لاریب مرزا
محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ گھوم پھر کر دنیا کی سیر کی جائے۔ سو ہم نے ارادہ باندھا اور لگے اس تلاش میں کہ ہمارے لیے دنیا دیکھنے کا بہترین ذریعہ کیا ہو سکتا ہے؟؟
اتفاقاً ہی ہمیں ایک ٹرین نظر آ گئی جو بہت لمبی تھی اور باہر سے ہی بہت رنگا رنگ اور خوبصورت تھی، ہمارا جی للچایا کہ کیوں نہ اسی پر سوار ہوا جائے، یقیناً یہ ہمیں دنیا کی کچھ نہ کچھ سیر تو کرا ہی دے گی، اور باہر سے اتنی دلکش ہے تو یقیناً اندر سے بھی خوبصورت ہی ہو گی۔ ایسی ٹرین اس سے پہلے ہم نے کبھی نہ دیکھی تھی اور مزے کی بات یہ تھی کہ یہ ہوا میں سفر کرتی تھی۔ ٹرین کے مختلف ڈبوں کے مختلف نام رکھے ہوئے تھے اور ہر ڈبہ اپنی مثال آپ تھا۔ کہیں لوگ گپ شپ میں مصروف تھے، کہیں انٹرویو چل رہےتھے، کہیں فلموں اور گانوں کی باتیں ہو رہی تھیں، کہیں ادبی محفل سجی تھی، کہیں لوگ اپنا اپنا کلام پیش کرتے دکھائی پڑے تو کہیں سائنسی علوم پر بحث چل رہی تھی۔ اور تو اور کہیں مختلف پکوان بھی پکائے جا رہے تھے، اور نت نئے پکوان کھانے کے ہم ویسے ہی بڑے دلدادہ۔۔
ہم نے ذرا غور کیا تو معلوم پڑا کہ اندر جانے کے لیے ٹکٹ بھی لینا ہو گا۔ تو جناب، ہم بھی لگ گئے لائن میں، کافی انتظار کے بعد ہمیں ٹکٹ مل ہی گیا، ہم سجدہ شکر بجا لائے اور تعارف والے ڈبے سے ٹرین میں سوار ہو گئے۔
یہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری پیاری اردو محفل!!
جتنا رنگا رنگ اور پرکشش ہم نے اردو محفل کو باہر سے پایا ، اندر آنے پر تو محفل کی چکا چوند نے ہمیں اپنا اسیر ہی کر لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ہم اس ٹرین پر سوار جہاں دنیا کے مختلف حصوں کی سیر سے لطف اندوز ہوتے چلے آ رہے ہیں، وہیں اپنے جیسی رنگ برنگی مخلوق سے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم انگریزی کی معلمہ ہو گئے۔ پہلے ہی دن یہ حکم شاہی صادر کیا گیا کہ طالبات کے ساتھ پٹر پٹر انگریزی بولنی ہے۔ ہم حکم تو بجا لائے اور ایسا لائے کہ یہ غلط فہمی جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ ہمیں اردو بولنی نہیں آتی۔۔۔۔ اس الزام پہ ہمیں تو چنداں اعتراض نہ تھا اور ہم طالبات کی یہ غلط فہمی دور ہی نہ کرتے اگر ان کی اردو کی خستہ حالی محسوس نہ کر لیتے۔۔۔
اردو محفل کا حصہ بننے کے بعد ہمیں یہ بات بہت شدت سے محسوس ہوئی کہ اس پیاری زبان میں ایک بدیسی زبان کی بہت ملاوٹ ہو رہی ہے۔ اور یہ ملاوٹ ایسی کہ یوں لگنے لگتا جیسے اردو کا وجود ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ اس صورت حال نے ہمیں تو بہت پریشان کیا.. ہم نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہو گئے۔ اگلے دن ہم منصوبے کے تحت جماعت میں شور کرنے والی کچھ طالبات سے کچھ یوں گویا ہوئے..
"طالبات!! خاموشی اختیار کیجیے، بصورت دیگر، ہم یہ جماعت چھوڑ کر چلے جائیں گے اور باوجود آپ کی لاکھ التجاؤں کے، یہاں قدم رنجہ نہ فرمائیں گے۔ "
جماعت میں تو سب کو جیسے اینا کونڈا ہی سونگھ گیا (سانپ تو اکثر سونگھتا رہتا ہے)۔۔ کچھ دیر کی سب سے سستی خاموشی کے بعد ایک صدا آئی!!
"میم آپ اردو بولتی ہیں تو بڑی نئی نئی لگتی ہیں۔ "
ہم نے کہا کہ آج کے بعد ہم آپ کو ہر تیسرے دن نئے نئے لگا کریں گے۔ ہمارے پیریڈ میں ہفتے میں دو دفعہ آخری پانچ منٹ میں خالص اردو بولی جائے گی۔ جس میں کوئی طالبہ انگریزی کا ایک بھی لفظ نہیں بولے گی۔ طالبات کو یہ کھیل بہت دلچسپ لگا اور اس طرح غیر محسوس طریقے سے ہم نے ان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی کہ کم از کم اردو کو اردو کی طرح بولیں اور اس میں انگریزی کی ملاوٹ نہ کریں۔
اسی دن جب ہم جماعت سے جانے لگے تو طالبات نے ضد کی کہ ہمیں خالص اردو میں کچھ اور بھی سنائیں نا ۔۔۔۔۔ ہمارے ذہن میں اور تو کچھ نہ آیا، سو ہم نے کسی زمانے میں پڑھا ہوا یہ لطیفہ ہی سنا ڈالا۔۔۔
لکھنؤ میں دو بچے لڑ رہے تھے۔
پہلا بچہ: دیکھیے! اگر آپ ہماری بات نہیں مانیں گے تو ہم آپ کے والدِ محترم کی شان میں گستاخانہ کلمات پیش کریں گے۔
دوسرا بچہ:: حضور!! ہم بھی آپ کی گال پر ایسا طمانچہ بجا لائیں گے کہ گال گلاب کی مانند چمکنے لگے گا۔
طالبات ہوئیں ہنستے ہنستے بے حال اور ہم ہوئے انھیں دیکھ کر بے تحاشہ نہال
شاید۔۔۔۔ اردو محفل کے رکن نہ ہوتے تو کبھی بھی اپنے اندر یا طالبات میں یہ سدھار لانے کی نہ سوچتے۔
ہماری پیاری اردو محفل!!
لیں جی!! اتنی پیاری اور راج دلاری سی اردو محفل ہو اور ہم محفل کی سالگرہ پر مبارکباد پیش نہ کریں۔ ناممکن!! لہٰذا اب باری ہے اردو محفل کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کی..
یہ رہا کیک!!
غباروں کے بغیر تو سالگرہ ہوتی ہی نہیں
انتظامیہ اور تمام محفلین کو پیاری ، دلاری اور نیاری اردو محفل کی گیارہویں سالگرہ کی ڈھیروں ڈھیر مبارکباد!! ہماری دعا ہے کہ اردو محفل خوب پھلے پھولے اور محفل کی رونقیں ہمیشہ ہمیشہ برقرار رہیں۔ ہمارے ساتھ بھی اور ہمارے بعد بھی۔۔
اتفاقاً ہی ہمیں ایک ٹرین نظر آ گئی جو بہت لمبی تھی اور باہر سے ہی بہت رنگا رنگ اور خوبصورت تھی، ہمارا جی للچایا کہ کیوں نہ اسی پر سوار ہوا جائے، یقیناً یہ ہمیں دنیا کی کچھ نہ کچھ سیر تو کرا ہی دے گی، اور باہر سے اتنی دلکش ہے تو یقیناً اندر سے بھی خوبصورت ہی ہو گی۔ ایسی ٹرین اس سے پہلے ہم نے کبھی نہ دیکھی تھی اور مزے کی بات یہ تھی کہ یہ ہوا میں سفر کرتی تھی۔ ٹرین کے مختلف ڈبوں کے مختلف نام رکھے ہوئے تھے اور ہر ڈبہ اپنی مثال آپ تھا۔ کہیں لوگ گپ شپ میں مصروف تھے، کہیں انٹرویو چل رہےتھے، کہیں فلموں اور گانوں کی باتیں ہو رہی تھیں، کہیں ادبی محفل سجی تھی، کہیں لوگ اپنا اپنا کلام پیش کرتے دکھائی پڑے تو کہیں سائنسی علوم پر بحث چل رہی تھی۔ اور تو اور کہیں مختلف پکوان بھی پکائے جا رہے تھے، اور نت نئے پکوان کھانے کے ہم ویسے ہی بڑے دلدادہ۔۔
ہم نے ذرا غور کیا تو معلوم پڑا کہ اندر جانے کے لیے ٹکٹ بھی لینا ہو گا۔ تو جناب، ہم بھی لگ گئے لائن میں، کافی انتظار کے بعد ہمیں ٹکٹ مل ہی گیا، ہم سجدہ شکر بجا لائے اور تعارف والے ڈبے سے ٹرین میں سوار ہو گئے۔
یہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری پیاری اردو محفل!!
جتنا رنگا رنگ اور پرکشش ہم نے اردو محفل کو باہر سے پایا ، اندر آنے پر تو محفل کی چکا چوند نے ہمیں اپنا اسیر ہی کر لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ہم اس ٹرین پر سوار جہاں دنیا کے مختلف حصوں کی سیر سے لطف اندوز ہوتے چلے آ رہے ہیں، وہیں اپنے جیسی رنگ برنگی مخلوق سے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم انگریزی کی معلمہ ہو گئے۔ پہلے ہی دن یہ حکم شاہی صادر کیا گیا کہ طالبات کے ساتھ پٹر پٹر انگریزی بولنی ہے۔ ہم حکم تو بجا لائے اور ایسا لائے کہ یہ غلط فہمی جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ ہمیں اردو بولنی نہیں آتی۔۔۔۔ اس الزام پہ ہمیں تو چنداں اعتراض نہ تھا اور ہم طالبات کی یہ غلط فہمی دور ہی نہ کرتے اگر ان کی اردو کی خستہ حالی محسوس نہ کر لیتے۔۔۔
اردو محفل کا حصہ بننے کے بعد ہمیں یہ بات بہت شدت سے محسوس ہوئی کہ اس پیاری زبان میں ایک بدیسی زبان کی بہت ملاوٹ ہو رہی ہے۔ اور یہ ملاوٹ ایسی کہ یوں لگنے لگتا جیسے اردو کا وجود ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ اس صورت حال نے ہمیں تو بہت پریشان کیا.. ہم نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہو گئے۔ اگلے دن ہم منصوبے کے تحت جماعت میں شور کرنے والی کچھ طالبات سے کچھ یوں گویا ہوئے..
"طالبات!! خاموشی اختیار کیجیے، بصورت دیگر، ہم یہ جماعت چھوڑ کر چلے جائیں گے اور باوجود آپ کی لاکھ التجاؤں کے، یہاں قدم رنجہ نہ فرمائیں گے۔ "
جماعت میں تو سب کو جیسے اینا کونڈا ہی سونگھ گیا (سانپ تو اکثر سونگھتا رہتا ہے)۔۔ کچھ دیر کی سب سے سستی خاموشی کے بعد ایک صدا آئی!!
"میم آپ اردو بولتی ہیں تو بڑی نئی نئی لگتی ہیں۔ "
ہم نے کہا کہ آج کے بعد ہم آپ کو ہر تیسرے دن نئے نئے لگا کریں گے۔ ہمارے پیریڈ میں ہفتے میں دو دفعہ آخری پانچ منٹ میں خالص اردو بولی جائے گی۔ جس میں کوئی طالبہ انگریزی کا ایک بھی لفظ نہیں بولے گی۔ طالبات کو یہ کھیل بہت دلچسپ لگا اور اس طرح غیر محسوس طریقے سے ہم نے ان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی کہ کم از کم اردو کو اردو کی طرح بولیں اور اس میں انگریزی کی ملاوٹ نہ کریں۔
اسی دن جب ہم جماعت سے جانے لگے تو طالبات نے ضد کی کہ ہمیں خالص اردو میں کچھ اور بھی سنائیں نا ۔۔۔۔۔ ہمارے ذہن میں اور تو کچھ نہ آیا، سو ہم نے کسی زمانے میں پڑھا ہوا یہ لطیفہ ہی سنا ڈالا۔۔۔
لکھنؤ میں دو بچے لڑ رہے تھے۔
پہلا بچہ: دیکھیے! اگر آپ ہماری بات نہیں مانیں گے تو ہم آپ کے والدِ محترم کی شان میں گستاخانہ کلمات پیش کریں گے۔
دوسرا بچہ:: حضور!! ہم بھی آپ کی گال پر ایسا طمانچہ بجا لائیں گے کہ گال گلاب کی مانند چمکنے لگے گا۔
طالبات ہوئیں ہنستے ہنستے بے حال اور ہم ہوئے انھیں دیکھ کر بے تحاشہ نہال
شاید۔۔۔۔ اردو محفل کے رکن نہ ہوتے تو کبھی بھی اپنے اندر یا طالبات میں یہ سدھار لانے کی نہ سوچتے۔
ہماری پیاری اردو محفل!!
لیں جی!! اتنی پیاری اور راج دلاری سی اردو محفل ہو اور ہم محفل کی سالگرہ پر مبارکباد پیش نہ کریں۔ ناممکن!! لہٰذا اب باری ہے اردو محفل کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کی..
یہ رہا کیک!!
غباروں کے بغیر تو سالگرہ ہوتی ہی نہیں
انتظامیہ اور تمام محفلین کو پیاری ، دلاری اور نیاری اردو محفل کی گیارہویں سالگرہ کی ڈھیروں ڈھیر مبارکباد!! ہماری دعا ہے کہ اردو محفل خوب پھلے پھولے اور محفل کی رونقیں ہمیشہ ہمیشہ برقرار رہیں۔ ہمارے ساتھ بھی اور ہمارے بعد بھی۔۔