محمد اظہر نذیر
محفلین
دیر اُس نے کی، رات اُس نے کی
دُکھ بھری کائنات، اُس نے کی
جانتا ہوں اُسے نہیں آنا
فاصلوں کی جو بات اُس نے کی
مجھ کو چھوڑا نہیں کہیں کا بھی
تنگ میری حیات اُس نے کی
بے نیازی مری کو ٹھُکرا کر
پیار میں ذات پات اُس نے کی
دل ہے مسروق، کیا شکایت ہو؟
اک عجب واردات اُس نے کی
کوئی خنجر نہیں چلا اظہر
زخم کیسا ہے؟ بات اُس نے کی
دُکھ بھری کائنات، اُس نے کی
جانتا ہوں اُسے نہیں آنا
فاصلوں کی جو بات اُس نے کی
مجھ کو چھوڑا نہیں کہیں کا بھی
تنگ میری حیات اُس نے کی
بے نیازی مری کو ٹھُکرا کر
پیار میں ذات پات اُس نے کی
دل ہے مسروق، کیا شکایت ہو؟
اک عجب واردات اُس نے کی
کوئی خنجر نہیں چلا اظہر
زخم کیسا ہے؟ بات اُس نے کی