محمد اظہر نذیر
محفلین
نا میں شہزادہ کہیں کا، نا پری میرے لیے
فرش ہو بس خاک کا، اور اک دری میرے لیے
ہاں بنا سکتا نہیں ماٹی کے پتلے میں تو کیا؟
آدمی تُو خود بنا، کوزہ گری، میرے لیے
دل لگانے سے ملا نہ آج تک کچھ بھی مجھے
دل لگی سے باز آنا، بہتری میرے لیے
مشکلیں آسان کرتا ہے سبھی وہ چارہ گر
بھول کیوں جاتی اُسے چارہ گری، میرے لیے؟
دل گرفتہ، بال سے شیشے کے، روتا میں رہوں
نا مناسب سی ہے کچھ، شیشہ گری، میرے لیے
شہر کے حاکم کا نامہ تو ملا اظہر مجھے
کار گر ہونے لگی ہے خود سری، میرے لیے