ایک جہاندیدہ ملکہ:ملکۂِ بلقیس

آثار قدیمہ کی جدید تحقیق کے سلسلے میں یمن سے 3000 مخطوطے برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتےہیں مثلاً 650 ق م میں یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنیٰ تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتے تھے اور ان کا اس وقت پایہ تخت صرواح تھجس کے معنیٰ بادشاہ ہیں ۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہے جس کے معنی یہ بتائے گئے کہ حکومت میں مذہب کی بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آ گیا ہے ۔ ماضی کی گہرائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملکہ سبا کا اصل نام بلقیس تھا۔ وہ نہایت خوبصورت اور ذہین خاتون تھیں ۔ ان کے والد شرجیل بن مالک یمن کے بادشاہ تھے ۔
بعض نے ان کا نام الہد ہاد بن شرجیل بھی لکھا ہے ۔ بادشاہ کا سرکاری مذہب سورج کی پرستش تھی جو عوام نے بھی اختیار کی ہوئی تھی۔ باپ کی موت کے بعد بلقیس نے عنان حکومت سنبھالی۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے نہایت سرسبز تھا جہاں ہر طرف لہلہاتے کھیت اور باغات تھے ۔ ان کا زمانہ حضرت سلیمان کی نبوت کا تھا۔ بلقیس کا ذکر زلیخا کی طرح قرآن حکیم میں بغیر نام لیےآیا ہے ۔ یہ ذکر بہت مختصر مگر جامع ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ہد ہد آ موجود ہوااور کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہےجس کی آپ کو خبر نہیں ۔ اور میں آپ کے پاس شہر سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔ میں نے ایک عورت دیکھی جوان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے ۔ میں نے دیکھاکہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال آراستہ( کر کے ) دکھائے ہیں اور انہیں راستےسے روک رکھا ہے ۔ پس وہ راستے پر نہیں آتے ۔ (نہیں جانتے ) اس خدا کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کر دیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے ہم اسے کیوں سجدہ نہ کریں ۔
خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ وہی عرش عظیم کا مالک ہے ۔ (سلیمان نے ) کہا، ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہاہے یا تو جھوٹا ہے ۔ یہ میرا خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے واپس آ اور بتا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ ملکہ نے کہا کہ دربار والو! میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے جو سلیمان کی طرف سے ہے اور (مضمون یہ ہے ) کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سر کشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ کہنے لگی کہ اے اہل دربار! اس معاملے میں مجھے مشورہ دو۔ جب تک تم حاضر نہ ہو، میں کسی کام کام فیصلہ نہیں کروں گی۔
وہ بولے ہم بڑے زور آور اور جنگجو ہیں اور آپ کو حکم دینے کا اختیار ہے ۔ آپ سوچ لیجئے کہ ہمیں کیا حکم دینا ہے ۔ اس نے کہا، جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کردیاکرتےہیں ، اسی طرح یہ بھی کریں گے اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیاجواب لاتے ہیں ۔ جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا، کیا تم مجھے مال سے مد د دینا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدانےمجھےعطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہو گے ۔ ان کے پاس واپس جاؤ۔ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر حملہ کریں گے جن کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ ہو گی۔ اور انہیں وہاں سے بے عزت کر کے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے ۔‘‘ (سورة النمل آیات 20 تا 30)
قرآن حکیم میں سبا، قوم سبا یا علاقہ سبا کے نام سے جو اشارات دیے گئے ہیں ‘ انہیں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم یا علاقے کے متعلق دوسرے تاریخی ذرائع یا دینی کتب سے فراہم ہوئی ہے ۔ سبا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا بھی نام تھا اور ایک شہر کا نام بھی جو موجودہ ملک یمن کے دارالحکومت
صنعا سے (اس وقت) تین دن کے فاصلے پر تھا۔ یہ شہر مارب یمن کے نام سے بھی معروف ہے ۔ بیت المقدس سے مارب کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل دور ہے ۔ (فتح القدیر)
تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد بن حنبل، ابن جریر، ابن حاتم، ابن عبدالبر اور ترمذی نے حضور پاک ﷺسے ایک روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کےایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے یہ قبیلے پیدا ہوئے : کندہ، حمیرہ ازدر، اشعرین، مذجج، انمار (اس کی دو شاخیں خثعم
اور بجیلہ تھیں ) عاملہ، جذام ، لخم اور غسان۔ ان میں سے کچھ اقوام آج بھی سعودی عرب میں آباد ہیں ۔ ملکہ سبا کا یہ عہدعتیق و جدید اور یہودی روایات میں مختلف طریقوں سے آیا ہے ۔ سلاطین میں لکھا ہے ، ’’ اور جب سبا کی ملکہ نےخداوندکے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی، تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے اور وہ بہت بڑےجلوکےساتھ یروشلم میں آئی۔ جب سلیمان کے پاس پہنچیں تو انھوں نے ان سب باتوں ے بارے میں جو ان کےدل میں تھیں ، ان سے گفتگو کی۔ سلیمان نے ان سب کا جواب دیا اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اور اس محل کو جو اس نےبنایا تھا اور اس کے دستر خوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کے حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خداوند کے گھر جا یا کرتا تھا دیکھا تو ان کےہوش اڑ گئے اور انھوں نےبادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے اپنے ملک میں سنی تھی۔ مگر یقین نہیں کیا جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا اور مجھے تو نصف بھی نہیں بتایا گیا تھا، کیونکہ آپ کی حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے ۔ خوش نصیب ہیں آپ کے لوگ اور خوش نصیب ہیں آپ کے یہ ملازم جو برابر آپ کے حضور کھڑےرہتےہیں اور آپ کی حکمت سنتے ہیں۔ خداوند آپ کاخدا مبارک ہو جو آپ سے ایسا خوش ہوا کہ آپ کواسرائیل کے تخت پر بٹھایا اور انھوں نے بادشاہ کو 120 قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑا انبار دیا اور جواہرات بھی دئیےاور جیسے مسالے سبا کی ملکہ نے سلیمان کو دئیے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے اور سلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہوئیں اور جو کچھ انھوں نے مانگا دیا۔ پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ
گئیں ۔ (کتاب مقدس باب 10 آیات 1 تا 30) اس سے کیا فائدہ کہ سبا سے لبان اور دور دور سے لوگ میرےحضورلائے جاتے ہیں ۔ (یرمیاہ باب 6 آیت 20) سبا اور عماہ کے سودا گر آپ کے ساتھ سودا گری کرتے تھے وہ ہر قسم کے نفیس مسالے اور ہر طرح کے قیمتی پتھر اور سونا آپ کے بازاروں میں لا کر خریدو فروخت کرتے تھے ۔ حزان اور کنہ اور عدن اور سبا کے سود اگر اور اسکور اور کلمد کے باشندے آپ کے ساتھ سودا گری کرتے تھے۔ (حزقی ایل باب 27 آیات 23-22) مورخین نے سبا کو ایک قوم تسلیم کیا ہے ۔ یونان اور روم کے تاریخ دانوں اور جغرافیہ کے ماہر تھیوفراسٹس نے بھی 288 قبل مسیح میں اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ قوم یمن میں آباد تھی اوراس کے عروج کا زمانہ 1100 قبل مسیح ہے ۔ اس کا شہرہ حضرت داؤد کی نبوت کے وقت سے ہی پھیلا ہواتھا۔ آغاز میں یہ قوم سورج پرست تھی، لیکن بعد میں نہ جانے کب سے اس میں بت پرستی کا غلبہ آ گیا۔ اگرچہ ان کی ملکہ نے حضرت سلیمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کی رعایا کی غالب اکثریت بھی ان کے ساتھ مسلمان ہو گئی تھی۔ آثارقدیمہ کی جدید تحقیق کے سلسلے میں یمن سے 3000 مخطوطے برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں مثلاً 650 ق م میں یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنیٰ تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتےتھےاوران کا اس وقت پایہ تخت صرواح تھا جس کے معنیٰ بادشاہ ہیں ۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہےجسکےمعنی یہ بتائے گئے کہ حکومت میں مذہب کی بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آ گیا ہے ۔اس وقت کےملوک نے اپنا دارالخلافہ صرواح کو چھوڑ کر مارب کو بنا لیا اور اسے ترقی کیاعلیٰ منازل تک پہنچا دیا۔ یہ مقام صنعاسے60میل کی دوری پر مشرق کی جانب واقع ہے جو سطح سمندر سے 3900 فٹ بلند ہے ۔ 115 ق م کےبعدسےاس خطے پر حمیر غالب آ گئے ۔
انہوں نے مارب کو اجاڑ کر ریدان کو دارالحکومت بنایا جو بعد میں ظفار شہر کے نام سے مشہور ہوا۔ آج کل موجودہ شہر قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ اسی رقوم کی یادگار ہے ۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصے کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت یا یمنات کا استعمال ہوا اور پھر رفتہ رفتہ پورا علاقہ یمنت سےیمن ہو گیا۔ اس کے بعد آغاز اسلام تک کا دور قوم سبا کی تباہی کا دور ہے ۔ اس دور میں انکے یہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی مداخلت کا زور ہوا جس کی بناءپر ان کی معیشت برباد ہو گئی اور زراعت نے دم توڑ دیا۔ 340سے378 تک حبشیوں نے یمن کی حالت اور بھی تباہ کر دی جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے ،
’’آخر کار ہم نےان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا۔ ’’ (سبا آیت 16) کہا جاتا ہے کہ اس سیلاب کی وجہ سے جو آبادی منتشرہوگئی تھی، وہ آج تک مجتمع نہ ہو سکی۔ آبپاشی اور زراعت کا جو نظام درہم برہم ہوا، وہ اب تک بحال نہیں ہو سکا۔ 523میں یمن پر یہودی حکومت قائم ہو گئی۔ یہودی بادشاہ ذوالنواس نے نجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الاخدود کے نام سے کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ’’خندقوں والے ہلاک کیے گئے ۔‘‘ (بروج آیت 14) ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ کے بڑے گڑھوں میں یعنی خندقوں میں پھینکا تھا۔ جن کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 528 میں پیش آیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدنجاشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذوالنواس اور اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یمن کے ایک حبشی وائسرائے ابرہہ نےکعبے کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کیلئے 570 میں حضور ﷺکی پیدائش سے چند روز قبل مکہ معظمہ پر حملہ کر دیا۔ ابراہہ کی فوج پر وہ تباہی آئی جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الفیل کے نام سے آیا ہے : ’’کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا؟ کیا ان کا داؤ غلط نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے ۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھو سے کی طرح کر دیا۔ ’’ (سورة الفیل)
یمن سے شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم ہوتی جارہی تھیں ۔ انہی حدود میں ان کے تجارتی قافلے سفرکرتےتھے ۔ ایک ہزار برس تک یہ قوم مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ان کی بندرگاہوں میں چین کا ریشم انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے ، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں ، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام،بندراورشتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے ۔ جہاں سے یہ مال رومان اور یونان تک روانہ کیا جاتا تھا۔ ان کےعلاقے میں لوبان، عود، عنبر اور مشک غرض ہر خوش بو دار شے پیدا ہوتی تھی جسے مصر، شام، روم اور یونان ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے ۔ یہ لوگ جلانے کی لکڑی کے بجائے صندل اور دار چینی استعمال کرتے تھے ۔
یہ اس وقت دنیا کی مال دار ترین قوم تھی جس کا انجام نہایت ہی درد ناک ہوا۔ روئے زمین پر آج ایک بھی اس قوم کا فرد نہیں ملتا۔
ربط
http://tehreemtariq.wordpress.com/2013/07/23/ایک-جہاندیدہ-ملکہملکۂِ-بلقیس/
 
آثار قدیمہ کی جدید تحقیق کے سلسلے میں یمن سے 3000 مخطوطے برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتےہیں مثلاً 650 ق م میں یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنیٰ تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتے تھے اور ان کا اس وقت پایہ تخت صرواح تھجس کے معنیٰ بادشاہ ہیں ۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہے جس کے معنی یہ بتائے گئے کہ حکومت میں مذہب کی بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آ گیا ہے ۔ ماضی کی گہرائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملکہ سبا کا اصل نام بلقیس تھا۔ وہ نہایت خوبصورت اور ذہین خاتون تھیں ۔ ان کے والد شرجیل بن مالک یمن کے بادشاہ تھے ۔
بعض نے ان کا نام الہد ہاد بن شرجیل بھی لکھا ہے ۔ بادشاہ کا سرکاری مذہب سورج کی پرستش تھی جو عوام نے بھی اختیار کی ہوئی تھی۔ باپ کی موت کے بعد بلقیس نے عنان حکومت سنبھالی۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے نہایت سرسبز تھا جہاں ہر طرف لہلہاتے کھیت اور باغات تھے ۔ ان کا زمانہ حضرت سلیمان کی نبوت کا تھا۔ بلقیس کا ذکر زلیخا کی طرح قرآن حکیم میں بغیر نام لیےآیا ہے ۔ یہ ذکر بہت مختصر مگر جامع ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ہد ہد آ موجود ہوااور کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہےجس کی آپ کو خبر نہیں ۔ اور میں آپ کے پاس شہر سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔ میں نے ایک عورت دیکھی جوان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے ۔ میں نے دیکھاکہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال آراستہ( کر کے ) دکھائے ہیں اور انہیں راستےسے روک رکھا ہے ۔ پس وہ راستے پر نہیں آتے ۔ (نہیں جانتے ) اس خدا کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کر دیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے ہم اسے کیوں سجدہ نہ کریں ۔
خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ وہی عرش عظیم کا مالک ہے ۔ (سلیمان نے ) کہا، ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہاہے یا تو جھوٹا ہے ۔ یہ میرا خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے واپس آ اور بتا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ ملکہ نے کہا کہ دربار والو! میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے جو سلیمان کی طرف سے ہے اور (مضمون یہ ہے ) کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سر کشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ کہنے لگی کہ اے اہل دربار! اس معاملے میں مجھے مشورہ دو۔ جب تک تم حاضر نہ ہو، میں کسی کام کام فیصلہ نہیں کروں گی۔
وہ بولے ہم بڑے زور آور اور جنگجو ہیں اور آپ کو حکم دینے کا اختیار ہے ۔ آپ سوچ لیجئے کہ ہمیں کیا حکم دینا ہے ۔ اس نے کہا، جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کردیاکرتےہیں ، اسی طرح یہ بھی کریں گے اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیاجواب لاتے ہیں ۔ جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا، کیا تم مجھے مال سے مد د دینا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدانےمجھےعطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہو گے ۔ ان کے پاس واپس جاؤ۔ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر حملہ کریں گے جن کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ ہو گی۔ اور انہیں وہاں سے بے عزت کر کے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے ۔‘‘ (سورة النمل آیات 20 تا 30)
قرآن حکیم میں سبا، قوم سبا یا علاقہ سبا کے نام سے جو اشارات دیے گئے ہیں ‘ انہیں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم یا علاقے کے متعلق دوسرے تاریخی ذرائع یا دینی کتب سے فراہم ہوئی ہے ۔ سبا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا بھی نام تھا اور ایک شہر کا نام بھی جو موجودہ ملک یمن کے دارالحکومت
صنعا سے (اس وقت) تین دن کے فاصلے پر تھا۔ یہ شہر مارب یمن کے نام سے بھی معروف ہے ۔ بیت المقدس سے مارب کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل دور ہے ۔ (فتح القدیر)
تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد بن حنبل، ابن جریر، ابن حاتم، ابن عبدالبر اور ترمذی نے حضور پاک ﷺسے ایک روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کےایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے یہ قبیلے پیدا ہوئے : کندہ، حمیرہ ازدر، اشعرین، مذجج، انمار (اس کی دو شاخیں خثعم
اور بجیلہ تھیں ) عاملہ، جذام ، لخم اور غسان۔ ان میں سے کچھ اقوام آج بھی سعودی عرب میں آباد ہیں ۔ ملکہ سبا کا یہ عہدعتیق و جدید اور یہودی روایات میں مختلف طریقوں سے آیا ہے ۔ سلاطین میں لکھا ہے ، ’’ اور جب سبا کی ملکہ نےخداوندکے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی، تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے اور وہ بہت بڑےجلوکےساتھ یروشلم میں آئی۔ جب سلیمان کے پاس پہنچیں تو انھوں نے ان سب باتوں ے بارے میں جو ان کےدل میں تھیں ، ان سے گفتگو کی۔ سلیمان نے ان سب کا جواب دیا اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اور اس محل کو جو اس نےبنایا تھا اور اس کے دستر خوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کے حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خداوند کے گھر جا یا کرتا تھا دیکھا تو ان کےہوش اڑ گئے اور انھوں نےبادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے اپنے ملک میں سنی تھی۔ مگر یقین نہیں کیا جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا اور مجھے تو نصف بھی نہیں بتایا گیا تھا، کیونکہ آپ کی حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے ۔ خوش نصیب ہیں آپ کے لوگ اور خوش نصیب ہیں آپ کے یہ ملازم جو برابر آپ کے حضور کھڑےرہتےہیں اور آپ کی حکمت سنتے ہیں۔ خداوند آپ کاخدا مبارک ہو جو آپ سے ایسا خوش ہوا کہ آپ کواسرائیل کے تخت پر بٹھایا اور انھوں نے بادشاہ کو 120 قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑا انبار دیا اور جواہرات بھی دئیےاور جیسے مسالے سبا کی ملکہ نے سلیمان کو دئیے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے اور سلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہوئیں اور جو کچھ انھوں نے مانگا دیا۔ پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ
گئیں ۔ (کتاب مقدس باب 10 آیات 1 تا 30) اس سے کیا فائدہ کہ سبا سے لبان اور دور دور سے لوگ میرےحضورلائے جاتے ہیں ۔ (یرمیاہ باب 6 آیت 20) سبا اور عماہ کے سودا گر آپ کے ساتھ سودا گری کرتے تھے وہ ہر قسم کے نفیس مسالے اور ہر طرح کے قیمتی پتھر اور سونا آپ کے بازاروں میں لا کر خریدو فروخت کرتے تھے ۔ حزان اور کنہ اور عدن اور سبا کے سود اگر اور اسکور اور کلمد کے باشندے آپ کے ساتھ سودا گری کرتے تھے۔ (حزقی ایل باب 27 آیات 23-22) مورخین نے سبا کو ایک قوم تسلیم کیا ہے ۔ یونان اور روم کے تاریخ دانوں اور جغرافیہ کے ماہر تھیوفراسٹس نے بھی 288 قبل مسیح میں اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ قوم یمن میں آباد تھی اوراس کے عروج کا زمانہ 1100 قبل مسیح ہے ۔ اس کا شہرہ حضرت داؤد کی نبوت کے وقت سے ہی پھیلا ہواتھا۔ آغاز میں یہ قوم سورج پرست تھی، لیکن بعد میں نہ جانے کب سے اس میں بت پرستی کا غلبہ آ گیا۔ اگرچہ ان کی ملکہ نے حضرت سلیمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کی رعایا کی غالب اکثریت بھی ان کے ساتھ مسلمان ہو گئی تھی۔ آثارقدیمہ کی جدید تحقیق کے سلسلے میں یمن سے 3000 مخطوطے برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں مثلاً 650 ق م میں یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنیٰ تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتےتھےاوران کا اس وقت پایہ تخت صرواح تھا جس کے معنیٰ بادشاہ ہیں ۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہےجسکےمعنی یہ بتائے گئے کہ حکومت میں مذہب کی بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آ گیا ہے ۔اس وقت کےملوک نے اپنا دارالخلافہ صرواح کو چھوڑ کر مارب کو بنا لیا اور اسے ترقی کیاعلیٰ منازل تک پہنچا دیا۔ یہ مقام صنعاسے60میل کی دوری پر مشرق کی جانب واقع ہے جو سطح سمندر سے 3900 فٹ بلند ہے ۔ 115 ق م کےبعدسےاس خطے پر حمیر غالب آ گئے ۔
انہوں نے مارب کو اجاڑ کر ریدان کو دارالحکومت بنایا جو بعد میں ظفار شہر کے نام سے مشہور ہوا۔ آج کل موجودہ شہر قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ اسی رقوم کی یادگار ہے ۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصے کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت یا یمنات کا استعمال ہوا اور پھر رفتہ رفتہ پورا علاقہ یمنت سےیمن ہو گیا۔ اس کے بعد آغاز اسلام تک کا دور قوم سبا کی تباہی کا دور ہے ۔ اس دور میں انکے یہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی مداخلت کا زور ہوا جس کی بناءپر ان کی معیشت برباد ہو گئی اور زراعت نے دم توڑ دیا۔ 340سے378 تک حبشیوں نے یمن کی حالت اور بھی تباہ کر دی جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے ،
’’آخر کار ہم نےان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا۔ ’’ (سبا آیت 16) کہا جاتا ہے کہ اس سیلاب کی وجہ سے جو آبادی منتشرہوگئی تھی، وہ آج تک مجتمع نہ ہو سکی۔ آبپاشی اور زراعت کا جو نظام درہم برہم ہوا، وہ اب تک بحال نہیں ہو سکا۔ 523میں یمن پر یہودی حکومت قائم ہو گئی۔ یہودی بادشاہ ذوالنواس نے نجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الاخدود کے نام سے کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ’’خندقوں والے ہلاک کیے گئے ۔‘‘ (بروج آیت 14) ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ کے بڑے گڑھوں میں یعنی خندقوں میں پھینکا تھا۔ جن کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 528 میں پیش آیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدنجاشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذوالنواس اور اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یمن کے ایک حبشی وائسرائے ابرہہ نےکعبے کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کیلئے 570 میں حضور ﷺکی پیدائش سے چند روز قبل مکہ معظمہ پر حملہ کر دیا۔ ابراہہ کی فوج پر وہ تباہی آئی جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الفیل کے نام سے آیا ہے : ’’کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا؟ کیا ان کا داؤ غلط نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے ۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھو سے کی طرح کر دیا۔ ’’ (سورة الفیل)
یمن سے شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم ہوتی جارہی تھیں ۔ انہی حدود میں ان کے تجارتی قافلے سفرکرتےتھے ۔ ایک ہزار برس تک یہ قوم مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ان کی بندرگاہوں میں چین کا ریشم انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے ، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں ، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام،بندراورشتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے ۔ جہاں سے یہ مال رومان اور یونان تک روانہ کیا جاتا تھا۔ ان کےعلاقے میں لوبان، عود، عنبر اور مشک غرض ہر خوش بو دار شے پیدا ہوتی تھی جسے مصر، شام، روم اور یونان ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے ۔ یہ لوگ جلانے کی لکڑی کے بجائے صندل اور دار چینی استعمال کرتے تھے ۔
یہ اس وقت دنیا کی مال دار ترین قوم تھی جس کا انجام نہایت ہی درد ناک ہوا۔ روئے زمین پر آج ایک بھی اس قوم کا فرد نہیں ملتا۔
ربط
http://tehreemtariq.wordpress.com/2013/07/23/ایک-جہاندیدہ-ملکہملکۂِ-بلقیس/
خوب ذوق پایا ہے آپ نے تو مطالعے کا ۔۔ ماشاءاللہ۔۔
 

تلمیذ

لائبریرین
انہوں نے مارب کو اجاڑ کر ریدان کو دارالحکومت بنایا جو بعد میں ظفار شہر کے نام سے مشہور ہوا۔ آج کل موجودہ شہر قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ اسی قوم کی یادگار ہے ۔

'ظفار شہر' جس کا یہاں پر ذکر ہے، آج کل کی سلطنت عمان کا جنوبی صوبہ 'ظفار' ہے۔' صلالہ' اس کا بڑا شہر ہے اور یمن کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔ یہ مقام سلطنت عمان کے دارلحکومت مسقط سے لگ بھگ 1500کلو میٹردور ہے اور فضائی رابطے کے علاوہ ایک بہت خوبصورت سڑک کے ذریعے مسقط سے منسلک ہے۔۔ مسقط کی شدید گرمی کے برعکس اس علاقے میں موسم انتہائی خوشگوارہوتا ہے اور مون سون میں تو خلیجی ریاستوں یعنی امارات، قطر وغیرہ سے بھی لوگ اس پیارے موسم کا لطف اٹھانے کی غرض سے وہاں چلے ّ جاتے ہیں اور شہر کے نواح میں چند ہفتوں کے لئے خیمہ بستیاں آباد ہو جاتی ہیں۔ گرمیوں میں سلطان قابوس بن سعید بھی اپنا کاروبار حکومت وہاں لے جاتے ہیں۔
ملکہ سباء کے مذکورہ بالا محل کے آثار بھی صلالہ کے ایک نواحی شہر 'مربات' میں پائے جاتے ہیں(شاید مذکورہ بالا ' مارب' مرور زمان سے 'مربات' بن گیا ہو)۔سیاح بطور خاص ا س محل کو دیکھنے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں صدیوں پرانے مزید آثار قدیمہ بھی وہاں موجود ہیں۔ مقامی روایات اور مغربی مستشرقین کی تحقیق کے مطابق حضر ت ایوب علیہ السلام کا مزار اور ان کا کنواں بھی قریبی پہاڑی علاقے پر موجود ہے۔حضر ت ایوب علیہ السلام کے مزار کو تو حکومت وقت نےجدید انداز میں تعمیر کر کے ایک خوبصورت مسجد بھی بنا دی ہے یہ مقام بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
کئی برس پیشتر سلطنت عمان میں قیام کے دورا ن خاکسار کو بھی یہ تمام مقامات دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔
 
Top