ایک سوال

یاران محفل: روز ِ ازل سے ایک سوال انسان کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ خدا جانے کتنے دماغ اس کو سوچ چکے،کتنے قدم اس راستے کو پامال کر چکے اور کتنے صفحے اس منزل میں سیاہ کئے جا چکے ۔ میں کون ہوں؟ کیاہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کیوں آیا ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں؟ کوئی نظریہ ، کوئی فلسفہ، کوئی کھوج اس معمہ کو نہیں سلجھا سکی۔ اس کبھی نہ ختم ہونے والی تلاش کاانجام اب تک نا معلوم ہے اور بظاہر نا معلوم ہی رہے گا۔ اس سوال نے ہمیں بے شمار فنون کے بے شمارشاہکار بہم پہنچائے اور زندگی کا کوئی گوشہ اپنی بو قلمونیوں سے خالی نہیں رہنے دیا لیکن :نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ؛ نکلا۔یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انسان یہ مسئلہ حل نہ کر سکا لیکن سوچنے سے اسے کوئی روک نہیں سکا۔ سوال کی کنہہ سمجھ لینا اس کا مقدر نہیں لیکن سوچنا اس کا مقدر ضرور ہے۔ اپنی کم مائیگی ، خام خیالی ، بے نام احساسات و خیالات اور بیسود پرواز فکر کے با وجود یہ سوال میرے ذہن میں بھی آکر میری کوتاہ آستینی دنیا پر آشکار کرتا رہا ہے۔ اس تلاش کا خمیازہ ایک نظم کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اس میں کوئی نئی بات، نیانظریہ، یا نیافلسفہ نہیں ہے۔ ایک کبھی نہ مٹنے والی خلش ضرور ہے ۔ نظم آپ سے اس خلش کی داد خواہ بھی نہیں ہے۔ داد لے کر وہ کون سا تیر مار لے گی؟ وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ پل بھر آپ اس کے پاس بیٹھیں، کچھ اس کی سنیں اور کچھ اپنی سنائیں۔ اس زحمت سے کیا حاصل ہوگا؟ یہ نہیں معلوم، ہاں شاید دل کی بھڑاس میں کچھ کمی ہو جائے۔ واللہ اعلم!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال
مری حبیب، مری ہم نشیں، مری ہمراز ::::: مری غزل کی اَدا، میرے شعر کی آواز
مرا قرار، مرا کرب، میرا سوز و ساز ::::: مری تلاش کا انجام، دَرد کا آغاز
تو آئی ہے تو دل نا صبور بھر آیا ::::: سفر تمام ہوا آس کا نگر آیا
نہ جانے کتنی ہی چوٹوں کادرد ابُھر آیا :::::میں جیسے صبح کا بھولا تھا ، شام گھر آیا
میں دیکھتا ہوں تجھے تو خیا ل آتا ہے :::::دلِ شکستہ میں رہ رہ سوال آتا ہے
میں کیا ہوں کون ہوں اور میں کہاں سے آیا ہوں :::: یقین ہوں کہ گماں ہوں کہ ایک سایہ ہوں؟
کبھی میں سب سے ہوں پوشیدہ اور کبھی ظاہر :::: مجھے تلاش ہے اپنی، میں کون ہوں آٰخر ؟
کسی کا سجدہ ء الفت، کسی کا دست ِدُعا ::::: کسی غریب کی کُٹیا کا ٹمٹما تا دیِا
کسی کی حسرت گم گشتہ اورکسی کی اُمید ::::: کسی کی چشم فسوں گر،کسی کا شوق ِدید
کسی نصیب کا پتھر ، کوئی دل ِ مجبور ::::: کسی کی آنکھ کا تارا،کسی کے دل کا سرور
کسی کا غصہ ،کسی کی وفا، کسی کا پیار :::: کسی کی آنکھ کا آنسو،کسی کے پیارکی مار
وہ راگ جس کو میسر نہ آسکا اک ساز :::: وہ چیخ جس کو ملی ہی نہیں کبھی آواز
وہ دل جو ہر نئی اُمید پا کے ٹوٹ گیا :::: نصیب وہ جو بدلنے سے پہلے پھوٹ گیا
وہ ساتھ جو سر ِمنزل کبھی کا چھوٹ گیا ::: وہ ایک دَرد جو سارا وجود لوٹ گیا
ہری وہ ہاتھ کی چوڑی، وہ مانگ کا سیندور ::: وہ خواب خواب بدن رات کے نشے میں چُور
وہ رنگ چمپئی جو روح کوجلاتا ہے :::: وہ ہاتھ چھو کے جنھیں دل کو چین آتا ہے
وہ آنکھ جس میں زمانے کا دَرد ہو گویا :::: وہ پیار سے بھرے سینے میں دِل دھڑکتا ہوا
کلی سے ہونٹ وہ نازک، وہ گرمی ء رُخسار :::: وجود سارا ہو جیسے شراب سےسرشار
و ہ خون خون گلِ تر، ہوا وہ مہکی ہوئی ::::: حسین پھول پہ بیٹھی ہوئی حسیں تتلی
خدا کےواسطے مجھ کو بتا کہ میں کیا ہوں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! کیا خوب نظم ہے ، سرور بھائی !
بہت اچھا خیال ہے ۔ مجموعی طور پر نظم کی بنت اچھی ہے۔ اگرچہ چند مقامات پر زبان و بیان کمزور ہیں ۔ مثلاً : دل میں رہ رہ کر سوال آتا ہے کہ بجائے وزن کی مجبوری سے رہ رہ سوال آتا ہے کہنا پڑا ۔ محاورے کو اس توڑنا تو ٹھیک نہیں ہے لیکن چلے گا ۔ سرور بھائی ، ایک اور بات یہ کہ ایک تشبیہ اور تمثیل سے دوسری تک چھلانگ لگاتے ہوئے بعض اوقات خیال کی روانی ٹوٹتی ہوتی محسوس ہوئی۔
جیسا کہ نظم کے پہلے چند مصرعوں سے ظاہر ہے یہ سارا خطاب شاعر اپنے محبوب سے کررہا ہے ۔ لیکن آخری مصرع میں جو سوال ہے وہ یوں محسوس ہوتا کے کہ تتلی سے کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ تتلی والے مصرع کے بعد ایک دو مصرعوں میں خطاب واپس محبوب کی طرف موڑ دیا جاتا۔ تاکہ آخری مصرع کا سوال مربوط ہوجاتا ۔ ایک قاری کی حیثیت سے یہ میری ناقص رائے ہے ۔
 

ارشد رشید

محفلین
ظہیر صاحب آپ نے بہت اچھی تنقید کی ہے میں ان سے اپنے آپ کو متفق پاتا ہوں
البتہ ایک اور بات جو مجھ کو سمجھ نہ آسکی وہ یہ ہے کہ اگر شاعر اس کائنات کے اسرار و رموز پہ غور کر رہا ہے خود اپنے بارے میں سوچ رہا ہے تو وہ یہ باتیں محبوب سے کیوں کر رہا ہے؟محبوب سے ایسے سوالات کب کیے جاتے ہیں ؟ یہ تو شاعر کی خود کی اپنے آپ سے گفتگو ہے اس میں محبوب فٹ نہیں ہوتا -
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر صاحب آپ نے بہت اچھی تنقید کی ہے میں ان سے اپنے آپ کو متفق پاتا ہوں
البتہ ایک اور بات جو مجھ کو سمجھ نہ آسکی وہ یہ ہے کہ اگر شاعر اس کائنات کے اسرار و رموز پہ غور کر رہا ہے خود اپنے بارے میں سوچ رہا ہے تو وہ یہ باتیں محبوب سے کیوں کر رہا ہے؟محبوب سے ایسے سوالات کب کیے جاتے ہیں ؟ یہ تو شاعر کی خود کی اپنے آپ سے گفتگو ہے اس میں محبوب فٹ نہیں ہوتا -
جناب ارشد رشید قادری صاحب ، اگر آپ اجازت دیں تو میں منتظمین کو ٹیگ کرکے آپ کا نام اردو میں لکھوادوں؟!
ایک تو یہ کہ اردو محفل پر نام بھی اردو ہی میں ہونا چاہیے ، دوسرے اردو کی قدر دانی بھی اسی میں ہے کہ ہم اسے ہر جگہ برتیں ، تیسرے یہ کہ انگریزی نام کو ٹیگ کرنے میں بہت مشکل ہوتی ہے ۔ اگر میری بات ناگوار گزری ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ فراخ دلی سے کام لیں گے ۔
 
جیسا کہ نظم کے پہلے چند مصرعوں سے ظاہر ہے یہ سارا خطاب شاعر اپنے محبوب سے کررہا ہے ۔
میرا سوال یہ ہے یہ سوالات محبوب سے کرنے کی معنویت کیا ہے؟ یہ جملہ معترضہ نہیں، بلکہ "جینون" سوال ہے کیونکہ مجھے یہ لگا کہ جہاں سے نظم کا مرکزی حصہ شروع ہوتا ہے، اگر وہاں سے بھی پڑھنا شروع کیا جائے تو مرکزی خیال کا ابلاغ ہو جاتا ہے. قبلہ استاد مکرم سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے کچھ ارشاد فرمائیں.
 

La Alma

لائبریرین
نظم سے گمان یہی ہوتا ہے کہ شاعر اپنی ہستی سے ہی ہم کلام ہے۔ اسکی محبوب اسکی اپنی زندگی ہی ہے۔
 
بہت خوب! کیا خوب نظم ہے ، سرور بھائی !
بہت اچھا خیال ہے ۔ مجموعی طور پر نظم کی بنت اچھی ہے۔ اگرچہ چند مقامات پر زبان و بیان کمزور ہیں ۔ مثلاً : دل میں رہ رہ کر سوال آتا ہے کہ بجائے وزن کی مجبوری سے رہ رہ سوال آتا ہے کہنا پڑا ۔ محاورے کو اس توڑنا تو ٹھیک نہیں ہے لیکن چلے گا ۔ سرور بھائی ، ایک اور بات یہ کہ ایک تشبیہ اور تمثیل سے دوسری تک چھلانگ لگاتے ہوئے بعض اوقات خیال کی روانی ٹوٹتی ہوتی محسوس ہوئی۔
جیسا کہ نظم کے پہلے چند مصرعوں سے ظاہر ہے یہ سارا خطاب شاعر اپنے محبوب سے کررہا ہے ۔ لیکن آخری مصرع میں جو سوال ہے وہ یوں محسوس ہوتا کے کہ تتلی سے کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ تتلی والے مصرع کے بعد ایک دو مصرعوں میں خطاب واپس محبوب کی طرف موڑ دیا جاتا۔ تاکہ آخری مصرع کا سوال مربوط ہوجاتا ۔ ایک قاری کی حیثیت سے یہ میری ناقص رائے ہے ۔:
عزیز مکرم: جواب اور تنقید کا شکریہ۔ یہ نظم تیس چالیس سال قبل کہی تھی اور ایک جذباتی کیفیت میں کہی تھی۔ اس ضمن میں ایک واقعہ سن لیں۔ ایسی ہی ایک نظم لڑکپن میں کہی تھی۔ والد مرحوم کو اصلاح کی غرض سے دی تو اسے دیکھ کر موصوف نے فرمایا :اس میں اصلاح کی گنجائش ہے لیکن اصلاح سے اس کا آہنگ ، روانی اور مضمون مجروح ہوسکتے ہیں۔ اسے یوں ہی رہنے دیجئے۔: جذباتی تخلیقات میں ایسا ہوتا ہے۔ مودبانہ عرض ہے کہ آپ کے سوالات اور اعتراضات بہت معمولی ہیں اور ان کو نظر انداز کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔مثلا آپ آج کل :ضرورت شعری: پرتحقیق کررہے ہیں۔ :رہ رہ کر : کو:رہ رہ : باندھنا ایسا قیامت خیز نہیں ہے کہ اتنی سی بات پرنظم کو مجروح کیا جائے۔ اس :بدعت صغیرہ: کو :ضرورت شعری: کے زمرہ میں رکھ لیجئے اور ممکن ہو تو نظم کو :صفائی کے نمبر: دے دیجئے۱ آپ کے دیگر نکات :بھرتی: کے معلوم ہو رہے ہیں۔ میں آپ کے علم و فضل کا قائل ہوں لیکن گاہے گاہے جذبات کی دنیا میں اترکر سوچنے میں ہرج نہیں ہے۔ نظم لکھنے کے بعد یاد نہیں کہ میں نے اس پر کبھی نظرثانی کی ہو۔ میرا خطاب کس سے ہے اس کا فیصلہ میں قاری پر چھوڑتا ہوں، بہرکیف محبوبہ سے نہیں ہے۔ وہ بھلا میری یہ گتھیاں کیسے سلجھاسکتی ہے؟آپ کی توجہ اور عنایات کا ممنون و متشکرہوں۔
 
ظہیر صاحب آپ نے بہت اچھی تنقید کی ہے میں ان سے اپنے آپ کو متفق پاتا ہوں
البتہ ایک اور بات جو مجھ کو سمجھ نہ آسکی وہ یہ ہے کہ اگر شاعر اس کائنات کے اسرار و رموز پہ غور کر رہا ہے خود اپنے بارے میں سوچ رہا ہے تو وہ یہ باتیں محبوب سے کیوں کر رہا ہے؟محبوب سے ایسے سوالات کب کیے جاتے ہیں ؟ یہ تو شاعر کی خود کی اپنے آپ سے گفتگو ہے اس میں محبوب فٹ نہیں ہوتا -
قبلہ قادری صاحب: نظم پر خیال آرائی کا دلی شکریہ۔ آپ ظہیر صاحب کی تنقید سے متفق ہیں چنانچہ ان کے نام میری تحریر میں آپ کو اپنی الجھنوں کا جواب مل جانا چاہئے۔ معلوم نہیں آپ شعر کہتے ہیں کہ نہیں۔میں یہاں نوواردہوں اور بیشتراحباب سے نا واقف ہوں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ نظم کے طرز فکر، آہنگ، روانی اور جذبات پر زیادہ غور کرتے تو لطف بھی زیادہ آتا اور شاید کچھ جواب بھی مل جاتے۔ امید ہے اسی طرح نظر عنایت میری معروضات پر مرتکز رکھیں گے۔
 

La Alma

لائبریرین
نظم میں فلسفۂ وحدت الوجود کی جھلک بھی نمایاں نظر آئی۔ لیکن اس بار اسکا محور حقیقی کی بجائے مجازی تھا۔
 
میرا سوال یہ ہے یہ سوالات محبوب سے کرنے کی معنویت کیا ہے؟ یہ جملہ معترضہ نہیں، بلکہ "جینون" سوال ہے کیونکہ مجھے یہ لگا کہ جہاں سے نظم کا مرکزی حصہ شروع ہوتا ہے، اگر وہاں سے بھی پڑھنا شروع کیا جائے تو مرکزی خیال کا ابلاغ ہو جاتا ہے. قبلہ استاد مکرم سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے کچھ ارشاد فرمائیں.
مکرم بندہ راحل صاحب: اتنے تکلف کی کیا ضرورت ہے بھائی؟ سوال تو ہر ایک سے ہر وقت پوچھا جا سکتا ہے۔ جو سوال آپ نے کیا ہے اس کا جواب آپ نے ہی فراہم کر دیا ہے یعنی یہاں خطاب :محبوبہ : سے نہیں ہے کیونکہ وہ بھلا میرا یہ مسئلہ کیسے سلجھا سکتی ہے؟ اس کو تو اپنی ذلفیں ہی سنوارنے سے فرصت نہیں ۱ غالب نے جبھی تو کہا تھا کہ :
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
آپ نے نظم پر کوئی رائے زنی نہیں کی۔ گستاخی معاف کیجئے گا۔اُردو میں تنقید کا عجیب طریقہ عام ہے کہ منطق، دلیل، تجزیہ وغیرہ سے صرف نظر کر کے مبصر صرف اعتراض کے موقعے ڈھونڈتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو نظم میں کوئی قابل ذکر بات نظرنہیں آئی۔ سو اسے کہہ دینے میں کیا ہرج ہے؟ مطلب میرا یہ ہے کہ اگر نظم پر ایک نظرپھر ڈال لیں تو مہربانی ہوگی۔ یہ کوشش اس کی مستحق تو ضرور ہے۔ یا نہیں؟
 
نظم میں فلسفۂ وحدت الوجود کی جھلک بھی نمایاں نظر آئی۔ لیکن اس بار اسکا محور حقیقی کی بجائے مجازی تھا۔
مکرمی: چونکہ میں آپ کے اسم گرامی کے رموز تک نہ پہنچ سکا اس لئے مناسب القاب و آداب کے استعمال سے محروم رہا۔معذرت خواہ ہوں۔ دیکھئے شاعری بھی کیا چیز ہے کہ جس طرف شاعر کا خیال بھی نہیں گیا آپ نے اس نکتہ کی وضاحت فرمادی۔ فلسفہء وحدت الوجود کا نام سنا ہے اور بس۔ اس سے زیادہ واقفیت کا گنہ گار نہیں ہوں۔ آپ کو اس ضمن میں جو جھلک نظرآئی اس کو اپنے حسن ظن پر محمول کر لیں تو مناسب رہے گا۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۱ ایک گزارش اور ہے کہ اگر آپ نظم پر مزید اظہار خیال فرمادیتے تو بندہ نوازی ہوتی۔ کیا میں آپ سے یہ امید رکھ سکتا ہوں؟
 
مکرم بندہ راحل صاحب: اتنے تکلف کی کیا ضرورت ہے بھائی؟ سوال تو ہر ایک سے ہر وقت پوچھا جا سکتا ہے۔ جو سوال آپ نے کیا ہے اس کا جواب آپ نے ہی فراہم کر دیا ہے یعنی یہاں خطاب :محبوبہ : سے نہیں ہے کیونکہ وہ بھلا میرا یہ مسئلہ کیسے سلجھا سکتی ہے؟ اس کو تو اپنی ذلفیں ہی سنوارنے سے فرصت نہیں ۱ غالب نے جبھی تو کہا تھا کہ :
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
آپ نے نظم پر کوئی رائے زنی نہیں کی۔ گستاخی معاف کیجئے گا۔اُردو میں تنقید کا عجیب طریقہ عام ہے کہ منطق، دلیل، تجزیہ وغیرہ سے صرف نظر کر کے مبصر صرف اعتراض کے موقعے ڈھونڈتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو نظم میں کوئی قابل ذکر بات نظرنہیں آئی۔ سو اسے کہہ دینے میں کیا ہرج ہے؟ مطلب میرا یہ ہے کہ اگر نظم پر ایک نظرپھر ڈال لیں تو مہربانی ہوگی۔ یہ کوشش اس کی مستحق تو ضرور ہے۔ یا نہیں؟
استاد محترم، ایسا نہیں کہ مجھے نظم پسند نہیں آئی، اصل میں داد کا اظہار یہاں ریٹنگز کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے ، بلکہ میں نے تو سب سے پہلے پسندیدگی کااظہار کیا تھا :)
تاہم آپ کا شکوہ بجا ہے، اور میں اپنی تساہل پسندی کے لیے معذرت خواہ ہوں.
نظم کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں، اور روانی بھی غضب کی ہے . مجھے بس وہ دولختی محسوس ہوئی، جس کی طرف میں نے پچھلے مراسلے میں اشارہ کیا، اور یہ بھی برائے اعتراض نہیں ... کیونکہ مجھے لگا کہ اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوگا جس تک میری رسائی نہ ہو سکی.
 

ارشد رشید

محفلین
قبلہ قادری صاحب: نظم پر خیال آرائی کا دلی شکریہ۔ آپ ظہیر صاحب کی تنقید سے متفق ہیں چنانچہ ان کے نام میری تحریر میں آپ کو اپنی الجھنوں کا جواب مل جانا چاہئے۔ معلوم نہیں آپ شعر کہتے ہیں کہ نہیں۔میں یہاں نوواردہوں اور بیشتراحباب سے نا واقف ہوں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ نظم کے طرز فکر، آہنگ، روانی اور جذبات پر زیادہ غور کرتے تو لطف بھی زیادہ آتا اور شاید کچھ جواب بھی مل جاتے۔ امید ہے اسی طرح نظر عنایت میری معروضات پر مرتکز رکھیں گے۔
جناب سرور صاحب - مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ اس نظم پر ایک مکمل نقد و نظر چاہ رہے ہیں تو میں اس پر تفصیل سے اپنی رائے لکھتا ہوں - ظاہر ہے کہ آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں -
میں آپ کو بالکل نہیں جانتا اس لیئے سب سے پہلے اس نظم کو پڑھ کے جو ایک اجمالی تاثر قائم ہوتا ہے اس کا ذکر کروں گا -
نظم پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر ایک پڑھا لکھا شخص ہے اور سرد و گرمِ زمانہ چشیدہ ہے - شاعر کا مطالعہ بھی وسیع ہے اور خیال بھی موجود ہے - گو کہ خیال نیا نہیں ہے مگر نظم میں بہاؤ بھی ہے روانی بھی - مگر میرے حساب سے اس بہاؤ میں شاعر خود بھی بہہ گیا ہے -

شروع میں شاعر اپنے محبوب سے اسکے آنے پہ مخاطب ہے -
مری حبیب، مری ہم نشیں، مری ہمراز
مری غزل کی اَدا، میرے شعر کی آواز
مرا قرار، مرا کرب، میرا سوز و ساز
مری تلاش کا انجام، دَرد کا آغاز
----
اس کے بعد شاعر کچھ کنفیوز ہو گیا -
تو آئی ہے تو دل ناصبور بھر آیا
سفر تمام ہوا آس کا نگر آیا
نہ جانے کتنی ہی چوٹوں کا درد ابُھر آیا
میں جیسے صبح کا بھولا تھا ، شام گھر آیا

جب دلِ ناصبور بھر آیا (تو وہ تو پہلے ہی سے بھرا تھا تبھی تو ناصبور تھا) پھر شاعر کیسے کہہ سکتا ہے کہ آس کا نگر آیا ؟ - جب شاعر کو یوں لگے کہ جیسے صبح کا بھولا شام کر گھر آیا ہے تو پھر کتنی چوٹوں کا درد ابھرنا چہ معنی داردَ؟ مرے نزدیک یہ محض زورِ بیانی کی ایک کوشش ہے

== یہاں سے آگے اصل نظم کا آغاز ہوتا ہے

میں دیکھتا ہوں تجھے تو خیا ل آتا ہے
دلِ شکستہ میں رہ رہ سوال آتا ہے
میں کیا ہوں کون ہوں اور میں کہاں سے آیا ہوں
یقین ہوں کہ گماں ہوں کہ ایک سایہ ہوں؟
کبھی میں سب سے ہوں پوشیدہ اور کبھی ظاہر
مجھے تلاش ہے اپنی، میں کون ہوں آٰخر ؟
کسی کا سجدہ ء الفت، کسی کا دست ِدُعا
کسی غریب کی کُٹیا کا ٹمٹما تا دیِا
کسی کی حسرت گم گشتہ اور کسی کی اُمید
کسی کی چشم فسوں گر،کسی کا شوقِ دید
کسی نصیب کا پتھر ، کوئی دل ِ مجبور
کسی کی آنکھ کا تارا،کسی کے دل کا سرور
کسی کا غصہ ،کسی کی وفا، کسی کا پیار
کسی کی آنکھ کا آنسو،کسی کے پیار کی مار
وہ راگ جس کو میسر نہ آسکا اک ساز
وہ چیخ جس کو ملی ہی نہیں کبھی آواز
وہ دل جو ہر نئی اُمید پا کے ٹوٹ گیا
نصیب وہ جو بدلنے سے پہلے پھوٹ گیا

- یہاں تک شاعر "میں" کو محذوف کر کے صرف یہ بیان کر رہا ہے کہ وہ کیا ہے -
============
اس سے آگے "میں" محذوف نہٰیں کیا جاسکتا ان جملوں کا فاعل میں نہیں ہوگا لہذا یہ ادھورے جملے ہوئے -

وہ ساتھ جو سرِ منزل کبھی کا چھوٹ گیا
وہ ایک دَرد جو سارا وجود لوٹ گیا
======
اس کے بعد آنے والی ان تمام باتوں کا بھی ضمیر "میں" نہیں ہے - شاعر نے بنا کسی تمہید کے بات بدل دی ہے
ہری وہ ہاتھ کی چوڑی، وہ مانگ کا سیندور (وزن کے لیئے اسے سندور لکھنا ہوگا)
وہ خواب خواب بدن رات کے نشے میں چُور
وہ رنگ چمپئی جو روح کوجلاتا ہے
وہ ہاتھ چھو کے جنھیں دل کو چین آتا ہے
وہ آنکھ جس میں زمانے کا دَرد ہو گویا
وہ پیار سے بھرے سینے میں دِل دھڑکتا ہوا (پیار بھرے سینے میں ہونا چاہیئے - سے اضافی ہے)
کلی سے ہونٹ وہ نازک، وہ گرمی ء رُخسار
وجود سارا ہو جیسے شراب سےسرشار
وہ خون خون گلِ تر، ہوا وہ مہکی ہوئی
====
یہاں پہنچ کر شاعر نے پھر بغیر تمہید کے مضمون بدل دیا -
حسین پھول پہ بیٹھی ہوئی حسیں تتلی
خدا کےواسطے مجھ کو بتا کہ میں کیا ہوں ؟

الغرض اس نظم کو اچھا ہونے میں کچھ کسر رہ گئی -
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بالکل حضرت یہ کام تو میں خود ہی کرنا چاہتا تھا ہوا نہیں :)
جی یہ آے آر - ارشد رشید ہے
شکریہ
ارشد رشید صاحب، آپ اپنا نام ارشد رشید قادری لکھوانا چاہتے ہیں یا کچھ اور ۔ براہ کرم جو نام مطلوب ہو وہ ایک الگ سطر میں لکھ دیجیے۔ میں منتظمین کو ٹیگ کرنے میں اور مناسب جگہ پر درخواست پوسٹ کرنے میں آپ کی مدد کروں گا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
محترمی سرور صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ کو محفل میں فعال دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔یادش بخیر اردو انجمن میں آپ اپنا کلام پیش کر کے لوگوں کو تنقید اور بے لاگ تبصروں پہ ابھارتے تھے اور خود بھی اوروں کی کاوشوں پہ بے لاگ لکھتے تھے جسے ٹنگ ان چیک یا فکر بآواز بلند سے تعبیر کرتے تھے ۔بندے میں بھی وہیں سے بنا کسی کے رعب میں آئے بے لاگ لکھنے کا ذوق و شوق پیدا ہوا اور اسی ذوق و شوق کی بدولت کچھ سیکھا۔تکنیکی شعبوں میں ایپرینٹس شپ ایک طریق ہے سیکھنے کا جس میں سیکھنے والے میدان میں کام کرتے کرتے سیکھتے ہیں اور یہ سیکھنے کا بہت کامیاب طریقہ ہے بنسبت اس کے کہ صرف تھیوری کی کتابوں میں غوطہ زن ہو کر سیکھا جائے۔آپ نے بھی اردو ادب میں کئیوں کو ایپرنٹس شپ کروائی جن میں سے ایک ناہنجارمیں بھی ہوں۔یہ اردو سے آپ کی محبت اور خیر خواہی کی بین دلیل ہے ورنہ آج کل کون اپنے شہ پارے تختہء مشق بنانے کے لیے نو آموزوں کے سامنے پیش کرتا ہے یہ کہہ کر کہ اس پر کھل کر لکھیے اور "دعوت عام ہے یاران نکتہ دان کے لیے"۔مجھ سا ہر آدمی چاہتا ہے، شعر چاہے کوئی سمجھے نہ سمجھے ہماری بلا سے ہمیں تو بس داد چاہیے کہ بقول امیر مینائی:
سو بوتلوں کا نشہ ہے اک واہ واہ میں

میں نوکری پیشہ آدمی ہوں ان شاء اللہ جلد ہی نظم کے متعلق اپنی دو کوڑی کی رائے پیش کروں گا۔
 

ارشد رشید

محفلین
ارشد رشید صاحب، آپ اپنا نام ارشد رشید قادری لکھوانا چاہتے ہیں یا کچھ اور ۔ براہ کرم جو نام مطلوب ہو وہ ایک الگ سطر میں لکھ دیجیے۔ میں منتظمین کو ٹیگ کرنے میں اور مناسب جگہ پر درخواست پوسٹ کرنے میں آپ کی مدد کروں گا۔
الگ سطر تو سے مجھے نہیں پتا آپ کی کیا مراد ہے - مجھے بس ارشد رشید ہی لکھوا دیجیئے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الگ سطر تو سے مجھے نہیں پتا آپ کی کیا مراد ہے - مجھے بس ارشد رشید ہی لکھوا دیجیئے
میں منتظمین کو ٹیگ کردیتا ہوں کہ آپ اپنا نام تبدیل کر نےکے خواہشمند ہیں۔
محمد تابش صدیقی
نبیل

اب آپ مندرجہ ذیل پر کلک کیجیے اور اس زمرے میں جا کر وہاں ایک نیا دھاگا شروع کریں اور اس میں مختصر درخواست لکھ دیں کہ میرا نام بس ارشد رشید میں تبدیل کردیا جائے ۔
آپ کی تجاویز و مسائل
 
Top