مہدی نقوی حجاز
محفلین
اجالے صبح کے خشیاں سمیٹنے آئے
مرے محبوب تجھے مجھ سے لوٹنے آئے
ابھی تو شہر محبت مرا بسا ہی نہ تھا
کہ قہر و یاس یہ بستی اجاڑنے آئے
اسی کہ گال پہ مہر رقیب دیکھی ہے
بچھائے نظریں جسے آپ دیکھنے آئے
کہ جن کا مان تھا دل میں وہ کچھ خطوں کے جواب
مری امید کے موتی بکھیرنے آئے
حجاز سخت تو تھا پر میں وہ درخت نہ تھا
کہ جس درخت کو طوفاں اکھیڑنے آئے
مرے محبوب تجھے مجھ سے لوٹنے آئے
ابھی تو شہر محبت مرا بسا ہی نہ تھا
کہ قہر و یاس یہ بستی اجاڑنے آئے
اسی کہ گال پہ مہر رقیب دیکھی ہے
بچھائے نظریں جسے آپ دیکھنے آئے
کہ جن کا مان تھا دل میں وہ کچھ خطوں کے جواب
مری امید کے موتی بکھیرنے آئے
حجاز سخت تو تھا پر میں وہ درخت نہ تھا
کہ جس درخت کو طوفاں اکھیڑنے آئے