محمد اظہر نذیر
محفلین
ایک کوشش اور کی ہے جناب ، دیکھیے تو شاید ٹھیک لگے
نہ میں شہزادہ کہیں کا، نہ پری میرے لیے
نہ ہو چادر نہ سہی، جو ہو دری میرے لیے
تُو بنا ماٹی سے آدم، ہے تری کاری گری
دے وہ داناٗی رہے کوزہ گری میرے لیے
ہاں مجھے اُس سے لگاو تھا، تڑپتا بھی رہا
ہاں محبت رہ گٗی اُس کی دھری، میرے لیے
میں نے دیکھی ہی نہیں راہیں صفا خاروں سے ہوں
ہے یہ الفت کی بھی رہ، کانٹوں بھری، میرے لیے
ہاں بلایا تو ہے اُس نے، گو محبت نہ سہی
ہاں یہ خوش آٗئی ہے آشفتہ سری میرے لیے
نہ سمندر ہی رہا میرا نہ اظہر ہے زمیں
ہیں عدو دونو، یہ خشکی ہو ، تری، میرے لیے