ایک تازہ غزل ہوئی ہے آپ کی خدمت میں پیش کر دیکھتے ہیں

اجالے صبح کے خشیاں سمیٹنے آئے
مرے محبوب تجھے مجھ سے لوٹنے آئے
ابھی تو شہر محبت مرا بسا ہی نہ تھا
کہ قہر و یاس یہ بستی اجاڑنے آئے
اسی کہ گال پہ مہر رقیب دیکھی ہے
بچھائے نظریں جسے آپ دیکھنے آئے
کہ جن کا مان تھا دل میں وہ کچھ خطوں کے جواب
مری امید کے موتی بکھیرنے آئے
حجاز سخت تو تھا پر میں وہ درخت نہ تھا
کہ جس درخت کو طوفاں اکھیڑنے آئے
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب غزل ہے جناب نقوی صاحب۔

مطلع کے دوسرے مصرعے کو دیکھ لیں، ٹائپو ہے شاید۔ بے وزن ہو رہا ہے۔
 
مطلع کا دوسرا مصرع تھوڑا بے وزن لگرہا ہے۔ اور قافیہ اگر 'لوٹنے" کی جگہ "مانگنے" ہو جائے تو شاید غزل کے لیئے بہتر ہے۔ باقی اساتذہ سے درخواست ہے اگر غلط بول گیا ہوں تو اصلاح کے ساتھ معاف فرمائیں۔
 
عدیل صاحب آپ کی معلومات عامہ سے جو شد بد ہے اس بات کا اندازہ ہمیں خوب طرح ہو چکا ہے اب آپ براہ کرم ہماری شاعری پر دست و پنجہ نرم نہ کیجے۔ :winking:
 

عدیل منا

محفلین
عدیل صاحب آپ کی معلومات عامہ سے جو شد بد ہے اس بات کا اندازہ ہمیں خوب طرح ہو چکا ہے اب آپ براہ کرم ہماری شاعری پر دست و پنجہ نرم نہ کیجے۔ :winking:
نقوی صاحب!
شاعری میں تو ہم ویسے بھی آپ کے قائل ہوگئے ہیں۔ اتنے واضح الفاظ استعمال کئے ہیں کہ پڑھ کر لگا کہ اخبار کی کوئی ہیڈلائین پڑھ رہے ہیں۔ سوچا ہم بھی رضا کارانہ طور پر آپ کی کچھ مدد کردیں اس سے یہ ہوا کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ شاعری پر عبور حاصل کرنے کیلئے معلوماتِ عامہ پر عبور ہونا بھی شرط ہے۔ مگر ہم بھی آپ کو ایک مشورہ ضرور دیں گے کہ جتنا آپ نے شعر کے وزن کا خیال رکھا ہے اتنا اپنے وزن کا خیال رکھتے تو آج شاعر کی بجائے صحت مند نظر آتے۔

ضروری نوٹ:
اگر مزید دھمکانے کا پروگرام ہو تو اس کے لئے الگ سے ایک دھاگہ ہے۔:lol:
 
نقوی صاحب!
شاعری میں تو ہم ویسے بھی آپ کے قائل ہوگئے ہیں۔ اتنے واضح الفاظ استعمال کئے ہیں کہ پڑھ کر لگا کہ اخبار کی کوئی ہیڈلائین پڑھ رہے ہیں۔ سوچا ہم بھی رضا کارانہ طور پر آپ کی کچھ مدد کردیں اس سے یہ ہوا کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ شاعری پر عبور حاصل کرنے کیلئے معلوماتِ عامہ پر عبور ہونا بھی شرط ہے۔ مگر ہم بھی آپ کو ایک مشورہ ضرور دیں گے کہ جتنا آپ نے شعر کے وزن کا خیال رکھا ہے اتنا اپنے وزن کا خیال رکھتے تو آج شاعر کی بجائے صحت مند نظر آتے۔

ضروری نوٹ:
اگر مزید دھمکانے کا پروگرام ہو تو اس کے لئے الگ سے ایک دھاگہ ہے۔:lol:
جناب آپ یہ غلط فہمی اپنے ذہن سے دور فرما دیں کہ حجاز صاحب شریف انسان ہیں (جو کہ ہیں) تو آپ کو کوئی دندان شکن یا کمر شکن یا گردن شکن یا دست شکن یا زبان کش یا چشم کش یا دماغ (فارسی والی) کش یا پا کش، جواب نہیں ملے گا (جو کہ نہیں ملے گا)۔ :laughing:
 

عدیل منا

محفلین
جناب آپ یہ غلط فہمی اپنے ذہن سے دور فرما دیں کہ حجاز صاحب شریف انسان ہیں (جو کہ ہیں) تو آپ کو کوئی دندان شکن یا کمر شکن یا گردن شکن یا دست شکن یا زبان کش یا چشم کش یا دماغ (فارسی والی) کش یا پا کش، جواب نہیں ملے گا (جو کہ نہیں ملے گا)۔ :laughing:
بولنے کی حد تک ویسے تو ہماری تین زبانیں ہیں (بشرطیکہ اردو میں ہوں) مگر ہم یہاں اپنی ایک زبان استعما ل کر رہے ہیں۔
شاعروں سے ہم جتنا شعرو کوب ہوئے اتنا کسی اورنے ہم پر ٹارچر نہیں کیا۔ اور اب آپ ہمیں شکن آلود کرنے کے درپے ہیں۔
 

ساجدتاج

محفلین
اجالے صبح کے خشیاں سمیٹنے آئے
مرے محبوب تجھے مجھ سے لوٹنے آئے

میرے محبوب کو مجھ سے لوٹنے آئے

ایک طرف محبوب کا نام لے لیا تو دوسری طرف تجھے کا لفظ استعمال کرنا نہیں بنتا
 

عدیل منا

محفلین
جناب شاعروں کو مختص کرنے کی کیا مصلحت ہے عدیل منا صاحب!
یونیورسٹی میں ہمارے جو روم ایٹ تھے ان کو شاعری لاحق تھی۔ جب بھی کوئی نیا شعر وارد ہوتا تو سب سے پہلے ہم ہی اس کا نشانہ بنتے۔ شعر سناتے تو یوں لگتا کہ ہم سست اور کاہل ہیں جو خود نہیں پڑھ سکتے۔ قافیہ پیمائی سے دوسرے کا قافیہ تنگ کر دیتے۔ تعطیلات سے جب وہ واپس لوٹتے تو ہم ان سے یہی کہتے کہ ہم آپ کی تعطیلات سے بہت لطف اندوز ہوئے ہیں۔
 
اجالے صبح کے خشیاں سمیٹنے آئے
مرے محبوب تجھے مجھ سے لوٹنے آئے

میرے محبوب کو مجھ سے لوٹنے آئے

ایک طرف محبوب کا نام لے لیا تو دوسری طرف تجھے کا لفظ استعمال کرنا نہیں بنتا
جی قابل توجہ نکتہ ہے۔۔۔۔ کرم ہے آپ کا۔
 

الف عین

لائبریرین
قوافی اس لئے غلط کہہ رہا ہوں کہ ان میں ’نے‘ جو مشترک ہے، اسے نکال دیں تو دیکھ، اکھیڑ، بکھیر، لوٹ قوافی نہیں ہیں۔ بشیر بدر کی مشہور غزل، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے‘ میں بھی یہی سقم ہے۔
 
Top