خیال میں ’’فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن‘‘ہے ( نہ میں شہزادہ کہیں کا نہ پری میرے لیے) ہے۔
  • آپ کی خوبصورت غزل ماشاء اللہ بحر میں ہے لیکن آپ نے تقطیع میں شاید خیال نہیں کیا،آپ کی غزل کے دونوں درمیانی اجزاء ’فَعِلاتن‘ نہیں بلکہ ’فاعلاتُن‘ ہیں ۔
امید ہے اس فن سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ہم سے کوئی فاش غلطی سر زد نہ ہوئی ہو۔اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں۔

محترم جناب خلیل صاحب، آداب
اگر ناگوار نہ گزرے تو میرے علم کی خاظر از راہ کرم ایک وضاحت کر دیجیے
مزکورہ بالا صورت میں تقطیع مجھ سے نہیں ہو رہی
کہاں غلطی کر رہا ہوں ؟
’’فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن‘‘ ( نہ میں شہزادہ کہیں کا نہ پری میرے لیے) ۔
نہ (ف) میں (ع) شہزا(لاتن) دہ(ف) ک(ع) ہیں کا(لاتن) نہ (ف) پ(ع) ری مے(لاتن) رے(فع) اب یہاں باقی ہے '' لیے'' یہ فعلن تو نہ ہوا نا؟؟
بہت شکر گزار ہوں گا
خاکسار
اظہر
 
Top