"ایک دہریے کی داستان"

"ایک دہریے کی داستان"

دہریت ایک نظریہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے
ایک ملحد نرگسیت کا شکار ہوتا ہے ماہرین نفسیات کے نزدیک نرگسیت ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان خود سے محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نرگسیت عجیب تماشے دکھاتی ہے .........
امریکہ میں تو ایک خاتون نے حد ہی کر دی ،بتایا گیا ہے کہ 36سالہ ندینہ شیوگرٹ کو خود سے ا تنی محبت تھی کہ اس نے خود سے ہی شادی کر لی،اس سلسلے میں شادی کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی جس میں ندینہ نے نیلے رنگ کا لباس پہنا اور ہاتھوں میں روایتی گلدستہ بھی اٹھایا تاہم اس شادی میں کوئی دولہا موجود نہیں تھااور 45 کے قریب مہمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر ندینہ نے کہا کہ برسوں کسی موزوں انسان کے انتظارکے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ تنہائی میں اور اپنے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے ، اسے خود سے محبت ہے اور وہ خود سے شادی کر رہی ہے ، ندینہ نے اپنے آپ کو خود ہی
انگوٹھی پہنائی اور شادی کے بعد اکیلے ہی ہنی مون پر بھی روانہ ہو گئی۔
انکار حقائق بھی ایک دہریے کے بنیادی عوارض میں سے ہے عموم چونکہ مذہب پرست ہوتے ہیں اسلئے ایک دہریہ اپنے مسائل و مصائب سے متاثر ہوکر لامذہبیت میں پناہ ڈھونڈتا ہے .......
گو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ مسائل و مصائب میں ایک مذہب پرست مذہب کی پناہ ڈھونڈتا ہے ..............
بے شک ایسا ہی ہے لیکن مذہب رد عمل کی نفسیات سے محفوظ رکھتا ہے ایک خالق پر یقین اسکو ایک روحانی طاقت عطا کرتا ہے جو اسے منفی سرگرمی سے محفوظ رکھتی ہے
ایک لادین تمام مسائل کی جڑ مذہب کو قرار دیکر اپنا پیچھا چھڑا لیتا ہے اور آسانی سے منفی رد عمل کی جانب پلٹتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی طرح کی اخلاقی اقدار کا پابند نہیں ہوتا
دہریت کا یہ سفر شروع کیسے ہوتا اگر اسکو ابتدا سے دیکھا جائے تو داستان کچھ اسطرح بنتی ہے ...
وسواسی اجباری اضطراب (Obsessive-compulsive disorder) سے مراد علم نفسیات میں ایسے خلل الدماغ یا مرضِ نفسی کی ہوتی ہے جس میں خصوصیاتِ وسواس (obsession) و اجبار (compulsion) دونوں پائی جاتی ہوں۔ اصل میں ہوتا یوں ہے کہ یہ مرض فی الحقیقت دماغ میں موجود فطرتی افعال کے میانہ روی سے تجاوز کر جانے کے باعث واقع ہوتا ہے؛ انسانی فطرت کے مطابق جب اسے کسی بات پر شک و شبہ محسوس ہو تو وہ اس کی یقین دہانی کے ليے اس کو ایک بار لوٹ کر اپنی تسلی کرتا ہے کہ کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی؟ مثال کے طور پر رات سوتے وقت اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس نے دورازہ اندر سے مقفل نہیں کیا تو وہ بستر پر لیٹنے سے قبل ایک بار جاکر دروازہ دیکھ کر اسکے بند ہونے کا یقین کرتا ہے؛ یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن اگر یہی شک و شبہ کی کیفیت حد سے تجاوز کر جائے اور ایک بار دیکھ کر واپس بستر تک آنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مشکوک ہو جائے کہ ؛ آیا دروازہ واقعی بند تھا یا اندھیرے کی وجہ سے وہ درست دیکھ نہیں پایا؟ اور پھر دوبارہ دروازہ بند ہونے کی تصدیق کرنے جائے ، واپس آئے اور پھر شبے میں مبتلا ہو جائے کہ؛ آیا دروازہ میں کنڈی درست بند ہوئی تھی یا ڈھیلی رہ گئی؟ اور پھر دوبارہ تصدیق کرنے کو جائے تو اس قسم کے بیجا اور حد سے بڑھے ہوئے شک و شبہ کو وسوسہ (obsession) کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس وسواس یا وسوسے کی وجہ سے وہ شخص بار بار اسی کام کی تکرار پر نفسیاتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے ، حتیٰ کہ اگر وہ خود بھی اس بار بار دہرانے کے عمل سے پریشان ہو جائے مگر اسکے باوجود وہ اس تکرار پر خود کو مجبور پاتا ہے اور وسوسے کی وجہ سے پیدا ہونے والی اسی مجبوری کی کیفیت کی وجہ سے اسے اجباری (compulsive) کہا جاتا ہے یعنی وسوسہ اور پھر اس وسوسے سے ہونے والی مجبوری (جبر ، اجبار) کے باھم پائے جانے کی وجہ سے ان اضطرابات کو وسواسی اجباری اضطرابات کہا جاتا ہے۔

ایسی ہی مثال ایک ملحد کی ہے وہ اپنے معاشرتی مسائل کا جب اعلی مذہبی اقدار سے موازنہ کرتا ہے تو تشکیک کا شکار ہوتا ہے یہ ایک ابتدائی بیج ہے آہستہ آہستہ یہ بیج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو اندر ہی اندر جڑ پکڑتا ہے اور اس کا انجام کلی انکار یا انحراف ہوتا ہے
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیئے جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہو...

سی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.

Cogito ergo sum (I think therefore i am )

“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے.

اب ذرا ایک داستان سنیے...

یہ ایک موروثی مسلمان ہیں (مسیحی ،سکھ یا ہندو بھی ہو سکتے ہیں ) لیکن دینی تعلیمات سے نابلد کمزور یقین کا شکار ہیں انکے نزدیک حقائق صرف وہ ہیں جو ان کی عقل شریف میں سما جائیں .........
ابتدا مجھول قسم کے سوالات سے ہوتی ہے بنیادی دینی تعلیمات سے ناواقف ہونے کے باوجود یہ خود کو ایک عظیم عالم سمجھتے ہیں بلکہ واحد عظیم عالم گو رہتے یہ طالب علم کے بھیس میں ہیں ......
کسی کی ذہنی اور فکری تشنگی دور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہاں یہ سوالات اٹھائینگے اور بیشمار اٹھائینگے لیکن ان تمام سوالات کے جوابات صرف وہی ہونگے جو انکو قبول ہوں .......
یہ سائل کے بھیس میں چھپے ممتحن ہیں جو آپ کا امتحان لے رہے ہیں اور نتیجہ صرف اور صرف آپ کی ناکامی ہے ...
ابتدا میں یہ ایک چھوٹی بیماری ہوتی ہے یہ مذہب کی تعلیمات میں اہل علم اور اکابرین کی چھوڑ کر حریت فکر کا نعرہ بلند کرینگے پچھلے آثار و قرائن اور اور نظائر سے بالاتر ہوکر مذہب کے بنیادی ماخذ سے لینے کے دعویدار ہونگے ......
سلف کی تحقیق کو پرِ کاہ کی اہمیت نہیں بلکہ سلف انکی عدالت میں سر جھکانے کھڑے ہیں اور یہ فیصلے پر فیصلے سنا رہے ہیں .......

لیکن یہ صرف ابتدا ہے ......
اب انکو بنیادی ماخذات پر ہی اشکال ہوگا اعترضات اٹھائے جائینگے کہیں مذہبی قانون (فقہ ) پر سوال اٹھے گا اور پھر براہ راست شارح(حدیث ) پر انگلیاں اٹھ جائینگی .........
گو ابھی تقدس باقی ہے اسلئے براہ راست پیغمبر پر انگلی نہیں اٹھائی گئی مگر کتنی دیر پہلے تعلیمات پیغمبر کے واسطوں کو غلط قرار دیا جائے گا تاکہ (کتاب ) سے من مانی تعبیرات نکالی جا سکیں اور اپنی ضرورت اور نفسانی خواہشات کو دین کا نام دیا جا سکے .......
لیکن کتنی ہی تاویل کیوں نہ کرلی جائے انکی جدید و عجیب تعبیرات مقبول نہیں انکو ہر جگہ ذلت کا سامنے ہے انکی ہر جگہ سبکی ہوتی ہے .......
یہاں سے رد عمل کی نفسیات کا آغاز ہوگا (کتاب ) کی صحت پر شک ہوگا صاحب کتاب کی شخصیت پر الزامات لگیںگے............لیجئے ایک پکا پکایا ملحد تیار ہے ..........
اب سوال انکار خدا کا ہے ابتدا خدا کو ایک ذہنی اور معاشرتی ضرورت قرار دینے سے ہوگی ان کے نزدیک خدا ایک تصوراتی شے ہے جسکو انسان نے اپنی مطلب براری کے لیے تخلیق کیا ہے ......
یعنی خالق مخلوق اور مخلوق خالق ......

اصل میں یہ ایک عظیم دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں .....
دھوکہ کیا ہے ...............
ایک شخص اعلان کر دے میں نے سورج کو مغرب سے نکلتے دیکھا ہے ........
کائناتی اصولوں کے خلاف ہے کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا .......
یہ کائناتی اصول کہاں سے معلوم ہوے........
مسلسل و مستقل مشاہدہ سے ...........
یہ ایک ایسا مشاہدہ ہے جو تمام انسان صدیوں سے کرتے چلے آے ہیں اسلئے سورج کو مشرق سے نکلتے دیکھ لینا ہی ثبوت ہے ............

ایک شخص کھڑے ہو کر اعلان کرے امریکہ نامی کوئی مملکت موجود نہیں ..........
یہ پہلے سے کم تر درجے کی حقیقت ہے لیکن یہ بھی قابل تسلیم ہے ......
کیوں کہ بہت سے لوگوں نے امریکہ کو دیکھا ہے اسکے بارے میں پڑھا ہے اسکے متعلق سنا ہے ......
اب بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے امریکہ کو کبھی نہیں دیکھا وہ بھی اس کے ہونے کا یقین رکھتے ہیں گو انھیں مشاہدہ حاصل نہیں ہوا ........

ایک شخص کھڑے ہوکر اعلان کرے ڈائناسور کوئی چیز نہیں .........
اس عظیم الجثہ جاندار کو کسی نے نہیں دیکھا ........
ایک بڑی تعداد اس سے لاعلم ہے ......
ثبوت چند بکھرے ہوے سائنسی حقائق اور بس چند حاصل شدہ فوسلز اور کیا .........
لیکن دنیا اس کو ایسا ہی تسلیم کرتی ہے جیسے سامنے ٹیبل پر رکھی ہوئی کتاب ...........

اب ایک تجزیہ کیجئے ...........
تاریخ انسانی کے ابتدائی دور سے موجودہ دور تک ایک گروہ کثیر .........
فلسفی ،سائنسدان ،نفسیات دان ،مورخ ، ادیب ،شاعر ،لیڈر .......
یعنی عقل و احساس کے مختلف زاویوں سے دیکھنے والے احباب ..........

ایک بادشاہ سے لیکر ایک بھنگی تک ........
رنگ نسل قومیت اور علاقائیت ......
ادوار سے ماورا .........
ایک جدید ترین شہر میں بیٹھا ا علی دماغ شخص .....
یا کسی گھنے جنگل میں پتے باندھے کوئی وحشی .....

یہ سب کیوں ایک اندیکھے خدا کو مانتے ہیں ..........
کیا یہ انسانی فطرت نہیں ........

ایک اصول سمجھ لیں لادین فطرت کے مقابل ہیں اسی لیے ......
ناکام ہیں .........
آپ کے لائے ہوے نظام آپکا فلسفہ آپکی فکر ........
انسانیت نے آپ کو قبول کرنے سے انکار دیا ہے ......
اور آپ کا یہ رد ........
ہر دور میں ہر وقت ہر جگہ ہوا ہے .....

کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ آپ لوگ اپنی شکست تسلیم کر لیں .....

حق تو یہ ہے انسانیت نے آپ کو مردود کر کے .......
ایک ان دیکھے خدا کو چن لیا ہے .....!
یہ تصور خدا پر سوالات اٹھاتے اشکالات پیدہ کرتے ہیں اور جب انکے بچگانہ سوالات کا جواب علمی انداز میں دیا جائے تو اپنی کم عقلی پر بغلیں بجاتے ہیں ....
اگر تصور خدا کی بات کی جانے اور موضوع تحقیق خدا کی ذات ہو چاہے راستہ کوئی بھی ہو فلسفہ ،سائنس،مذہب یہ پھر وہ فطری احساس جو کسی جنگل بیابان کسی صحرا یہ پھر کسی دور دراز جزیرے میں بیٹھا کوئی تہذیب نا شناس شخص جو اپنی فطری ضرورت سے مجبور ہوکر کسی خدا کا اسیر ہو ،
آخر ہمیں کسی خدا کے ہونے کی حاجت ہی کیوں ہے آخر کیوں نوع انسانی جو کبھی پہاڑوں میں آباد تھی یہ وہ جدید ترین انسان جسنے چاند پر جھنڈا لہرایا تھا کسی خدا کے اسیر ہیں خدا کے ہونے کا یہ احساس کیوں صدیوں کا سفر طے کرتے ہوے آج بھی غالب ترین اکثریت کو اپنے جال میں پھانسے ہوے ہے ،
قوموں قبیلوں جغرافیائی حدود کو پھلانگتا ہوا ادوار کی قید سے آزاد یہ تصور کہ کوئی خدا ہے کیا اک مغالطہ ہی ہے ؟
آخر بے خدا گروہ ہمیشہ انتہائی قلیل ہی کیوں رہا ہے اور انکے ہاں بھی سب سے بڑا تذکرہ خدا ہی رہا ہے
یعنی نا چاہتے ہوے بھی تردید کی راہ سے تذکرہ تو اسی کا ہے

یہ سوال اک طویل عرصے تک پیش نظر رہا کہ اسکی کیا وجہ ہے نوع انسانی بحثیت مجموعی خدا کے تصور کی قائل رہی ہے ، پھر جب انسانی نفسیات اور اسکے سوچنے کے فطری انداز سے واقفیت ہوئی تو یہ بات آشکار ہوئی کہ انسان عافیت پسند ہے آسانی کی طرف بھاگتا ہے کائنات کے عظیم الشان حقائق اسے اگر آسان اور سادہ انداز میں سمجھا دئیے جائیں تو اسکا دماغ انھیں آسانی سے جذب کر لیتا ہے ،

انسان چیزوں کو انکے تضادات سے پہچانتا ہے سچ کی پہچان جھوٹ کے ہونے سے ہوتی ہے طاقت کمزوری کی وجہ سے جانی جاتی ہے اونچائی کا احساس پستی کی وجہ سے ہوتا ہے حق باطل کے ہونے سے معتبر ہے مثبت منفی سے برآمد ہوتا ہے تیزی کا تعارف آہستگی کی وجہ سے ہوتا ہے مذکر مونث کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے خشکی تری کی وجہ سے منفرد ہوتی ہے غرض تضادات اک دوسرے کی پہچان کا موجب ہیں موت کے بغیر حیات کی اہمیت سے واقف ہونا ممکن نہیں !
یہاں اصحاب عقل کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ عدل کیا ہے جو ان دو متناقص کے درمیان واقع ہوا ہے تو جواب میں ہم کہینگے عدل ضد ہے بے اعتدالی کی اضداد اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہیں ،
کسی بھی انسان کے شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہی اسکو سب سے پہلی واقفیت اضداد سے ہی ہوتی ہے یہ اک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر سوچنے والی مخلوق واقف اور ہر شعور رکھنے والا اسکا قائل ہے ،
انسان اپنی اسی فطری صلاحیت کے تحت کسی خالق کو تسلیم کرتا ہے اگر مخلوق موجود ہے اپنی تمام تر حدود و قیود اور کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ تو پھر لازم ہے اسکی مکمّل ضد خالق کا ہونا اپنی تمام خوبیوں لامحدودیت اپنی پوری قوت اور شان کے ساتھ

مذاہب کو ماننے والی کثیر خلقت خالق و مخلوق کے سادہ ترین تعلق سے واقف ہے ہم کہ سکتے ہیں کہ علما مذاہب کے مابین خالق کی بابت بہت سے اختلافات موجود ہیں لیکن اک عام مذہبی آدمی سادہ ترین شکل میں جانتا ہے کہ اک ایسی عظیم الشان قوت جو اسکی احتیاجات کو پورا کرتی ہے دور و قریب سے اسکی التجاؤں کو سنتی ہے وہ پر یقین ہے اک ایسے وجود کے ہونے کا جو اس کا آخری سہارا ہو سکتا ہے ،
اور یہ فلسفہ اسے کسی مکتب میں نہیں پڑھایا گیا بلکہ وہ خالق کے ہونے کو ایسے ہی جانتا ہے جیسے اپنے ہونے سے واقف ہے ،
علما مذاہب خالق کے ہونے کی مختالب تعبیرات پیش کرتے ہیں اور یہیں سے مذہبی مباحیث کا آغاز ہوتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان تعبیرات میں سے اک صحیح ترین تعبیر بھی ہوگی جو حق سے قریب تر بھی ہوگی لیکن وہ اسوقت موضوع بحث نہیں حاصل گفتگو یہ ہے کہ خدا شناس لوگ اک اصل پر متفق ہیں اور وہ ہے کسی خالق کا ہونا اور اسکا سادہ ترین ضابطے میں مخلوق سے متعلق ہونا !

اک جانا پہچانا اصول یہ ہے کہ خالق کو اسکی تخلیق سے پہچانا جانے آج جدید سائنس ترقی کرکے اس مقام تک آپوھنچی ہے کہ آپکے دستخط سے آپکی شخصیت کی پرتوں کو کھولا جا سکتا ہے ،
اگر کسی کو شاعری درک حاصل ہو تو اسکے سامنے اقبال کا کوئی شعر غالب کے نام سے نقل کردیجئے فورن پہچان لیا جانے گا شاعر کے الفاظ ہونگے "میاں یہ غالب کا رنگ نہیں " کسی شاعر کا مخصوص رنگ کسی مصنف کا مخصوص طرز تحریر یہ کسی مصور کی تخلیق کا منفرد انداز ،
گھریلو خواتین کا ہی مشاہدہ کیجئے مختلف خواتین کے ہاتھ کے کھانوں کا ذائقہ الگ ہوتا انہی اجزاء سے بنی چائے الگ مزہ کیوں دیتی ہے روٹی کا نقشہ پکانے والے کی پہچان کیوں کروا دیتا ہے !
ذات خدا وندہ منبع ہے تمام جذبات احساسات اور ان تمام صفات کی جو مخلوقات کو بہت ادنا درجے میں عطا ہوئی ہیں اور خاص طور پر انسان جسے "خلیفہ " قرار دیا جاتا ہے جسکے بارے میں الہامی کتب میں ملتا ہے اسے خدا نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا ہے بلاشبہ غضب ،محبت ،دوستی ،دشمنی یہ سارے جذبات اور سب سے بڑھ کر صفات تخلیق خدا کی صفات کا پرتو ہیں لیکن کہاں وہ ذات جہاں سے تمام صفات کی ابتداء ہوتی ہے اور کہاں وہ مخلوق جسکو عارضی طور پر کچھ صلاحیتوں سے مزین کیا گیا ہو !
پس معلوم ہوا کہ انسان کی خواہش بادشاہت کی ہمیشہ زندہ رہنے کی آرزو زمان و مکان کی قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کی لاحاصل کوششیں اور سب کچھ جان لینے کی خلش !
کوئی کیسے کہ سکتا ہے کہ انسان اپنی صفات کی روشنی میں خدا تخلیق کرتا ہے ہاں قیاس کے تمام زاویے اس حقیقت تک رہنمائی کرتے ہیں کہ خدا کی صفات کا ادنی سا پرتو انسان پر پڑا ہے !

ہم کون ہیں
کہاں سے آے
کسلئیے آے
ہماری ابتدا کیا ہے
اور انتہا کیا ہے
ان تمام سوالات کا جواب داستان دہریت میں کہیں نہیں ملتا ..........
اسکی ابتدا شک ہے
اسکی انتہا ریب ہے

اور یہ انجام ہے ایسے شخص کا جو لاریب کا منکر ہے
یہ سوالات اٹھاتا ہے جواب کوئی نہیں
یہ مسائل کھڑے کرتا ہے حل کوئی نہیں
یہ ایک ایسی مادی مشین ہے جو حواس خمسہ میں مقید ہو کر کائناتی حقائق کو کھولنے کا دعوے دار ہے ..

ہم کہ سکتے ہیں کہ دہریت کوئی علمی یا فکری چیز نہیں بلکہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے
اور یہ لوگ فتوی کے نہیں علاج کے مستحق ہیں .......

حسیب احمد حسیب
 

ربیع م

محفلین
مذہب کیخلاف جدید سائنسی مقدمہ اور پسند نا پسند کا اثر


د​

ھٹکر چیمبرز نے اپنی کتاب شہادت میں اپنے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جو بلا شبہ اس کی زندگی کے لئے ایک نقطہ انقلاب بن سکتا تھا وہ اپنی چھوٹی بچی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر بچی کے کام پر جا پڑی اور غیر شعوری طور پر وہ اس کی ساخت کی طرف متوجہ ہو گیا اس نے اپنے جی میں سوچا یہ کتنی غیر ممکن بات ہے کہ ایسی پیچیدہ اور نازک چیز محض اتفاق سے وجود میں آجائے یقیناً یہ پہلے سے سوچئ سمجھے نقشے کے تحت ہی ممکن ہوئی ہو گی مگر اس نے جلد ہی اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دیا کیونکہ اسے احساس ہوا کہ اگر وہ اس کو ایک منصوبہ مان لے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسے منصوبہ سا ز (خدا) کو بھی ماننا ہو گا اور یہ ایک ایسا تصور تھا جسے قبول کرنے کیلئے اس کا ذہن آمادہ نہیں تھا۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ٹامس ڈیوڈ پارکس لکھتا ہے۔
” میں اپنے پروفیسروں اور ریسرچ کے سلسلے میں اپنے رفقاء کار میں بہت سے سائنسدانوں کے بارے میں جانتا ہوں کہ علم کیمیا اور طبعیات کے مطالعہ و تجربہ کے دوران میں انہیں بھی متعد و مرتبہ اس طرح کے احساسات سے دو چار ہونا پڑا“۔
)The evidence of God in an expanding Universe Edited by john clover monsma p.73-74 (
کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ایسا موڈ جو خدا کی رہنمائی کی طرف اشارہ کرتا ہے وہیں سےآدمی الٹی سمت میں مڑجاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ کوئی علمی دریافت نہیں بلکہ محض ذاتی پسند کو فوقیت دینا ہے.
نظریہ ارتقا کی مثال ہمارے سامنے ہے ، اس کا تصور یک طرفہ تمام علمی شعبوں پر چھاپا جارہا ہے ہر وہ مسئلہ جس کو سمجھنے کے لئے خدا کی ضرورت تھی اس کی جگہ بے تکلف ارتقا کا ایک خو بصورت بت بنا کر رکھ دیا گیا ہے مگر دوسری طرف عضویاتی ارتقا کا نظریہ جس سے تمام ارتقائی تصورات اخذ کئے گئے ہیں اب تک بے مشاہد اور بے دلیل ہے حتی کہ بعض ریسرچرز نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ اس تصور کو ہم صرف اس لئے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس موجود نہیں ہے ، سر آرتھ کیتھ نے ۱۹۵۳ء میں کہا تھا۔
“Evolution is unproved and unprovable We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable”
Islamic Thought, dec 1961)
یعنی ارتقاء ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ہم اس پر صرف اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے۔ گویا سائنسداں ارتقاء کے نظریے کی صداقت پر صرف اس لئے متفق ہو گئے ہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انہیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا۔
ظاہر ہے کہ جو لوگ مادی طرز تعبیر کے حق میں اس قسم کے تعصبات رکھتے ہوں وہ انتہائی کھلے ہوئے واقعات سے بھی کوئی سبق نہیں لے سکتے تھے اور ہمیں اعتراف ہے کہ ایسے لوگوں کو مطمئن کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔
اس تعصب کی بھی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے بقول ایک امریکی عالم طبعیات :
”خدا پرستی کی معقولیت اور انکا ر خدا کا پھسپھا پن بجائے خود ایک آدمی کے لئے عملاً خدا پر ستی اختیار کرنے کا سبب نہیں بن سکتا لوگوں کے دل میں یہ شبہ چھپا ہوا ہے کہ خدا کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہو جائے گا وہ علماء جو ذہنی آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں آزدی کی محدودیت کا کوئی بھی تصور ان کے لئے وحشتناک ہے “۔
The Evidence Of God p.130
چنانچہ جو لین ہکسلے نے نبوت کے تصور کو نا قابل برداشت اظہار برتری قرار دیا ہے کیونکہ کسی کو نبی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کویہ حیثیت دی جائے کہ اس کی بات خدا کی بات ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ جو کچھ کہے تمام لوگ اس کو قبول کر لیں۔ لیکن جب انسان کی حیثیت یہی ہے کہ وہ خالق نہیں مخلوق ہے وہ خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہے تو اس صورت واقعہ کو کسی خود ساختہ تصور کی بنا پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم حقیقت کو بدل نہیں سکتے ہم صرف اس کا اعتراف کر سکتے ہیں۔ ۔اگر تو انسان بالکل کسی کی اظہار برتری کو خاطر میں نا لاتا ہو پھر تو اس معاملے میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ ہم صرف انکی برتری کو قبول کیوں کریں، جب قوانین کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے تو بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اور سچ ہے اسے مان لیں، نہ کہ چند حیلوں سے اس کا انکار کر دیں۔ حقیقت کا انکار کرکے آدمی صرف اپنا نقصان کرتا ہے وہ حقیقت کا کچھ نہیں بگاڑتا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ سائنس کا آخری حقیقت کے پتہ لگانے میں بے بسی کے واضح ہوجائے کے باوجود ، عملی طور پر منکرین خدا کے ذہن میں کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں ہوا.بلکہ اس کے برعکس انکارخدا کے وکیل نئے نئے ڈھنگ سے اپنے دلائل کو ترتیب دینے میں لگے ہوئے ہیں . تاریخ بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہےکہ حقیقت ظاہر ہوجانے کے باوجود انسان نے محض اس لئے اس کو قبول نہیں کیا کہ تعصب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا. یہی تعصب تھا جب انیسویں صدی کے آخر میں برلن کے پروفیسر ماکس پلانگ نے روشنی کے متعلق بعض ایسی تشریحات پیش کیں جو کائنات کے نیوٹنی تصور کو غلط ثابت کر رہی تھیں تو وقت کے ماہرین نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور عرصہ تک اس کا مذاق اڑاتے رہے.حالانکہ آج وہ کو انٹم تھیوری کی صورت میں علم طبیعات کے اہم اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے. اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ تعصب دوسرے لوگوں میں تو ہوسکتا ہے مگر سائنس دانوں میں نہیں ہوتا،تو اس میں ایک سائنس دان کا قول یاد دلاؤں گا ۔ڈاکٹر ہلز (A.V. Hills) لکھتے ہیں
I should be the last claim that we scienctific men, are less liableto prejudice than other educated men. Quoted by A.N Gilkes, Faith for modren man,p.109
یہ میں آخری شخص ہوں جو اس بات کا دعوی کرتا ہوں گا کہ ہم سائنس دان دوسرے تعلیم یافتہ لوگوں کے مقابلہ کم تعصب رکھنے والے ہوتے ہیں . اب ایک ایسی دنیا کی کار فرمائی ہو،یہ امید کیسی کی جاسکتی ہے کہ کوئی تصور محض اس لیے قبول کرلیا جائے کہ وہ علمی طور پر ثابت ہوگیا ہے .
تاریخ کا طویل تجربہ ہے کہ انسان کے رہنما اس کے جذبات رہے ہیں ، نہ کہ اس کی عقل . اگرچہ علمی اور منطقی طور پر عقل ہی کو بلند مقام حاصل ہے .مگر زیادہ تر ایسا ہوا ہے کہ عقل خود جذبات کی آلہ کار ررہی ہو. بہت کم ایسا ہوا کہ وہ جذبات کو اپنے قابو میں کر سکی ہو. عقل نے ہمیشہ جذبات کے حقائق میں دلائل تراشے ہیں . اور اسی طرح اپنے جذباتی رویہ کو عقلی رویہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ،خواہ حقیقت واقعہ انسان کا ساتھ نہ دے مگر جذبات سے لپٹا رہنا وہ اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے . ہم کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا معاملہ کسی مشین سے نہیں جو بٹن دبانے کے بعد لازما اس کے مطابق عمل ظاہر کرتی ہے ، بلکہ ہمارا مخاطب انسان ہے اور اس وقت کسی بات کو مانتا ہے جب وہ خود بھی ماننا چاہے. اگر وہ خود ماننا نہ چاہتا ہو تو کوئی دلیل محض دلیل ہونے کی حیثیت سے اسے قائل نہیں کرسکتی . دلیل کو برقی بٹن (electric switch ) کا قائم مقام نہیں بنایا جا سکتا . اور بلا شبہ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ٹریجڈی ہے.

ماخذ
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top