اظہرالحق
محفلین
ایک تھا بابا ، نام تھا اسکا محمد علی ، کام کرتا تھا وکالت کا ، مزاج میں سختی مگر بات میں کھرا ، دیکھنے میں جاذب نظر ۔ ۔ ۔ سب کچھ ٹھیک تھا مگر اسے یہ احساس ہوا کہ وہ ایک محکوم قوم کا فرد ہے تو اس نے قوم کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔
ملت ہوئی ہے زندہ پھر اسکی پکار سے ۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر ایک قافلہ بن گیا ۔ ۔ ۔ ۔
صد شکر کہ پھر سے گرم سفر اپنا کارواں
اور میر کاروان ہے محمد علی جناح
اور مقدمہ ایسا لڑا کہ مخالف بھی ششدر رہے گئے ۔ ۔دلائل کا انبار لگا دیا اور ہر ہدف حاصل کر لیا
لگتا ہے ٹھیک جا کہ نشانے پہ اسکا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح
اور پھر وقت نے اسے منزل سے ہمکنار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنی قوم کا سائبان بن گیا ۔ ۔ ۔ قوم کی جسم و جاں بن گیا
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناح
مگر قدرت نے اسے مہلت نہ دی ۔ ۔ ۔وہ زیادہ دیر قوم کے ساتھ نہ رہ سکا ۔ ۔ ۔ اور ایک متحد قوم کو سوگوار کر گیا ۔ ۔ ۔ ۔
وہ گھر جو اسنے بنایا تھا ۔ ۔ ۔ وقت کی آندھیوں کی زد میں آ گیا ۔ ۔ ۔
اسنے اصول دئیے تھے ۔ ۔ ۔ ایمان ، اتحاد اور یقین محکم
ایمان کو قوم نے بیچ ڈالا
اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا
یقین پر سے ہی یقین اٹھ گیا
اور قوم نے اپنے گھر کو توڑ ڈالا ۔ ۔ ۔
یہ قوم بہت عجیب ہے ۔ ۔ ۔ سب کچھ ہوا مگر یہ قوم اپنے “بابے“ کو نہیں بھولی ۔ ۔۔ ۔۔ اسے ہروقت “جیب“ میں رکھتی ہے ۔ ۔ ۔ اسکی مدد سے ایمان بیچتی ہے ، اتحاد خریدتی ہے ، اور اسی پر یقین رکھتی ہے ۔ ۔ ۔
25 دسمبر ۔ ۔ ۔ جب بھی آتا ہے ۔۔۔۔ سردیوں میں سرد جذبوں کو گرم کرتی ہے ۔ ۔ ۔ دنیا کرسمس مناتی ہے ۔۔ ۔ قوم بابے کو یاد کرتی ہے ۔ ۔ ۔ اور کہتی ہے ۔۔ ۔ ۔
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں
ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں
مٹی سے ہے سچا پیار ہمیں ، ہم پیار کے رنگ ابھاریں گے
ہم خون رگ جاں بھی دے کہ موسم کا قرض اتاریں گے
ڈھالیں گے فضا میں وہ جذبے ، کاغذ پہ جو لکھا کرتے ہیں (کہنے میں کیا حرج ہے )
ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
موسم بھی نظر ڈالے گا تو اب چونکے گا ہماری محنت پر (ارے یہ کیا؟)
سورج بھی ہیں اب دیکھے گا تو رشک کرتے گا ہمت پر (کر تو رہا ہے)
اب یہ نہ کہیں گے ارض و سماں ۔ ۔ ۔ ہم دن ہی منایا کرتے ہیں ( اور کیا کرتے ہیں ؟)
ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
پکا وعدہ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا خیال ہے ؟؟؟
ملت ہوئی ہے زندہ پھر اسکی پکار سے ۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر ایک قافلہ بن گیا ۔ ۔ ۔ ۔
صد شکر کہ پھر سے گرم سفر اپنا کارواں
اور میر کاروان ہے محمد علی جناح
اور مقدمہ ایسا لڑا کہ مخالف بھی ششدر رہے گئے ۔ ۔دلائل کا انبار لگا دیا اور ہر ہدف حاصل کر لیا
لگتا ہے ٹھیک جا کہ نشانے پہ اسکا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح
اور پھر وقت نے اسے منزل سے ہمکنار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنی قوم کا سائبان بن گیا ۔ ۔ ۔ قوم کی جسم و جاں بن گیا
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناح
مگر قدرت نے اسے مہلت نہ دی ۔ ۔ ۔وہ زیادہ دیر قوم کے ساتھ نہ رہ سکا ۔ ۔ ۔ اور ایک متحد قوم کو سوگوار کر گیا ۔ ۔ ۔ ۔
وہ گھر جو اسنے بنایا تھا ۔ ۔ ۔ وقت کی آندھیوں کی زد میں آ گیا ۔ ۔ ۔
اسنے اصول دئیے تھے ۔ ۔ ۔ ایمان ، اتحاد اور یقین محکم
ایمان کو قوم نے بیچ ڈالا
اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا
یقین پر سے ہی یقین اٹھ گیا
اور قوم نے اپنے گھر کو توڑ ڈالا ۔ ۔ ۔
یہ قوم بہت عجیب ہے ۔ ۔ ۔ سب کچھ ہوا مگر یہ قوم اپنے “بابے“ کو نہیں بھولی ۔ ۔۔ ۔۔ اسے ہروقت “جیب“ میں رکھتی ہے ۔ ۔ ۔ اسکی مدد سے ایمان بیچتی ہے ، اتحاد خریدتی ہے ، اور اسی پر یقین رکھتی ہے ۔ ۔ ۔
25 دسمبر ۔ ۔ ۔ جب بھی آتا ہے ۔۔۔۔ سردیوں میں سرد جذبوں کو گرم کرتی ہے ۔ ۔ ۔ دنیا کرسمس مناتی ہے ۔۔ ۔ قوم بابے کو یاد کرتی ہے ۔ ۔ ۔ اور کہتی ہے ۔۔ ۔ ۔
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں
ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں
مٹی سے ہے سچا پیار ہمیں ، ہم پیار کے رنگ ابھاریں گے
ہم خون رگ جاں بھی دے کہ موسم کا قرض اتاریں گے
ڈھالیں گے فضا میں وہ جذبے ، کاغذ پہ جو لکھا کرتے ہیں (کہنے میں کیا حرج ہے )
ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
موسم بھی نظر ڈالے گا تو اب چونکے گا ہماری محنت پر (ارے یہ کیا؟)
سورج بھی ہیں اب دیکھے گا تو رشک کرتے گا ہمت پر (کر تو رہا ہے)
اب یہ نہ کہیں گے ارض و سماں ۔ ۔ ۔ ہم دن ہی منایا کرتے ہیں ( اور کیا کرتے ہیں ؟)
ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
پکا وعدہ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا خیال ہے ؟؟؟