شمشاد
لائبریرین
زرقا جلدی جلدی قدم اٹھانے لگی تو مجو بولا ------ “ زرقا اتنی جلدی کیا ہے؟ کون جانے یہ دوپہر، یہ تنہائی کے لمحے کبھی پھر ملیں نہ ملیں ------ “
زرقا کی رفتار کسی نے باگ کھینچ کر ڈھیلی کر دی۔
“ میرے خط مل جاتے ہیں ناں ؟“
“ جی ------ “ زرقا نے ہولے سے کہا۔
“ کیا کروں اماں جی کے ڈر سے جو لکھنا چاہتا ہوں وہ لکھ نہیں سکتا“ مجو نے جلدی سے کہا۔
زرقا نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔
“ تیری خاطر مجھے گھر کے تمام افراد کو باری باری خط لکھنا پڑتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ میرے وجود پر بھی اور میرے جذبات پر بھی ------ “
زرقا خاموشی سے چلتی رہی۔ وہ مجو کی ساری باتیں اپنے لوحِ محفوظ پر کندہ کرتی جا رہی تھی۔
“ ذرا وہ ٹاپس مجھے بھی تو دکھاؤ جن کی شیریں اس قدر تعریف کر رہی تھی “ مجو نے کہا۔
“ وہ تو یونہی ------ فضول“ زرقا کا گلا رندھ گیا اور وہ جملہ ختم نہ کر سکی۔
“ تم نہ دکھاؤ، ہم نے دیکھ لیئے ہیں۔ کبھی عورت کی زیبائش بھی چھپی ہے ؟“
زرقا یکدم رک گئی۔ عورت کے متعلق کچھ بھی کہنا اس کے حضور میں بے ادبی کے مترادف تھا۔ مجو نے زرقا کا چہرہ اس لمحے میں کچھ اس طرح دیکھا کہ یہ چہرہ ہمیشہ کے لیئے اس کے ذہن میں جاگزیں ہو گیا۔ ہلکی ہلکی لپ سٹک، خشک بال جو ڈھیلے ڈھیلے چوٹی میں سے نکل کر گردن پر پڑے تھے، موٹی موٹی آنکھیں رونے کے بعد پانی کا چھینٹا لگانے سے سوج گئی ہوں۔
اور گردن کے آس پاس پھیلے ہوئے بالوں میں وہ چمکتے سے جگنو ------
ان جگنوں کو زرقا کے کانوں سے چمٹا دیکھ کر مجو کا جی چاہا کہ انہیں اپنی ہتھیلی میں یوں بھینچے کہ وہ اس کے گوشت میں اتر جائیں اور پھر لہو میں زرقا کے جسم کی حدت بن کر گردش کرنے لگیں۔
“ زرقا ------ !“
“ جی ! ------ “
“ زرقا ایک چیز مانگوں، دو گی ؟“
“ کہیئے ؟ “ گھبرا کر زرقا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر منہ موڑ کر اماں کی طرف نظر کی۔ ککو اور رانی اماں کو لیئے گھونگھے والے کی دوکان پر کھڑی تھیں اور حبیب میرزا دوکاندار سے کچھ مول تول کر رہے تھے۔
“ زرقا مجھے اپنے کانوں کے ٹاپس دے دو ------ “
“ دونوں ؟ ------“ حیرت سے زرقا نے پوچھا۔
“ چلو ایک ہی سہی ------ “
“ آپ کو کیوں چاہیے ------ ؟“ زرقا نے سوال کیا۔
“ میں تمہاری نشانی رکھوں گا ------ “
زرقا کچھ پشیمان سے ہو کر بولی ------ “ مجو جی ------ یہ تو بڑے مہنگے ہیں۔ اماں پہننے ہی نہیں دیتیں۔ وہ تو میں نے آج زبردستی پہن لیے ہیں “
مجو نے ہنس کر کہا ------ “ تحفہ اور نشانی ہمیشہ مہنگی ہونی چاہئیے زکی۔ اس طرح اس کی وقعت دونی ہو جاتی ہے۔ کچھ تو چیز کی قیمت کے باعث اور کچھ دلی لگاؤ کی خاطر “
“ آپ ------ آپ میرا رومال لے لیجیئے ------ “ اس نے ریشمی رومال ڈرتے ڈرتے اس کی طرف بڑھانے کی کوشش کی۔
مجو نے رومال لیا، ناک کو لگایا، اس میں سے تیز خوشبو آ رہی تھی۔
رومال لوٹاتے ہوئے مجو بولا ------ “ یہ رومال تمارا نہیں ہے۔ اس میں سے کسی بدیشی سینٹ کو خوشبو آتی ہے۔ “ پھر اس نے ذرا رک کر کہا “ ٹاپس دے دیتیں تو میں اس کا ٹائی پِن بنوا کر پہنتا ------ اور تمہیں دعائیں دیتا اور اگر کبھی پیسے کی کمی آ جاتی تو اس کے دس ہزار وصول کر لیتا ------ “
“ ہائے اللہ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ “ زرقا روہانسی ہو کر بولی۔
مجو نے اونچا سا قہقہہ لگایا اور زور سے لیلی کو آواز دی ------ “ لیلی لیلی ٹھرو بھئی میں بھی آ رہا ہوں ------ زکی بیگم تمہاری مجبوری ہے ورنہ جو چیز مجھے اچھی لگتی ہے وہ میں یوں اُڑا لیا کرتا ہوں“ اس نے چٹکی بجا کر زرقا کو دکھائی اور پھر ساحل کنارے مٹھائی کا لفافہ رکھ کر پتلون کے پایئنچے اونچے کرنے لگا۔
زرقا کی رفتار کسی نے باگ کھینچ کر ڈھیلی کر دی۔
“ میرے خط مل جاتے ہیں ناں ؟“
“ جی ------ “ زرقا نے ہولے سے کہا۔
“ کیا کروں اماں جی کے ڈر سے جو لکھنا چاہتا ہوں وہ لکھ نہیں سکتا“ مجو نے جلدی سے کہا۔
زرقا نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔
“ تیری خاطر مجھے گھر کے تمام افراد کو باری باری خط لکھنا پڑتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ میرے وجود پر بھی اور میرے جذبات پر بھی ------ “
زرقا خاموشی سے چلتی رہی۔ وہ مجو کی ساری باتیں اپنے لوحِ محفوظ پر کندہ کرتی جا رہی تھی۔
“ ذرا وہ ٹاپس مجھے بھی تو دکھاؤ جن کی شیریں اس قدر تعریف کر رہی تھی “ مجو نے کہا۔
“ وہ تو یونہی ------ فضول“ زرقا کا گلا رندھ گیا اور وہ جملہ ختم نہ کر سکی۔
“ تم نہ دکھاؤ، ہم نے دیکھ لیئے ہیں۔ کبھی عورت کی زیبائش بھی چھپی ہے ؟“
زرقا یکدم رک گئی۔ عورت کے متعلق کچھ بھی کہنا اس کے حضور میں بے ادبی کے مترادف تھا۔ مجو نے زرقا کا چہرہ اس لمحے میں کچھ اس طرح دیکھا کہ یہ چہرہ ہمیشہ کے لیئے اس کے ذہن میں جاگزیں ہو گیا۔ ہلکی ہلکی لپ سٹک، خشک بال جو ڈھیلے ڈھیلے چوٹی میں سے نکل کر گردن پر پڑے تھے، موٹی موٹی آنکھیں رونے کے بعد پانی کا چھینٹا لگانے سے سوج گئی ہوں۔
اور گردن کے آس پاس پھیلے ہوئے بالوں میں وہ چمکتے سے جگنو ------
ان جگنوں کو زرقا کے کانوں سے چمٹا دیکھ کر مجو کا جی چاہا کہ انہیں اپنی ہتھیلی میں یوں بھینچے کہ وہ اس کے گوشت میں اتر جائیں اور پھر لہو میں زرقا کے جسم کی حدت بن کر گردش کرنے لگیں۔
“ زرقا ------ !“
“ جی ! ------ “
“ زرقا ایک چیز مانگوں، دو گی ؟“
“ کہیئے ؟ “ گھبرا کر زرقا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر منہ موڑ کر اماں کی طرف نظر کی۔ ککو اور رانی اماں کو لیئے گھونگھے والے کی دوکان پر کھڑی تھیں اور حبیب میرزا دوکاندار سے کچھ مول تول کر رہے تھے۔
“ زرقا مجھے اپنے کانوں کے ٹاپس دے دو ------ “
“ دونوں ؟ ------“ حیرت سے زرقا نے پوچھا۔
“ چلو ایک ہی سہی ------ “
“ آپ کو کیوں چاہیے ------ ؟“ زرقا نے سوال کیا۔
“ میں تمہاری نشانی رکھوں گا ------ “
زرقا کچھ پشیمان سے ہو کر بولی ------ “ مجو جی ------ یہ تو بڑے مہنگے ہیں۔ اماں پہننے ہی نہیں دیتیں۔ وہ تو میں نے آج زبردستی پہن لیے ہیں “
مجو نے ہنس کر کہا ------ “ تحفہ اور نشانی ہمیشہ مہنگی ہونی چاہئیے زکی۔ اس طرح اس کی وقعت دونی ہو جاتی ہے۔ کچھ تو چیز کی قیمت کے باعث اور کچھ دلی لگاؤ کی خاطر “
“ آپ ------ آپ میرا رومال لے لیجیئے ------ “ اس نے ریشمی رومال ڈرتے ڈرتے اس کی طرف بڑھانے کی کوشش کی۔
مجو نے رومال لیا، ناک کو لگایا، اس میں سے تیز خوشبو آ رہی تھی۔
رومال لوٹاتے ہوئے مجو بولا ------ “ یہ رومال تمارا نہیں ہے۔ اس میں سے کسی بدیشی سینٹ کو خوشبو آتی ہے۔ “ پھر اس نے ذرا رک کر کہا “ ٹاپس دے دیتیں تو میں اس کا ٹائی پِن بنوا کر پہنتا ------ اور تمہیں دعائیں دیتا اور اگر کبھی پیسے کی کمی آ جاتی تو اس کے دس ہزار وصول کر لیتا ------ “
“ ہائے اللہ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ “ زرقا روہانسی ہو کر بولی۔
مجو نے اونچا سا قہقہہ لگایا اور زور سے لیلی کو آواز دی ------ “ لیلی لیلی ٹھرو بھئی میں بھی آ رہا ہوں ------ زکی بیگم تمہاری مجبوری ہے ورنہ جو چیز مجھے اچھی لگتی ہے وہ میں یوں اُڑا لیا کرتا ہوں“ اس نے چٹکی بجا کر زرقا کو دکھائی اور پھر ساحل کنارے مٹھائی کا لفافہ رکھ کر پتلون کے پایئنچے اونچے کرنے لگا۔