تلمیذ
اور ایک بات
ہمارے ایک دوست ہیں امین بھایانی۔ انہوں نے راقم کے درج ذیل بیان پر اپنا موقف بیان کیا ہے:
"راقم کی نظر میں برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کا مستقبل تمام تر ناموافق حالات کے باووجود پائدار ہے۔ خاص کر ہندوستان میں جب تک "اردو" زبان میں فلم بنتی رہے گی، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔ یقین کیجیے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے اداکار بچے ہندوستان میں بنی "چلر پارٹی‘" جیسی فلموں میں بے عیب، ش قاف کا خیال رکھتے ہوئے اردو بولتے رہیں گے، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔"
امین کہتے ہیں:
"خاص کر ہندوستان میں جب تک "اردو" زبان میں فلم بنتی رہے گی، اردو آگے بڑھتی رہے گی"
اس جملے سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ اگر جو ہندوستانی فلمیں نا بنیں تو پھر اُردو آگے نہ بڑھ سکے گی۔
میں نے اُوپر بھی کہیں زکر کیا ہے کہ ایک عام کچے زہن کے لوگ اور بطورِ خاص مطالعہ سے کوسوں دور لوگ اس جملے سے جو معنیٰ اخذ کریں گے وہ درست نہیں ہوگا کیونکہ عمومی طور پر جو فلمیں دیکھیں جاتیں ہیں ان کی "اردو" اگر وہ اردو ہے تو اُس سے انہیں کیسا فیض حاصل ہوسکتا ہے اُس کا اندازہ تو آپ کو بھی ہوگا۔ میں یہاں سید مکرم نیاز صاحب کی بات سے اتفاق کروں گا کہ:
"ہندوستانی فلموں سے مجموعی طور پر کوئی بیس پچیس فیصد اردو کا بھلا ہوتا ہوگا ۔۔۔ مکمل نہیں۔"
مکرم صاحب کا تبصرہ یہ تھا:
ہمارا خیال ہے کہ راشد بھائی نے کسی دھن میں یا کسی بےاختیار جذبے کے زیراثر چند ایسی بالی ووڈ فلموں کی تعریف کر دی ہوگی جس میں خالص اردو زبان کا استعمال ہوا ہو۔ ورنہ درست تو یہی ہے کہ بالی ووڈ کی فلموں سے مجموعی طور پر کوئی بیس پچیس فیصد اردو کا بھلا ہوتا ہوگا ۔۔۔ مکمل نہیں۔
ویسے امین بھائی ، آپ نے جو ممبیا لہجے کے حوالے دئے ہیں اس کا تعلق فلم کے کسی خاص منظر یا آئٹم سانگ سے ہے ۔۔۔ کسی سنجیدہ فلم کو مجموعی طور پر اسی ممبیا ٹائپ لہجے کا مکمل شکار قرار دیا جانا زیادتی ہوگی۔ مکمل ممبیا چھاپ لہجے کی فلمیں تو سارے ہندوستان میں بھی چل نہیں سکتیں۔ آپ خود سوچیں کہ اگر عامر خان ایک ہی جیسا لب و لہجہ "غلام" ، "تارے زمین پر" اور "تھری ایڈیٹس" میں اپناتا تو کیا وہ فلم کے ماحول کو سوٹ کرتا؟"