محمد اظہر نذیر
محفلین
یہ جو اپنے ہیں، پراٴے ہوتے
زخم کب کے ہی بھر آٴے ہوتے
درد یوں جان نہ پھر لے پاتا
اشک آنکھوں میں جو لآے ہوتے
غیر تھے پھول تو کانٹے اپنے
پھول جوڑے میں سجاٴے ہوتے
غیر ہی کام جو آٴے آخر
وہ ہی پلکوں پہ بٹھاٴے ہوتے
اُس نے نفرت سے جو لکھے اظہر
حرف تختی سے مٹاٴے ہوتے