ایک تازہ غزل اصلاح کیلیے

ایک کوشش اور کی ہے جناب ، دیکھیے تو شاید ٹھیک لگے

نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
نہ ہو چادر نہ سہی، جو ہو دری میرے لیے
تُو بنا ماٹی سے آدم، ہے تری کاری گری
دے وہ داناٗی رہے کوزہ گری میرے لیے
ہاں مجھے اُس سے لگاو تھا، تڑپتا بھی رہا
ہاں محبت رہ گٗی اُس کی دھری، میرے لیے
میں نے دیکھی ہی نہیں راہیں صفا خاروں سے ہوں
ہے یہ الفت کی بھی رہ، کانٹوں بھری، میرے لیے
ہاں بلایا تو ہے اُس نے، گو محبت نہ سہی
ہاں یہ خوش آٗئی ہے آشفتہ سری میرے لیے
نہ سمندر ہی رہا میرا نہ اظہر ہے زمیں
ہیں عدو دونو، یہ خشکی ہو ، تری، میرے لیے
 
ایک کوشش اور کی ہے جناب ، دیکھیے تو شاید ٹھیک لگے

نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
نہ ہو چادر نہ سہی، جو ہو دری میرے لیے
تُو بنا ماٹی سے آدم، ہے تری کاری گری
دے وہ دانائی رہے کوزہ گری میرے لیے
ہاں مجھے اُس سے لگاو تھا، تڑپتا بھی رہا
ہاں محبت رہ گئی اُس کی دھری، میرے لیے
میں نے دیکھی ہی نہیں راہیں صفا خاروں سے ہوں
ہے یہ الفت کی بھی رہ، کانٹوں بھری، میرے لیے
ہاں بلایا تو ہے اُس نے، گو محبت سے نہیں
ہاں یہ خوش آئی ہے آشفتہ سری میرے لیے
نہ سمندر ہی رہا میرا نہ اظہر ہے زمیں
ہیں عدو دونو، یہ خشکی ہو ، تری، میرے لیے
 

الف عین

لائبریرین
یہ بحر رمل تو نہیں ہے اظہر؟ وہی ’فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن‘ ہے۔ ’فَعِلاتن، فعلاتن فعلاتن فعلن نہیں۔اگر چہ بہت سے مصرع دونوں بحور میں فٹ ہوتے ہیں، لیکن تلفظ کے فرق سے۔ رمل میں اکثر الفاظ میں حروف کا اسقاط ہوتا ہے۔ خلیل کا استعمال دیکھو رمل کا۔
 
اُستاد محترم، جناب خلیل صاحب نے
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
میں شعر موزوں کیے ہیں جہاں تم میری ناقص فہم کام کرتی ہے، میں بھی اُسی بحر میں کوشش کرتا ہوں، امید ہے کہ اس بار بہتری نظر آئے گی

میں نہ شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
سیج سجتی ہے مگر، کانٹوں بھری میرے لیے
خاک پر سوتا رہا ہوں یہ غنیمت ہے بڑی
خاکساری میں کفایت ہے دری میرے لیے
بال شیشے میں جو آئے تو بلکتا میں رہوں
نامناسب سی ہے کچھ، شیشہ گری میرے لیے
حاکم دل کا بلاوا جو ملا، کافی سمجھ
مجھ کو خوش آئی ہے آشفتہ سری، میرے لیے
کچھ نہیں بدلہ یہاں، باتیں تری، یادیں تری
زندگی ویسی کی ویسی ہے دھری میرے لیے
`دے جنہیں دیتا ہے وہ، دنیا و دیں کی نعمتیں
اور اظہر ہے صحیح کوزہ گری، میرے لیے
 

الف عین

لائبریرین
میں بعد میں تفصیل سے دیکھتا ہوں اسے۔مقطع کا پہلا مصرع دیکھو، اب بھی اس بحر میں نہیں ہے!!
 
جی اُستاد محترم تبدیل کر دیا ہے ، اب دیکھیے تو
میں نہ شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
سیج سجتی ہے مگر، کانٹوں بھری میرے لیے
خاک پر سوتا رہا ہوں یہ غنیمت ہے بڑی
خاکساری میں کفایت ہے دری میرے لیے
بال شیشے میں جو آئے تو بلکتا میں رہوں
نامناسب سی ہے کچھ، شیشہ گری میرے لیے
حاکم دل کا بلاوا جو ملا، کافی سمجھ
مجھ کو خوش آئی ہے آشفتہ سری، میرے لیے
کچھ نہیں بدلہ یہاں، باتیں تری، یادیں تری
زندگی ویسی کی ویسی ہے دھری میرے لیے
دیکھ ماٹی سے بنایا تھا مجھے اظہر کبھی
اور ماٹی سے چنی کوزہ گری، میرے لیے
 
کچھ تبدیلیاں اور



میں نہ شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
زندگی خاروں سے پھر کیوں ہے بھری میرے لیے
خاک پر سوتا رہا ہوں یہ غنیمت ہے بڑی
فرش ننگا تو نہیں، اب ہے دری میرے لیے
ہے بلاوا تو سہی، گرچہ وہ افسوس کرے
دیکھ خوش آئی ہے آشفتہ سری میرے لیے
کچھ نہ بدلا ہے، وہ باتیں ہوں کہ یادیں ہوں تری
زندگی ویسی کی ویسی ہے دھری میرے لیے
زندگی جیسے کی کٹنے کو دھری تھی چاک پر
کام آئی بھی تو پھر کوزہ گری، میرے لیے
ہے سمندر بھی تو اظہر، جو زمیں بےچین ہے
ایک جیسے ہو گئے خشکی تری میرے لیے
 

الف عین

لائبریرین
مقطع کے علاوہ مزید کچھ مصرع اب بھی طویل والی بحر میں ہیں، فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کی بحر میں۔ تم خود ذرا دھیان سے اپنی اصلاح کرو، اور درست بحر میں لے آؤ، تو آگے بات کی جائے۔ اکثر تم مصرع اولیٰ ہی بدل دیتے ہو، اور اس نئی گرہ میں کچھ اور غلطیاں در آتی ہیں۔
 
معزرت قبول کیجیے اُستاد محترم، پتہ نہیں کیوں یہ غزل نے چکرا دیا ہے، اب دیکھیے تو شائد کچھ بہتر ہوئی ہو


ہوں میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
زندگی خاروں سے لیکن ہے بھری میرے لیے
خاک پر سوتا رہا ہوں یہ غنیمت ہو گئی
فرش ننگا نہ رہا، اب ہے دری میرے لیے
اور بلاوا تھا سہی، گرچہ وہ افسوس کرے
پھر بھی خوش آئی تو آشفتہ سری میرے لیے
کچھ نہ بدلا ہے، وہ باتیں ہوں کہ یادیں ہوں تری
زندگی ویسی کی ویسی ہے دھری میرے لیے
چاک پر رکھا تھا جیون، توکبھی کٹنا ہی تھا
کام آئی بھی تو پھر کوزہ گری، میرے لیے
ہے سمندر بھی تو اظہر، جو زمیں بےچین ہے
ایک جیسے ہو گئے خشکی تری میرے لیے
 

الف عین

لائبریرین
اظہر، پہلے تم خود اس بحر سے مطمئن ہو جاؤ۔
فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
خاک پر سوتا رہا ہوں یہ غنیمت ہو گئی​
ہے سمندر بھی تو اظہر، جو زمیں بےچین ہے​
ایک جیسے ہو گئے خشکی تری میرے لیے​
یہ مصرعے اب بھی اسی دوسری بحر میں ہیں، تقطیع کر کے دیکھو۔اس کے بعد مجھے پکارو، تب تک میں ذرا سو جاتا ہوں۔
 
اظہر، پہلے تم خود اس بحر سے مطمئن ہو جاؤ۔
فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

خاک پر سوتا رہا ہوں یہ غنیمت ہو گئی


ہے سمندر بھی تو اظہر، جو زمیں بےچین ہے


ایک جیسے ہو گئے خشکی تری میرے لیے

یہ مصرعے اب بھی اسی دوسری بحر میں ہیں، تقطیع کر کے دیکھو۔اس کے بعد مجھے پکارو، تب تک میں ذرا سو جاتا ہوں۔
اُستاد محترم،
گستاخی معاف، میں فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن میں کوشش کر رہا تھا
 
لیجیے جناب ایک کوشش اور کیے لیتا ہوں


نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے

دے تو بس دنیا محبت سے بھری میرے لیے


نہ ہو کھٹیا تو چلے فرش بھی خاکی ننگا

نہ ہو چادر نہ سہی بس ہو دری میرے لیے


نہ زمانہ ہی یہ پلٹا، نہ ہی دنیا بدلی

تو نے چھوڑی تھی جہاں ویسی دھری میرے لیے


تو بنا ماٹی سے آدم، وہ تری کاریگری

میں رہوں اور یہ مری کوزہ گری، میرے لیے


نہ رہا میرا سمندر، نہ زمیں میری رہی

یہ نہیں دونو بنے، خشکی تری میرے لیے


نہ ہو کوئی بھی مرے سنگ، تُو بھی اظہر نہ سہی

یہ مری کافی ہے آشفتہ سری میرے لیے
 
Top