محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
قرۃ العین حیدر 20 جنوری 1926 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے زندگی کا ابتدائی حصہ پورٹ بلیئر (جزائر انڈیمان، نکوبار) اور مشرق میں گزارا۔ دہرادون کانونٹ اور ازابیلا تھوبرن کالج، لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ قرۃ العین حیدر کا گھرانہ روشن خیال اور اعلیٰٰ تعلیم یافتہ تھا۔ قرۃ العین حیدر نے چھ سال کی عمر میں پہلی کہانی تحریر کی۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اور والدہ نذر سجاد ظہیر، صاحب طرز ادیب اور اولین خاتون افسانہ نگار تھیں۔ قرۃ العین حیدر اردو ادب میں عینی آپا کے نام سے معروف ہیں۔ انھوں نے اس وقت ناول نگاری شروع کی جب اردو ادب شاعری کے زیر اثر تھا۔ ان کا خاندان نسلوں سے تعلیم یافتہ تھا۔ گھر میں علمی اور ادبی ماحول تھا۔ نیز ان کے گھرانے پر مغربی تہذیب و تمدن کے اثرات بھی نمایاں تھے۔ جس کے مثبت اثرات قرۃ العین حیدر نے بھی قبول کیے۔ ان کا گھرانہ ماڈرن بھی تھا اور پرانی اقدار کی پاسداری کرنے والا بھی، اس زمانے میں بھی اس گھرانے کی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ ان کی شخصیت پر اپنے گھرانے کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں، ناول، اور دیگر تحریریں اسی لکھنؤ، اپنے خاندان، گھریلو ماحول، فضا اور اپنی ذات کے گرد گھومتی ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان آ گیا لیکن بعد میں انہوں نے ہندوستان جا کر رہنے کا فیصلہ کیا۔ قرۃ العین حیدر نہ صرف ناول نگاری بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں’آگ کا دریا‘ ، ’آخرِ شب کے ہم سفر‘ ، ’ میرے بھی صنم خانے‘ ، ’چاندنی بیگم‘ اور ’کارِ جہاں دراز‘ شامل ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظرآتا ہے اور ان کے دو ناولوں ’آگ کا دریا‘ اور ’آخر شب کے ہم سفر‘ کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔ ’1989 ء میں انہیں ہندوستان کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں1985ء میں پدم شری اور 2005 ءمیں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ’ورجینا وولف‘ کہا جاتا ہے۔
قرۃ العین حیدر نے 1956 میں قیام پاکستان کے دوران اپنا مشہور ناول " آگ کا دریا " تحریر کیا،جسے غیر متوقع شہرت حاصل ہوئی۔ اس شہرت کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس میں تاریخ اور فلسفے کی ایک لا محدود دنیا آباد ہےلیکن یہ بات بڑی حد تک فراموش کر دی گئی کہ تاریخ اور فلسفے کسی ناول یا ادبی تخلیق کی عظمت کی دلیل نہیں ہوتے اور اگر تاریخ اور فلسفے ہی کسی ناول کی عظمت ٹھہرتے تو اردو میں ایسے اور بھی ناول موجود ہیں لیکن اُن کی عظمت کو آگ کا دریا کی عظمت کے برابر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ناول کی اشاعت کے بعد ان کو بے شمار اعتراضات، مخالفتوں اور طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا۔ " آگ کا دریا " پڑھتے ہی انسانی ذہن جگر مراد آبادی کے اس مشہور مصرعے کی طرف چلا جا تا ہے" اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے "۔
قرۃ العین حیدر نے " آگ کا دریا " پر کیے گئے اعتراضات کا جواب " کارجہاں دراز ہے " میں دیا ہے۔ انہیں پاکستان میں قیام اور ملازمت کے دوران لوگوں کے عجیب و غریب رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے انہیں ہندوستان نواز کہا کسی نے انہیں دیوی جی کا خطاب دیا۔ پاکستان میں ملازمت کے دوران بھی ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جن سے دل برداشتہ ہوکر قرۃ العین حیدر واپس ہندوستان چلی گئیں۔ قرۃ العین حیدر کی ذہنی سطح بلند تھی۔ وہ آگے تک سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ شمیم حنفی کا قرۃ العین حیدر کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان کی پرانی کہانیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا احساس ہوتاہے کہ ہمارے آج کے لکھنے والے آج جہا ں پہنچے ہیں وہ ان منزلوں تک اپنے ابتدائی زمانے میں پہنچ چکی تھیں۔
Remedios Moscote کا کردار”تنہائی کے ایک سو سال “میں امتیازی حیثیت تو رکھتا ہے لیکن اس کردار میں تقلیب کی وہ تحریکی خوبی نہیں ملتی جو “آگ کا دریا” کے گوتم نیلمبر، ہری شنکر، ابو المنصور کمال الدین اور چمپا کے کرداروں میں نمایاں ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ یہ تمام کردار وقت کی جبریت سے مسخ ہو کر بھی اپنی بنیادی شناخت مجتمع کیے رہتے ہیں۔ مارکیز کی دستاویزیت ایک خاندان پر مشتمل ہے جب کہ قرۃ العین کی تاریخی دستاویزیت قدیم ہندوستان سے لے کر معاصر ہندوستان میں انسانی رشتوں کی بازیافت سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وہ سطح ہے جہاں آگ کا دریا تنہائی کے ایک سو سال سے بلندہوجاتاہے۔‘‘
روزنامہ جنگ
آخری تدوین: