فر حان
محفلین
مسئلہ نمبر۴۶۱: دریک رکعت یک سورت یا یک رکعت یک آیت چند بار خواندن
(ایک رکعت میں کسی سورت یاآیت کا تکرار کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے؟ ۔ت)
الجواب
چوں تکرار یک سورت در دو ۲رکعت و دو۲ سورت در یک رکعت ہر دو در فرائض نا بائستہ بودتکرار یک سورت در یک رکعت اولی نبابائستگی باشد و ہمچناں تکرار آیت خلاصہ موجب اطالت ثانیہ براولی باشد وکل ذلک خلاف الماثور المتوارث فی الفرائض فاما کرا ہت تحریم راوجہے نیست جزدرفاتحہ کہ دررکعتین اولین پیش ازقرأت سورۃ اعادہ کل یا اکثر اوکند اقول لتفویت واجب الضم پس اگر عامداست اعادہ کند و اگر ساہی است سجدہ سہو بخلاف تکرار فاتحہ دراخریین اقول لعدم الضم فیہما یا بعد سورت در اولیین اقول لحصول الضم من قبل ولایجب الرکوع اثر السورۃ بل کلماتلامن القراٰن کان لہ ان یتلوہ اقول وازصورت تثقیل بر مقتدی غافل نباید بو د کہ ہمچو سور زائد بر قدر مسنون است پس اگر گرانی آرد مطلقاً ناجا ئز و مکروہ تحریمی باشد و ایں حکم عام است مر فریضہ ونافلہ ہمہ راپس ہرجا از صورت جواز مستثنٰی بایدش فہمید ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب فرائض کی دو رکعتوں میں ایک سورت کا تکرار یا ایک رکعت میں دوسورتوں کا مناسب نہیں تو ایک رکعت میں ایک سورت کا تکرار بطریق اولٰی مناسب نہ ہوگا، اسی طرح کسی مخصوص آیت کا تکرار دوسری رکعت کے پہلی رکعت کے طویل ہونے کی وجہ بن سکتا ہے ،اور یہ تمام باتیں فرائض کے بارے میں منقول ماثور کے خلاف ہیں لیکن اس کو مکروہ تحریمی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ماسوائے پہلی ۲دو رکعات میں قرأتِ سورت سے پہلے کل سورہ فاتحہ یا اکثر کا اعادہ کرنا کیونکہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔ میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ سورت ملانا واجب تھا ،اعادہ کی صورت میں وُہ فوت ہوجاتاہے، پس اگر کسی شخص نے عمداً ایسا کیا تو اعادہ نماز کرے اور اگر سہواً کیا تو سجدہ سہو ہوگا بخلاف آخری دو رکعت میں سورہ فاتحہ کے تکرار کے ۔ میں کہتا ہوں کیونکہ ان میں ضمِ سورت واجب نہیں یا ضمِ سورت کے بعد پہلی دو رکعات میں،کیونکہ ضمِ سورت (واجب) پہلے حاصل ہو چکا اور سورت کے بعد رکوع فوراً واجب نہیں ہوتا بلکہ جب تک نمازی تلاوت کرنا چاہے کرسکتا ہے ۔میں کہتا ہوں مقتدی پر بوجھ ہونے کی صورت سے غافل نہیں ہوجانا چاہئے کیونکہ مثلاً قدر مسنون قرأت سے زائد پر اگر نمازی بوجھ محسوس کرتا ہے تو ایسی صورت مطلقاً ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے اور یہ حکم ہر مقام پر ہوگاخواہ نمازفرض ہو یا نفل ،البتہ ہرجا صورت جوازکو مستثنٰی سمجھ لینا چاہئے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
فتاوی رضویہ جلدنمبر6 (کتاب الصوۃ) بحوالہ صفحہ 268/272
(ایک رکعت میں کسی سورت یاآیت کا تکرار کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے؟ ۔ت)
الجواب
چوں تکرار یک سورت در دو ۲رکعت و دو۲ سورت در یک رکعت ہر دو در فرائض نا بائستہ بودتکرار یک سورت در یک رکعت اولی نبابائستگی باشد و ہمچناں تکرار آیت خلاصہ موجب اطالت ثانیہ براولی باشد وکل ذلک خلاف الماثور المتوارث فی الفرائض فاما کرا ہت تحریم راوجہے نیست جزدرفاتحہ کہ دررکعتین اولین پیش ازقرأت سورۃ اعادہ کل یا اکثر اوکند اقول لتفویت واجب الضم پس اگر عامداست اعادہ کند و اگر ساہی است سجدہ سہو بخلاف تکرار فاتحہ دراخریین اقول لعدم الضم فیہما یا بعد سورت در اولیین اقول لحصول الضم من قبل ولایجب الرکوع اثر السورۃ بل کلماتلامن القراٰن کان لہ ان یتلوہ اقول وازصورت تثقیل بر مقتدی غافل نباید بو د کہ ہمچو سور زائد بر قدر مسنون است پس اگر گرانی آرد مطلقاً ناجا ئز و مکروہ تحریمی باشد و ایں حکم عام است مر فریضہ ونافلہ ہمہ راپس ہرجا از صورت جواز مستثنٰی بایدش فہمید ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب فرائض کی دو رکعتوں میں ایک سورت کا تکرار یا ایک رکعت میں دوسورتوں کا مناسب نہیں تو ایک رکعت میں ایک سورت کا تکرار بطریق اولٰی مناسب نہ ہوگا، اسی طرح کسی مخصوص آیت کا تکرار دوسری رکعت کے پہلی رکعت کے طویل ہونے کی وجہ بن سکتا ہے ،اور یہ تمام باتیں فرائض کے بارے میں منقول ماثور کے خلاف ہیں لیکن اس کو مکروہ تحریمی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ماسوائے پہلی ۲دو رکعات میں قرأتِ سورت سے پہلے کل سورہ فاتحہ یا اکثر کا اعادہ کرنا کیونکہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔ میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ سورت ملانا واجب تھا ،اعادہ کی صورت میں وُہ فوت ہوجاتاہے، پس اگر کسی شخص نے عمداً ایسا کیا تو اعادہ نماز کرے اور اگر سہواً کیا تو سجدہ سہو ہوگا بخلاف آخری دو رکعت میں سورہ فاتحہ کے تکرار کے ۔ میں کہتا ہوں کیونکہ ان میں ضمِ سورت واجب نہیں یا ضمِ سورت کے بعد پہلی دو رکعات میں،کیونکہ ضمِ سورت (واجب) پہلے حاصل ہو چکا اور سورت کے بعد رکوع فوراً واجب نہیں ہوتا بلکہ جب تک نمازی تلاوت کرنا چاہے کرسکتا ہے ۔میں کہتا ہوں مقتدی پر بوجھ ہونے کی صورت سے غافل نہیں ہوجانا چاہئے کیونکہ مثلاً قدر مسنون قرأت سے زائد پر اگر نمازی بوجھ محسوس کرتا ہے تو ایسی صورت مطلقاً ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے اور یہ حکم ہر مقام پر ہوگاخواہ نمازفرض ہو یا نفل ،البتہ ہرجا صورت جوازکو مستثنٰی سمجھ لینا چاہئے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
فتاوی رضویہ جلدنمبر6 (کتاب الصوۃ) بحوالہ صفحہ 268/272