ایک تازہ غمگین غزل،'' یہ جو اپنے ہیں، پراٴے ہوتے ''

یہ جو اپنے ہیں، پراٴے ہوتے
زخم کب کے ہی بھر آٴے ہوتے
درد یوں جان نہ پھر لے پاتا
اشک آنکھوں میں جو لآے ہوتے
غیر تھے پھول تو کانٹے اپنے
پھول جوڑے میں سجاٴے ہوتے
غیر ہی کام جو آٴے آخر
وہ ہی پلکوں پہ بٹھاٴے ہوتے
اُس نے نفرت سے جو لکھے اظہر
حرف تختی سے مٹاٴے ہوتے
 

الف عین

لائبریرین
یہ جو اپنے ہیں، پراٴے ہوتے
زخم کب کے ہی بھر آٴے ہوتے
//دو لخت ہے شعر۔
اس کو دو اشعار میں تبدیل کرنے کی کوشش کرو۔
مثلاً
ہم نے دھوکے نہ یوں کھائے ہوتے
یہ جو اپنے ہیں، پراٴے ہوتے
اس کی الفت کا جو مرہم ہوتا
زخم کب کے ہی بھر آٴے ہوتے
یہ دونوں اشعار تو فی البدیہہ ہو گئے ہیں۔ مزید تم سوچ کر کہو۔

درد یوں جان نہ پھر لے پاتا
اشک آنکھوں میں جو لآے ہوتے
//پہلا مصرع زیادہ رواں ہو سکتا ہے، دوسرےمصرع میں قافیہ، آئے، یا لائے؟
درد یوں جان نہ لے سکتا تھا۔۔ کچھ ہی الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ
یا
یوں نہ بے موت ہی مر جاتے ہم
اشک ہم نے جو بہائے ہوتے

غیر تھے پھول تو کانٹے اپنے
پھول جوڑے میں سجاٴے ہوتے
//مفہوم؟ غیر خود ہی پھول تھے یا غیروں نے پھول تحفتاً دئے تھے؟
ممکن ہے یہ صورت ذہن میں ہو
اپنی قسمت، کہ کہیں گل نہ ملے
جن کو جوڑے میں سجائے ہوتے

غیر ہی کام جو آٴے آخر
وہ ہی پلکوں پہ بٹھاٴے ہوتے
//یہ بھی مفہوم طلب ہے

اُس نے نفرت سے جو لکھے اظہر
حرف تختی سے مٹاٴے ہوتے
کس نے مٹائے؟ اس نے یا اظہر نے۔ واضح نہیں!!
 

اکرم محمد

محفلین
یہ جو اپنے ہیں، پراٴے ہوتے
زخم کب کے ہی بھر آٴے ہوتے


شعر کی تشریح: شاعر کہتا ہے کہ اگر یہ جو اپنے لوگ ہیں وہ پرائے ہوتے تو جو زخم ہمارے ہیں وہ جلد بھر جاتے۔ کیونکہ پرائے کے لگائے ذخم زیادہ ددرد نہیں دیتے اور جلد بھر جاتے ہیں مگر شاعر کہتا ہے کہ رونا تو یہ ہے کہ یہ ذخم اپنوں نے لگائے ہیں، اے کاش یہ اپنے جو ہیں وہ پرائے ہوتے

درد یوں جان نہ پھر لے پاتا
اشک آنکھوں میں جو لآے ہوتے

شعر کی تشریح: شاعر کہتا ہے کے درد میں گھٹ گُھٹ کر جان سے چلے گئے، درد اس طرح جان نہیں لے سکتا تھا اگر کھل کے رو لیتے یعنی اشک بہا لیتے تو دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہاور در یوں جان نہ لے پاتا، شاعر کہتا ہے کے رونا تو یہ ہے کے اشک انکھوں میں نہیں لائے اور درد نے جان لے لی :(

غیر تھے پھول تو کانٹے اپنے
پھول جوڑے میں سجاٴے ہوتے

یہاں مطلب یہ ہے کے غیر پھول تھے اور اپنے کانٹے، تو جناب بہتر تھا کہ آپ غیروں سے میل جول رکھتے مطلب اپنوں کو سر پہ چڑھانے کے بجائے غیروں کو چڑھاتے تو یوں جان سے نہ جاتے :)
۔
ہماری مس کا کہنا تھا کہ ہم تشریح بہت اچھی کرتے ہیں، آپ کی کیا رائے ہے؟
 
یہ جو اپنے ہیں، پراٴے ہوتے
زخم کب کے ہی بھر آٴے ہوتے

ماشاء الله
اچھی غزل ہے ، خیالات کی گہرائی چھوٹی بحر کی مشکل ، اپنی جگہ -
محترم جناب الف عین کی راے پر خصوصی توجہ دی جائے تو چار چاند لگ جائیں گے -
اکرم احمد صاحب نے مطلع کی اچھی تشریح کی ہے - انہی مطالب تک نا چیز کی رسائی تھی - مگرمحترم جناب الف عین کی بات اپنی جگہ بلکل درست ہے - اسی پر عمل کیا جائے -

غیر تھے پھول تو کانٹے اپنے
پھول جوڑے میں سجاٴے ہوتے

یہ شعر اکرم احمد صاحب کی تشریح کہ باوجود واضح نہیں ہو سکا -

غیر ہی کام جو آٴے آخر
وہ ہی پلکوں پہ بٹھاٴے ہوتے
//یہ بھی مفہوم طلب ہے

محترم جناب الف عین، مجھ پر یہاں تک کھل سکا ، ہم (شاعر) زندگی کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہے تھے تب یہ ہمارے اپنے ہمارے کسی کام نہیں آئے - کاش ہم نے ان کے بجاے ان غیروں سے بنا کے رکھتے جو وقت پڑنے پر آج ہمارے کام آے ہیں -
 
Top