ایک تازہ غزل اصلاح کی گزارش ہے

شہنواز نور

محفلین
جگر کا زخم چلو آج یوں سیا جائے
غزل کو حسن مکمل عطا کیا جائے
دکھا کے سارے زمانے کو فائدہ کیا ہے
تمہارے خط کو لفافے میں رکھ دیا جائے
بھٹکتے آ گئے ہم میکدے محبت میں
نہیں ہے جام تو پھر زہر ہی پیا جائے
وفا کے نام پہ مرنا ہمیں بھی آتا ہے
مزہ تو جب ہے جدا ہو کے بھی جیا جائے
مرے خیال کی دنیا سے وہ گزرتا ہے
کہ جیسے ہاتھ میں لے کر کوئی دیا جائے
سنا ہے عشق عبادت ہے لوگ کہتے ہیں
میں سوچتا ہوں ترا نام ہی لیا جائے
گیا وہ نور ترے گھر کے سب چراغوں سے
خدا کرے نہ ستاروں کی یہ ضیا جائے
 
جگر کا زخم چلو آج یوں سیا جائے
غزل کو حسن مکمل عطا کیا جائے
دکھا کے سارے زمانے کو فائدہ کیا ہے
تمہارے خط کو لفافے میں رکھ دیا جائے
بھٹکتے آ گئے ہم میکدے محبت میں
نہیں ہے جام تو پھر زہر ہی پیا جائے
وفا کے نام پہ مرنا ہمیں بھی آتا ہے
مزہ تو جب ہے جدا ہو کے بھی جیا جائے
مرے خیال کی دنیا سے وہ گزرتا ہے
کہ جیسے ہاتھ میں لے کر کوئی دیا جائے
سنا ہے عشق عبادت ہے لوگ کہتے ہیں
میں سوچتا ہوں ترا نام ہی لیا جائے
گیا وہ نور ترے گھر کے سب چراغوں سے
خدا کرے نہ ستاروں کی یہ ضیا جائے

واہ، اچھی غزل ہے شہنوازبھیا، بہت ساری داد

بھٹکتے آ گئے ہم میکدے محبت میں (استادِ محترم محمد ریحان قریشی، آپ کی توجہ کی ضرورت ہے)
خدا کرے نہ ستاروں کی یہ ضیا جائے (ضیا کے ہم قافیہ ہونے پر بھی روشنی ڈالیئے)
 
واہ، اچھی غزل ہے شہنوازبھیا، بہت ساری داد

بھٹکتے آ گئے ہم میکدے محبت میں (استادِ محترم محمد ریحان قریشی، آپ کی توجہ کی ضرورت ہے)
خدا کرے نہ ستاروں کی یہ ضیا جائے (ضیا کے ہم قافیہ ہونے پر بھی روشنی ڈالیئے)
لغات کے مطابق ضیا کا "ض" مکسور ہے اس لیے قافیہ درست ہے۔
میکدے والا مصرع بھی درست معلوم ہو رہا ہے۔
 
ایک دو باتیں ، اگر آپ پسند فرمائیں تو، عرض کرتا ہوں۔
جگر کا زخم چلو آج یوں سیا جائے
غزل کو حسن مکمل عطا کیا جائے
شعر میں دو لختی کا احساس ہے۔ دونوں مصرع ایک دوسرے سے ربط کے طلبگار ہیں۔ جگر کے زخم کا غزل کو حسین بنانے سے تعلق سمجھ نہیں آتا!

دکھا کے سارے زمانے کو فائدہ کیا ہے
تمہارے خط کو لفافے میں رکھ دیا جائے
یہاں بھی تشنگی ہے ! فائدہ اور خط کو لفافے میں واپس رکھنے کا کیا مطلب ہوا یہاں ؟ میری ناقص عقل میں نہیں آیا ۔

بھٹکتے آ گئے ہم میکدے محبت میں
نہیں ہے جام تو پھر زہر ہی پیا جائے
درست لگتا ہے حالانکہ بہت عمومی خیال ہے ! نیا پن کچھ نہیں !
مرے خیال کی دنیا سے وہ گزرتا ہے
کہ جیسے ہاتھ میں لے کر کوئی دیا جائے
یہاں بھی "وہ" کے بجائے "یوں" کا محل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن پھر دوسرے مصرع میں فاعل کو لانا ہوگا !

سنا ہے عشق عبادت ہے لوگ کہتے ہیں
میں سوچتا ہوں ترا نام ہی لیا جائے
"سنا ہے" اور "لوگ کہتے ہیں" تو ایک ہی بات ہوئی بھائی ! یہ مصرع بھی تبدیلی چاہتا ہے

گیا وہ نور ترے گھر کے سب چراغوں سے
خدا کرے نہ ستاروں کی یہ ضیا جائے
"گیا ہے نور ۔۔" شاید زیادہ بہتر ابلاغ کر رہا ہے !

ذرا سی محنت سے غزل عمدہ ہو سکتی ہے ! کوشش کریں !
شکریہ!
 
Top