ایک دو غزلہ... اصلاح اور مشوروں کا طالب ہوں

استاد محترم جناب الف عین سر، اساتذہءِ کرام اور احباب محفل
کافی تاخیر کے بعد اس غزل کو اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں. ایک عرصہ سے اس کے اشعار کے متعلق گومگو کا شکار ہوں. غزل تو ایک بار میں ہی ہوئی تھی لیکن اشعار میں دو الگ الگ موڈ ضبط تحریر ہوئے. لکھنے کے بعد جب پوری غزل پڑھی تو اس کا احساس ہوا. اب مجھے فیصلہ لینے میں دقت ہو رہی ہے کہ کن اشعار کو رکھوں اور کن اشعار کو ترک کر دوں. فی الحال یہ دو غزلہ کی شکل میں ہے۔ آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ ان اشعار پر اصلاحی اور اجمالی دونوں پہلؤں سے اپنی رائے اور مشوروں سے نوازیں. اور آیا ان اشعار کو ایک غزل میں رکھا جائے یا دو بالکل الگ الگ غزلوں کی صورت میں.
جزاک اللّہ
★★★★★★★★★★★★★★★
تم ہم سے محبت کی خود کو نہ سزا دینا
بس مجھ کو بھلا دینا ہر یاد مٹا دینا

اک خوابِ پریشاں میں یہ دیکھتا ہوں اکثر
ارمانوں کا حسرت کے دریا میں بہا دینا

جب دور ہوں میں تم سے اور ملنے کو دل چاہے
اس وقت کڑے دل سے خواہش کو دبا دینا

ہر خواب و تمنا کو اس دشتِ طلب میں تم
چن چن کے الگ رکھنا اور آگ لگا دینا

ارمان ہزاروں ہیں الجھن ہے یہی کاشف
کس کس کی دعا کرنا، کس کس کو بھلا دینا
★★★★★★★★★★★★★★★
تکرار محبت میں ہوتی ہے مگر دل سے
ہر شکوہ بھلا دینا، ہر بار دعا دینا

سچّی ہے اگر الفت، محبوب کا حق یہ ہے
بس یاد اسے رکھنا، دنیا کو بھلا دینا

لفظوں سے بنا دینا وہ پھول سا پیکر اور
اس لمس سے خوشبو کا ہالہ سا بنا دینا

کیا حسنِ ادا ہے یہ، جب عشق نظر آئے !
آنچل میں سمٹ جانا نظروں کو جھکا دینا

گھر آنے پہ میرے یہ معمول رہا اس کا
اک دیپ بجھا دینا، اک شمع جلا دینا

آنچل مرے چہرے پر لہرا کے گزر جانا
معصوم شرارت سے جذبوں کو ہوا دینا
★★★★★★★★★★★★★★★
 

الف عین

لائبریرین
اچھا ہے دو غزلہ /غزل۔ میرے خیال میں اگر ایک غزل ہی رکھی جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
اصلاح کی رو سے۔۔ مطمع کمزور لگا مجھے۔ اسے بدل سکو تو اچھا ہے۔
لفظوں سے بنا دینا وہ پھول سا پیکر اور
اس لمس سے خوشبو کا ہالہ سا بنا دینا
اتنا برا تو نہیں، لیکن پہلے مصرع میں بہتری کی گنجائش ہے، آخر میں ’اُر‘ کی وجہ سے۔ ثانی میں خوشبو کا ہالہ جدت سہی، لیکن کچھ عجیب سا لگتا ہے۔

گھر آنے پہ میرے یہ معمول رہا اس کا
اک دیپ بجھا دینا، اک شمع جلا دینا
دیپ اور شمع میں فرق تو کچھ نہیں، کم از کم میری ناقص عقل میں یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا، یا یوں کہوں کہ محبوب کی یہ نا معقول حرکت پسند نہیں آئی!!!!
 
اچھا ہے دو غزلہ /غزل۔ میرے خیال میں اگر ایک غزل ہی رکھی جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
اصلاح کی رو سے۔۔ مطمع کمزور لگا مجھے۔ اسے بدل سکو تو اچھا ہے۔

اتنا برا تو نہیں، لیکن پہلے مصرع میں بہتری کی گنجائش ہے، آخر میں ’اُر‘ کی وجہ سے۔ ثانی میں خوشبو کا ہالہ جدت سہی، لیکن کچھ عجیب سا لگتا ہے۔


دیپ اور شمع میں فرق تو کچھ نہیں، کم از کم میری ناقص عقل میں یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا، یا یوں کہوں کہ محبوب کی یہ نا معقول حرکت پسند نہیں آئی!!!!
استاد محترم جہاں تک دیپ اور شمع کا تعلق ہے اسے اس طرح سے دیکھیں کہ دیپ راستے میں۔اس لئے جلایا جاتا ہے کہ منزل تک آنے کا راستہ صاف صاف دکھائی دے یعنی یہ انتظار کی علامت ہے. شمع گھر، کمرہ وغیرہ روشن کرنے کے لئے جلائی جاتی ہے یہاں بمعنی استقبال کے ہے.

استاد محترم اب شعر دیکھئیں اور کلاسیکی اردو روایت کا لطف اٹھائیں۔

باقی اصلاحات پر ان شا اللہ جلد ہی نظر کرونگا.
جزاک اللّہ
 

الف عین

لائبریرین
اچھا تو راستے کا دیا مراد تھی لیکن دیپ اور دیا ہم معنی نہیں۔ دیپ تو ہندی میں ہر چراغ کو کہتے ہیں۔ ویسےStrictly نہ دیکھیں تو درست ہےان معنوں میں کہ زیادہ مستعمل انھیں معنوں میں ہے۔
 
Top