کاشفی
محفلین
غزل
(جگر مراد آبادی)
ایک رنگیں نقاب نے مارا
حُسن بن کر حجاب نے مارا
جلوہء آفتاب کیا کہیئے
سایہء آفتاب نے مارا
اپنے سینے ہی پر پڑا اکثر
تیر جو اضطراب نے مارا
نگہء شوق و دعویٰء دیدار
اس حجاب الحجاب نے مارا
ہم نہ مرتے ترے تغافل سے
پرسش بے حساب نے مارا
لذت دید بے جمال نہ پوچھ
درد بے اضطراب نے مارا
چھپتے ہیں اور چھپا نہیں جاتا
اس ادائے حجاب نے مارا
حشر تک ہم نہ مرنے والوں کو
مرگِ ناکامیاب نے مارا
پاتے ہی اک اشارہء نازک
دم نہ پھر اضطراب نے مارا
دل کہ تھا جانِ زیست آہ جگر
اسی خانہ خراب نے مارا
(جگر مراد آبادی)
ایک رنگیں نقاب نے مارا
حُسن بن کر حجاب نے مارا
جلوہء آفتاب کیا کہیئے
سایہء آفتاب نے مارا
اپنے سینے ہی پر پڑا اکثر
تیر جو اضطراب نے مارا
نگہء شوق و دعویٰء دیدار
اس حجاب الحجاب نے مارا
ہم نہ مرتے ترے تغافل سے
پرسش بے حساب نے مارا
لذت دید بے جمال نہ پوچھ
درد بے اضطراب نے مارا
چھپتے ہیں اور چھپا نہیں جاتا
اس ادائے حجاب نے مارا
حشر تک ہم نہ مرنے والوں کو
مرگِ ناکامیاب نے مارا
پاتے ہی اک اشارہء نازک
دم نہ پھر اضطراب نے مارا
دل کہ تھا جانِ زیست آہ جگر
اسی خانہ خراب نے مارا