شہنواز نور
محفلین
جگر کا زخم چلو آج یوں سیا جائے
غزل کو حسن مکمل عطا کیا جائے
دکھا کے سارے زمانے کو فائدہ کیا ہے
تمہارے خط کو لفافے میں رکھ دیا جائے
بھٹکتے آ گئے ہم میکدے محبت میں
نہیں ہے جام تو پھر زہر ہی پیا جائے
وفا کے نام پہ مرنا ہمیں بھی آتا ہے
مزہ تو جب ہے جدا ہو کے بھی جیا جائے
مرے خیال کی دنیا سے وہ گزرتا ہے
کہ جیسے ہاتھ میں لے کر کوئی دیا جائے
سنا ہے عشق عبادت ہے لوگ کہتے ہیں
میں سوچتا ہوں ترا نام ہی لیا جائے
گیا وہ نور ترے گھر کے سب چراغوں سے
خدا کرے نہ ستاروں کی یہ ضیا جائے
غزل کو حسن مکمل عطا کیا جائے
دکھا کے سارے زمانے کو فائدہ کیا ہے
تمہارے خط کو لفافے میں رکھ دیا جائے
بھٹکتے آ گئے ہم میکدے محبت میں
نہیں ہے جام تو پھر زہر ہی پیا جائے
وفا کے نام پہ مرنا ہمیں بھی آتا ہے
مزہ تو جب ہے جدا ہو کے بھی جیا جائے
مرے خیال کی دنیا سے وہ گزرتا ہے
کہ جیسے ہاتھ میں لے کر کوئی دیا جائے
سنا ہے عشق عبادت ہے لوگ کہتے ہیں
میں سوچتا ہوں ترا نام ہی لیا جائے
گیا وہ نور ترے گھر کے سب چراغوں سے
خدا کرے نہ ستاروں کی یہ ضیا جائے