مکرمی قادری صاحب:جناب سرور صاحب - مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ اس نظم پر ایک مکمل نقد و نظر چاہ رہے ہیں تو میں اس پر تفصیل سے اپنی رائے لکھتا ہوں - ظاہر ہے کہ آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں -
میں آپ کو بالکل نہیں جانتا اس لیئے سب سے پہلے اس نظم کو پڑھ کے جو ایک اجمالی تاثر قائم ہوتا ہے اس کا ذکر کروں گا -
نظم پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر ایک پڑھا لکھا شخص ہے اور سرد و گرمِ زمانہ چشیدہ ہے - شاعر کا مطالعہ بھی وسیع ہے اور خیال بھی موجود ہے - گو کہ خیال نیا نہیں ہے مگر نظم میں بہاؤ بھی ہے روانی بھی - مگر میرے حساب سے اس بہاؤ میں شاعر خود بھی بہہ گیا ہے -
شروع میں شاعر اپنے محبوب سے اسکے آنے پہ مخاطب ہے -
مری حبیب، مری ہم نشیں، مری ہمراز
مری غزل کی اَدا، میرے شعر کی آواز
مرا قرار، مرا کرب، میرا سوز و ساز
مری تلاش کا انجام، دَرد کا آغاز
----
اس کے بعد شاعر کچھ کنفیوز ہو گیا -
تو آئی ہے تو دل ناصبور بھر آیا
سفر تمام ہوا آس کا نگر آیا
نہ جانے کتنی ہی چوٹوں کا درد ابُھر آیا
میں جیسے صبح کا بھولا تھا ، شام گھر آیا
جب دلِ ناصبور بھر آیا (تو وہ تو پہلے ہی سے بھرا تھا تبھی تو ناصبور تھا) پھر شاعر کیسے کہہ سکتا ہے کہ آس کا نگر آیا ؟ - جب شاعر کو یوں لگے کہ جیسے صبح کا بھولا شام کر گھر آیا ہے تو پھر کتنی چوٹوں کا درد ابھرنا چہ معنی داردَ؟ مرے نزدیک یہ محض زورِ بیانی کی ایک کوشش ہے
== یہاں سے آگے اصل نظم کا آغاز ہوتا ہے
میں دیکھتا ہوں تجھے تو خیا ل آتا ہے
دلِ شکستہ میں رہ رہ سوال آتا ہے
میں کیا ہوں کون ہوں اور میں کہاں سے آیا ہوں
یقین ہوں کہ گماں ہوں کہ ایک سایہ ہوں؟
کبھی میں سب سے ہوں پوشیدہ اور کبھی ظاہر
مجھے تلاش ہے اپنی، میں کون ہوں آٰخر ؟
کسی کا سجدہ ء الفت، کسی کا دست ِدُعا
کسی غریب کی کُٹیا کا ٹمٹما تا دیِا
کسی کی حسرت گم گشتہ اور کسی کی اُمید
کسی کی چشم فسوں گر،کسی کا شوقِ دید
کسی نصیب کا پتھر ، کوئی دل ِ مجبور
کسی کی آنکھ کا تارا،کسی کے دل کا سرور
کسی کا غصہ ،کسی کی وفا، کسی کا پیار
کسی کی آنکھ کا آنسو،کسی کے پیار کی مار
وہ راگ جس کو میسر نہ آسکا اک ساز
وہ چیخ جس کو ملی ہی نہیں کبھی آواز
وہ دل جو ہر نئی اُمید پا کے ٹوٹ گیا
نصیب وہ جو بدلنے سے پہلے پھوٹ گیا
- یہاں تک شاعر "میں" کو محذوف کر کے صرف یہ بیان کر رہا ہے کہ وہ کیا ہے -
============
اس سے آگے "میں" محذوف نہٰیں کیا جاسکتا ان جملوں کا فاعل میں نہیں ہوگا لہذا یہ ادھورے جملے ہوئے -
وہ ساتھ جو سرِ منزل کبھی کا چھوٹ گیا
وہ ایک دَرد جو سارا وجود لوٹ گیا
======
اس کے بعد آنے والی ان تمام باتوں کا بھی ضمیر "میں" نہیں ہے - شاعر نے بنا کسی تمہید کے بات بدل دی ہے
ہری وہ ہاتھ کی چوڑی، وہ مانگ کا سیندور (وزن کے لیئے اسے سندور لکھنا ہوگا)
وہ خواب خواب بدن رات کے نشے میں چُور
وہ رنگ چمپئی جو روح کوجلاتا ہے
وہ ہاتھ چھو کے جنھیں دل کو چین آتا ہے
وہ آنکھ جس میں زمانے کا دَرد ہو گ
وہ پیار سے بھرے سینے میں دِل دھڑکتا ہوا (پیار بھرے سینے میں ہونا چاہیئے - سے اضافی ہے)
کلی سے ہونٹ وہ نازک، وہ گرمی ء رُخسار
وجود سارا ہو جیسے شراب سےسرشار
وہ خون خون گلِ تر، ہوا وہ مہکی ہوئی
====
یہاں پہنچ کر شاعر نے پھر بغیر تمہید کے مضمون بدل دیا -
حسین پھول پہ بیٹھی ہوئی حسیں تتلی
خدا کےواسطے مجھ کو بتا کہ میں کیا ہوں ؟
الغرض اس نظم کو اچھا ہونے میں کچھ کسر رہ گئی -
مکرمی راحل صاحب: سلام مسنوناستاد محترم، ایسا نہیں کہ مجھے نظم پسند نہیں آئی، اصل میں داد کا اظہار یہاں ریٹنگز کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے ، بلکہ میں نے تو سب سے پہلے پسندیدگی کااظہار کیا تھا
تاہم آپ کا شکوہ بجا ہے، اور میں اپنی تساہل پسندی کے لیے معذرت خواہ ہوں.
نظم کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں، اور روانی بھی غضب کی ہے . مجھے بس وہ دولختی محسوس ہوئی، جس کی طرف میں نے پچھلے مراسلے میں اشارہ کیا، اور یہ بھی برائے اعتراض نہیں ... کیونکہ مجھے لگا کہ اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوگا جس تک میری رسائی نہ ہو سکی.
جناب راز صاحب - آپ نے جو اعزازات مجھے عطا کیئے ہیں میں بھی ان کا مدلل جواب دے سکتا ہوں مگر پھر مراسلہ نگاری آپس کی چپقلش بن کر رہ جائے گی - بس مجھے اپنی اوقات پتہ چل گئی کیونکہ آخری تو دور کی بات ہے میں تو کسی علمی و ادبی خاندان کا پہلا چراغ بھی نہیں - اتنا ضرور ہے کہ آئندہ آپ کو مجھ سے انشا اللہ کوئی شکایت نہیں ہوگی کیونکہ میں آپ کے کلام پر تبصروں سے گریز کروں گا - شکریہ -مکرمی قادری صاحب:
منظور ہے گذارش احوال واقعی
اپنا بیانِ حسنِ طبیعت نہیں مجھے
میں آپ کا دلی ممنون ہوں کہ اس مصروف زمانے میں آپ نے میری نظم پر اس قدر وقت، محنت اور فکر کی درد سری مول لی اور اپنے تاثرات سے سرفراز کیا۔میر تقی میر نے ایسے ہی لمحوں کے لئے کہا تھا کہ :
پیدا کہاں ہیں ایسے پرا گندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
آپ نے میرے متعلق جن اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ آپ کے ھسن ظن پر مبنی سہی لیکن انھیں اسی طرح رہنے دیجئے۔ شاید ان کے فیضان سے محفل اردو میں میرا تھوڑا بہت بھرم رہ جائے۔ اپنا مختصر تعارف کرائے د یتا ہوں۔ میرا تعلق علی گڑھ ، ہندوستان سے ہے۔ وہیں کا تعلیم یافتہ ہوں اور بعدمیں وہیں مسلم یونیو رسٹی میں دس سال پڑھا چکا ہوں۔ پیشے سے انجینئر تھا لیکن ذوق و شوق ادب وشعر سے ہے۔ایک ادبی خاندان کا آخری فرد ہوں جہاں ہر رکن کسی نہ کسی صورت سے ادب و شعر سے وابستہ تھا۔ میرے بعد افسوس کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا: انقلابات ہیں زمانے کے۔
میں اب ایک مدت سے امریکہ میں مقیم ہوں ۔ امید ہے اردو محفل کی وساطت سےآپ سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا۔ اردو محفل میں ظہیر صاحب کے حکم پر حاضر ہوا ہوں۔ آہستہ آہستہ یہاں کے رموز و اوقاف سے مانوس ہو جائوں گا۔ انشااللہ۔ امید پر دنیا قائم ہے سو میں بھی اسی پر تکیہ کئے لیتا ہوں۔ آپ کی تحریر میں اپنی نظم پر :مکمل نقد و نظر: کی خوش خبری پڑھ کر بہت خوش ہوا تھا کہ آج کچھ حسرتیں پوری ہو جائیں گی لیکن افسوس کہ زیادہ دیر خوش نہ رہ سکا۔ اس اجمال کی تفصیل آگےمیرے جواب میں مل جائے گی۔
بنیادی طور پر میں غزل کا شاعر ہوں لیکن گاہے گاہے نظم بھی کہنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔میری نظمیں زیادہ تر تاثراتی ہیں یعنی اپنے کسی تجربے یا مشاہدے پر مبنی ہیں۔ زیر بحث نظم ایسے وقت کہی گئی جب میں ایک مخصوص کیفیت سے گزر رہا تھا۔سو اس میں کوئی ہرج نہیں کہ دنیا میں ہر شخص ایسی کیفیات سے آشنا ہے گویا یہ ہماری زندگی کا ایک حصہ ہیں ۔ اب : آمدم برسر مطلب:۔ آپ کی تحریر پر میرے خیالات و تاثرات پیش خدمت ہیں۔ کسی خیال یا رائے سے آپ کی دلآزاری مقصود نہیں ہے اور نہ ہی اس سے آپ کا متفق ہونا ضروری ہے۔ کسی کی دلآزاری میرا شیوہ نہیں ہے۔ اختلا ف رائے زندگی کا نا گزیر حصہ ہے اور زندگی سے مفر نہیں ۔ انیس نے شاید ایسے موقعہ کے لئے ہی یہ شعر کہا تھا اور کیا ہی خوب کہا تھا کہ؛
خیال خاطر احباب چاہئے ہر د م
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
مبالغہ نہ ہوگا اگر کہوں کہ آپ کا تبصرہ پڑھ کر مایوسی ہوئی۔:تبصرہ: تو میں بر سبیل تکلف لکھ رہا ہوں ورنہ جس مدرسہء فکر کا میں تربیت یافتہ ہوں وہاں ایسی تحریر کو :اظہار خیال محال: سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ مکمل نقد و نظریا جامع تبصرہ اور ہی چیز ہے اور فی زمانہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ کچھ کم فرصتی،کچھ قلت مطالعہ و تفکر،کچھ ادبی روایات کی شکست و ریخت اور کچھ شخصی تساہلی اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ جامع تبصرہ جس منطقی طرز فکر، متوازن اور سوچے سمجھے استدلال ، مضمون پر مبصر کا عبور اورتجزیاتی اور محققانہ مزاج ونظر کاخواہاں ہے اس کا فقدان آپ کی تحریر میں بہت نمایاں ہے اور اسے داغدار بھی کر رہا ہے ۔آپ نے کوئی پتے کی بات نہیں کہی یعنی کوئی قابل ذکر تبصرہ نہیں کیا بلکہ صرف اتنا کیا ہے کہ میری نظم جوں کی توں نقل کرکے چند ٹکڑوں میں منقسم کردی ہے ۔ پھر انھیں ٹکڑوں میں سے دو ایک نکات مستعار لے کرایک آدھ جملہ ٹانک دیا ہے جس کی ضرورت اور افادیت کےآپ تو شاید قائل ہوں لیکن دوسرےقاری یقینا انھیں بے ضرورت اور بے سود سمجھیں گے۔ اگر آپ کے :مکمل نقد و نظر: سے میری نظم خارج کر دی جائے تو جو چند سطریں آپ کی تحریر کی صورت میں باقی رہ جائیں گی ان کی کیا بساط اور قیمت ہے کہ ان کو لائق اعتنا بھی تصور کیا جائے؟ کسی کی تخلیق پر تبصرہ کرنا اکثر متعلقہ مضمون لکھنے سے زیادہ مشکل اور صبرآزما کام ہوتا ہے۔ آپ نے اس کو لفظی بازی گری سے اتنا آسان کر دکھایا ہے کہ اب ہر کس وناکس بلا تکلف ادب و شعر پر :مکمل نقد و نظر: کا انتہائی اہم فریضہ انجام دے سکتا ہےاور ناقد و مبصر کہلانے کا سہرا خود ہی اپنے سر باندھ سکتا ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا ھسن ِ کرشمہ ساز کرے
آپ نظم سمجھ نہیں پائے اور اسی وجہ سے اس کے متعلق آپ کے تاثرات :پا در ہوا: کے مصداق دکھائی دیتے ہیں۔آپ کی تحریر سے چند مثا لیں یہاں بطور اتمام حجت نقل کررہا ہوں تاکہ :سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔:
ا[1] آپ سمجھ رہے ہیں کہ میری نظم کی مخاطب میری محبوبہ ہے۔ بھلا اس کو :آرائش خم کاکل: سےاتنی فرصت کہاں کہ وہ میری ذہنی اور نفسیاتی الجھنیں سلجھاتی پھرے ؟ نظم کی مخاطب کون ہے اور کیوں ہے ؟ اس اہم نکتہ پر مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔محفل میں مختلف احباب نے اس پر کچھ گفتگو کی ہے۔ اسے دیکھ لیں ۔کیا خبر گوہر مقصود کہاں سے بہم پہنچ جائے۔
[2] آپ :دل ناصبور: اور :دل بھر آنے : کو ایک ہی بات سمجھ رہے ہیں گویا ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں اور یہ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ :دل نا صبور :صرف :دل بھر آنے: کا دوسرا نام نہیں ہے۔یہ بات تو اُردو کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے ۔معلوم نہیں آپ تک یہ خبر کیوں کرنہ پہنچ سکی۔ اسی طرح آپ نے :شام گھر آنے: اور :چوٹوں کا درد ابھر آنے : کی معنویت نہ سمجھ کر بے بنیاد اعتراض کر دیا ہے جوبے معنی اور غیر ضروری بھی ہے۔ کیا کسی :صبح کے بھولے: کا : شام گھر آنا : اس کا مستلزم ہے کہ آنے والے کی کوئی پرانی چوٹ پھر نہ ابھرے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ خیال اتناپوچ اور لاغر ہے کہ یہ آپ کے تبصرے کی شان و وقعت کو مجروح و متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ معدوم کردیتا ہے۔ بزرگوں نے اسی لئے نصیحت کی ہے کہ :پہلے بات کو تولو، پھر منھ سے بولو۔: آپ نے بھی سنا ہوگا؟
[3] آپ نے :سیندور: کے املا کوصحیح کیا ۔شکریہ۔ رہ گئی :سے: کے زائد ہونے کی بات تو آپ :ضرورت شعری: سے واقف نہیں ہیں یا پھر آپ کو اس کا تجربہ نہیں ہے۔شاعری میں یہ ایک مسلمہ طرز فکر ہے اور یہ عیب نہیں ہے۔ اس کم فہمی کا واھد علاج مطالعہ اور فکر ہے۔ امید ہے اس جانب توجہ فرمائیں گے۔
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
آپ کے :نقد و نظر: کا آخری جملہ :الغرض اس نظم کو اچھا ہونے میں کچھ کسر رہ گئی: پڑھ کر بہت محظوظ ہوا۔ یعنی نظم :اچھی: کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔ کاش اس کا علاج بھی تجویز کر دیتے ۔ خیرکوئی بات نہیں۔ نظم ہویا غزل، میری شعر گوئی خود میرے لئے ہوتی ہے ۔ دنیا کو کچھ ملے یا نہ ملے، میرا دل بہل جاتا ہے اور یہ بڑی نعمت ہے۔ حضرت راز چاند پوری کا شعر ہے:۔
راز مل جاتی ہے فکروں سے نجات
شاعری سے اور کچھ حاصل نہیں
والد مرحوم کے اس شعر میں حقیقت کا جو اظہار ہے وہ برحق ہے لیکن شاعری سے یہ فائدہ تو ضرور ہے کہ آپ جیسے اہل دل اور اہل قلم سے نیاز حاصل ہوتا رہتا ہے اس پراللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اب اجازت
دیجئے۔ محفل میں ملاقات ہوتی رہے گی۔ یار زندہ، صحبت باقی۔
خاکسار: سرور راز
عزیز مکرم یاسر صاحب: ممنون ہوں کہ آپ نے نظم پر اپنی سوچی سمجھی رائے کا صاف اور بے لاگ اظہار کیا۔ مجھ کو یاد ہے کہ اردو انجمن میں بھی آپ کی رائے دوسروں سے مختلف ا ور گاہے گاہے باغیانہ ہوتی تھی لیکن آپ کواس کے اعلان وابلاغ میں کوئی جھجک نہیں تھی۔ اس تبصرے کے بعد مجھ کو ساحر کی نظم :کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے: پھر پڑھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ آپ کی تحریر پوری طرح سمجھ سکوں۔ اس نظم کو دیکھے ہوئے اتنی مدت ہوگئی کہ یادیں دھندلا گئی ہیں۔ شعر فہمی اورشعر کی تشریح سے متعلق آپ کی رائے سے متفق ہوں۔ شعر کا وہی ایک معنی معتبر نہیں ہے جو شعر کہتے ہوئے شاعر کے ذہن میں تھا بلکہ ہر وہ معنی جو کسی کے ذہن میں آسکتا ہے لائق اعتنا ہے بشرطیکہ وہ شعر کے متن سے بغاوت پر مبنی نہ ہو۔آپ نے آورد کاذکر کیا توسچ تو یہ ہے کہ ہماری بیشتر شاعری آورد کی ہی زائیدہ ہوتی ہے۔ ایسے کتنے شاعر ہیں جن پرشعروں کی آمدیا نزول ہوتاہے؟ علامہ اقبال کے علاوہ ہمارے دور میں اور کوئی شاعر نہیں گزرا جو نزول شعر کا دعوی کر سکے۔ آپ کی تحریر ناقص ہرگز نہیں ہے البتہ مبہم ضرور ہے اور قاری سے غور و خوض اور مزید مطالعہ کی طلبگار ہے۔ اس کا کلیدی ٹکڑا میری فہم کی حد تک یہ ہے : وجہ وہی ہستی کی ڈور کے سروں کا ہاتھ نہ آنا۔: اللہ بس، باقی ہوس۔محترمی سرور صاحب
آپ کی نظم کو دو تین بار پڑھنے کے بعد ایک تاثر پیدا ہوا جسے بلا تکلف پیش کیے دیتا ہوں زیادہ سے زیادہ غلط ہوگا سو بڑی بات نہیں ،کچھ سیکھنے کو مل جائے گا ۔اسے محض ایک قاری کی رائے سے زیادہ وقعت نہ دی جائے۔
میرے نزدیک شاعر کا وہ کلام جو پبلک ہو جائے کوئی پہیلی یا معما نہیں ہوتا جس کا حل صرف شاعر ہی کے پاس ہو بلکہ شاعر اپنے کلام کے متن کے مطابق جو تفسیر کرے گا اسے ایک شرح سے زیادہ کی حیثیت حاصل نہیں ہو گی اور اگر متن سے ہٹ کر کوئی تفسیر کرے گا تو اسے "المعانی فی بطن الشاعر" کہا جائے گا جو کہ شاعری کا ایک عیب ہے۔تمام نقاد اس پہ متفق ہیں کہ شاعر کے کلام سے وہ وہ مرادیں بھی لی جا سکتی ہیں کہ جو کلام کہتے ہوئے خود شاعر کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوں بشرطیکہ اس مراد لینے میں اصل متن سے انحراف نہ ہو ۔
غالب نے اپنے خطوط میں اپنے کچھ اشعار کی تشریح کی ہے جن کی روشنی میں نقادوں نے غالب کو بھی غالب شناسی کے میدان میں محض اپنے کلام کے ایک شارح سے بڑھ کر وقعت نہیں دی۔
اب آتے ہیں آپ کی نظم کی طرف جس کا مرکزی خیال انسان کی نا آسودگی ہے کچھ منزلیں اور خواہشیں وہ اپنے طور پہ طے کر لیتا ہے یہ سوچ کر کہ شاید ان کے حصول کے بعد وہ آسودگی پا جائے گا مگر ان سب کے حصول کے باوجود وہ نا آسودہ ہی رہتا ہے جس کا سبب دراصل کچھ سوال ہیں جو اسے ہمیشہ بے چین کیے رکھتے ہیں( جن کا جواب بہت آسان ہوتا ہے مگر انسان ان جوابوں کی طرف آنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ اس میں اس کی انا کی شکست ہے کہ میرے اس قدر مشکل سوالوں کا آسان جواب کیونکر ممکن ہے چنانچہ وہ اپنے سوالوں کے ایبسٹریکٹ آرٹ میں ہی خوش رہنا چاہتا ہے) ۔لطف اس نظم میں یہ ہے کہ یہ نظم شعوری یا لا شعوری طور پہ ساحر کی مشہور نظم "کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے" میں پیش کردہ شعور سے الجھ رہی ہے ۔
جہاں ساحر سوچ رہا ہے کہ وصال محبوب کی خود فراموشی میں شاید خود آگہی کے عذاب سے چھٹکارا مل پاتا مگر چونکہ وہ نہ ملا چنانچہ یہ بھی نہ ملا۔ وہاں اس نظم کا شاعر ساحر سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی نظم میں بین السطور کہہ رہا ہے:
"مگر یہ ہو بھی چکا اور اب بھی وہی عالم ہے کہ حیات اب بھی برہنہ سر چیختی پھر رہی ہے"
وجہ وہی ہستی کی ڈور کے سروں کا ہاتھ نہ آنا۔
نفسیاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر بھی دراصل اپنے آپ سے مخاطب ہے یہی وجہ ہے کہ وہ وصل کے ہر مرحلے میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا ہے یہاں تک کہ محبوب میں بھی۔میر کی طرح اس نظم کا شاعر بھی اپنے محبوب سے زیادہ اپنا عاشق ہے تبھی اتمام خود فراموشی کے مقام سے گزر کر بھی وہ خود آگاہی چاہتا ہے۔
میرے خیال سے یہ نظم کہ جس کا بیشتر حصہ باوجود اس کے کہ آورد محسوس ہوتا ہے ایک کشش رکھتی ہے اور کافی حد تک اپنے شعور کو قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہے۔
یہ ہے میری ناقص مگر بے لاگ رائے ۔
قبلہ استاذی، کتاب تو اب میرے پاس سے ہی مل سکتی ہے کہ اس نیکی کے بکسے میرے ہی پاس بچے ہیں اور کراچی میں کوئی دریا نہیں جہاں اس کو ڈالا جاسکےمکرمی راحل صاحب: سلام مسنون
آپ کو یہاں دیکھ کر نہایت خوشی ہوتی ہے اور کتنی ہی پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ زندگی بھی کیا عجیب شے ہے۔ نظم کی فکر نہ کریں اور اپنا خیال رکھیں۔ میں یہاں ذاتی مراسلت مناسب نہیں جانتا لیکن اور کوئی چارہ بھی نظر نہیں آتا۔ یہ بتائیں کہ آپ کی کتاب کہاں سے حاصل کر سکتا ہوں؟ اور راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور راز
نبیل صاحب !نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔
محترم سرور صاحب ، آپ کی نظم نظر نواز ہوئی . ’ کسی غریب کی کُٹیا کا ٹمٹما تا دیا‘ پڑھ کر ایک دیا سا جلا . ایسا لگا کہ یہ نظم پہلے دیکھی ہے . لیکن پِھر اِس سے متعلق کچھ بھی یاد نہیں آیا . بہر حال ، نظم مجموعی طور پر خوب ہے اور داد کی مستحق ہے سو قبول فرمائیے . مزید چند حقیر تاثرات پیش ہیں ، اِس بات کی سند كے طور پر کہ میں نے نظم سرسری طور پر نہیں ، بلکہ بغور پڑھی ہے .یاران محفل: روز ِ ازل سے ایک سوال انسان کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ خدا جانے کتنے دماغ اس کو سوچ چکے،کتنے قدم اس راستے کو پامال کر چکے اور کتنے صفحے اس منزل میں سیاہ کئے جا چکے ۔ میں کون ہوں؟ کیاہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کیوں آیا ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں؟ کوئی نظریہ ، کوئی فلسفہ، کوئی کھوج اس معمہ کو نہیں سلجھا سکی۔ اس کبھی نہ ختم ہونے والی تلاش کاانجام اب تک نا معلوم ہے اور بظاہر نا معلوم ہی رہے گا۔ اس سوال نے ہمیں بے شمار فنون کے بے شمارشاہکار بہم پہنچائے اور زندگی کا کوئی گوشہ اپنی بو قلمونیوں سے خالی نہیں رہنے دیا لیکن :نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ؛ نکلا۔یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انسان یہ مسئلہ حل نہ کر سکا لیکن سوچنے سے اسے کوئی روک نہیں سکا۔ سوال کی کنہہ سمجھ لینا اس کا مقدر نہیں لیکن سوچنا اس کا مقدر ضرور ہے۔ اپنی کم مائیگی ، خام خیالی ، بے نام احساسات و خیالات اور بیسود پرواز فکر کے با وجود یہ سوال میرے ذہن میں بھی آکر میری کوتاہ آستینی دنیا پر آشکار کرتا رہا ہے۔ اس تلاش کا خمیازہ ایک نظم کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اس میں کوئی نئی بات، نیانظریہ، یا نیافلسفہ نہیں ہے۔ ایک کبھی نہ مٹنے والی خلش ضرور ہے ۔ نظم آپ سے اس خلش کی داد خواہ بھی نہیں ہے۔ داد لے کر وہ کون سا تیر مار لے گی؟ وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ پل بھر آپ اس کے پاس بیٹھیں، کچھ اس کی سنیں اور کچھ اپنی سنائیں۔ اس زحمت سے کیا حاصل ہوگا؟ یہ نہیں معلوم، ہاں شاید دل کی بھڑاس میں کچھ کمی ہو جائے۔ واللہ اعلم!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال
مری حبیب، مری ہم نشیں، مری ہمراز ::::: مری غزل کی اَدا، میرے شعر کی آواز
مرا قرار، مرا کرب، میرا سوز و ساز ::::: مری تلاش کا انجام، دَرد کا آغاز
تو آئی ہے تو دل نا صبور بھر آیا ::::: سفر تمام ہوا آس کا نگر آیا
نہ جانے کتنی ہی چوٹوں کادرد ابُھر آیا :::::میں جیسے صبح کا بھولا تھا ، شام گھر آیا
میں دیکھتا ہوں تجھے تو خیا ل آتا ہے :::::دلِ شکستہ میں رہ رہ سوال آتا ہے
میں کیا ہوں کون ہوں اور میں کہاں سے آیا ہوں :::: یقین ہوں کہ گماں ہوں کہ ایک سایہ ہوں؟
کبھی میں سب سے ہوں پوشیدہ اور کبھی ظاہر :::: مجھے تلاش ہے اپنی، میں کون ہوں آٰخر ؟
کسی کا سجدہ ء الفت، کسی کا دست ِدُعا ::::: کسی غریب کی کُٹیا کا ٹمٹما تا دیِا
کسی کی حسرت گم گشتہ اورکسی کی اُمید ::::: کسی کی چشم فسوں گر،کسی کا شوق ِدید
کسی نصیب کا پتھر ، کوئی دل ِ مجبور ::::: کسی کی آنکھ کا تارا،کسی کے دل کا سرور
کسی کا غصہ ،کسی کی وفا، کسی کا پیار :::: کسی کی آنکھ کا آنسو،کسی کے پیارکی مار
وہ راگ جس کو میسر نہ آسکا اک ساز :::: وہ چیخ جس کو ملی ہی نہیں کبھی آواز
وہ دل جو ہر نئی اُمید پا کے ٹوٹ گیا :::: نصیب وہ جو بدلنے سے پہلے پھوٹ گیا
وہ ساتھ جو سر ِمنزل کبھی کا چھوٹ گیا ::: وہ ایک دَرد جو سارا وجود لوٹ گیا
ہری وہ ہاتھ کی چوڑی، وہ مانگ کا سیندور ::: وہ خواب خواب بدن رات کے نشے میں چُور
وہ رنگ چمپئی جو روح کوجلاتا ہے :::: وہ ہاتھ چھو کے جنھیں دل کو چین آتا ہے
وہ آنکھ جس میں زمانے کا دَرد ہو گویا :::: وہ پیار سے بھرے سینے میں دِل دھڑکتا ہوا
کلی سے ہونٹ وہ نازک، وہ گرمی ء رُخسار :::: وجود سارا ہو جیسے شراب سےسرشار
و ہ خون خون گلِ تر، ہوا وہ مہکی ہوئی ::::: حسین پھول پہ بیٹھی ہوئی حسیں تتلی
خدا کےواسطے مجھ کو بتا کہ میں کیا ہوں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب... بہت عمدہ نکتہ اٹھایا ہے آپ نے.میرا قیاس ہے کہ یہاں كلام اپنی تنہائی سے ہے ، یا یوں کہیے کہ تنہائی كے تَوَسُّط سے كلام خود سے ہے . یعنی یہاں معاملہ روایت كے مطابق ہی ہے .
نام کے مبہم پن کو نظر انداز کر دیجیے۔ نظم کے متعلق جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکی ہوں کہ شاعر نے اپنے وجود سے باہر بھی اپنے وجود کی تلاش جاری رکھی ہے۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر میں اس نے اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ علامتوں اور تشبیہات کی مدد سے اپنی ہستی کی صفات کو دیگر مظاہراتِ فطرت پر اس طرز پر منطبق کیا ہے کہ کہیں کہیں دوئی کا فرق مٹتا نظر آیا ہے۔مکرمی: چونکہ میں آپ کے اسم گرامی کے رموز تک نہ پہنچ سکا اس لئے مناسب القاب و آداب کے استعمال سے محروم رہا۔معذرت خواہ ہوں۔ دیکھئے شاعری بھی کیا چیز ہے کہ جس طرف شاعر کا خیال بھی نہیں گیا آپ نے اس نکتہ کی وضاحت فرمادی۔ فلسفہء وحدت الوجود کا نام سنا ہے اور بس۔ اس سے زیادہ واقفیت کا گنہ گار نہیں ہوں۔ آپ کو اس ضمن میں جو جھلک نظرآئی اس کو اپنے حسن ظن پر محمول کر لیں تو مناسب رہے گا۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۱ ایک گزارش اور ہے کہ اگر آپ نظم پر مزید اظہار خیال فرمادیتے تو بندہ نوازی ہوتی۔ کیا میں آپ سے یہ امید رکھ سکتا ہوں؟
کیا واقعی شاعر سمجھتا ہے کہ آج تک کوئی نظریہ، کوئی مذہب، کوئی فلسفہ اس عقدے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا؟میں کون ہوں؟ کیاہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کیوں آیا ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں؟ کوئی نظریہ ، کوئی فلسفہ، کوئی کھوج اس معمہ کو نہیں سلجھا سکی۔
مکرمی عرفان صاحب: جواب خط کے لئے ممنون و متشکر ہوں۔ آپ کم نظرآتے ہیں۔ غالبا مصروف بہت ہیں ۔ سو کوئی ہرج نہیں: ایں ہم غنیمت است۔ نظم پر آپ کے مختصر تاثرات سے دل خوش ہوا۔ آپ سے متفق ہوں کہ یہاں نفس مضمون اس سے زیادہ اہم ہے کہ خطاب کس سے ہے۔ میرے تجربے میں ایسی جذباتی تخلیقات بعض اوقات شاعر کو اپنے زور میں کہیں سے کہیں لے جاتی ہیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک نہایت جذباتی لمحہ میں نہایت طویل ایک نظم مدتوں پہلے کہی تو والد مرحوم نے اس پر نظر ڈالنے کے لئے مجھ سے مستعار لیا اور دیکھ کر یہ اطمینان کر لیا کہ میں جذبات میں صراط مستقیم سے بھٹک تو نہیں گیا۔ نظم آپ کو مجموعی طور پر پسند آئی ، شکریہ۔ آپ کی نظم کا انتظار رہے گا۔ دعائے خیر کا طالب ہوں۔محترم سرور صاحب ، آپ کی نظم نظر نواز ہوئی . ’ کسی غریب کی کُٹیا کا ٹمٹما تا دیا‘ پڑھ کر ایک دیا سا جلا . ایسا لگا کہ یہ نظم پہلے دیکھی ہے . لیکن پِھر اِس سے متعلق کچھ بھی یاد نہیں آیا . بہر حال ، نظم مجموعی طور پر خوب ہے اور داد کی مستحق ہے سو قبول فرمائیے . مزید چند حقیر تاثرات پیش ہیں ، اِس بات کی سند كے طور پر کہ میں نے نظم سرسری طور پر نہیں ، بلکہ بغور پڑھی ہے .
یہاں شاعر کس سے مخاطب ہے ، یہ ایک دلچسپ سوال ہے . عموماً یہ سوال کہ ’میں کیا ہوں‘ ، انسان یا تو خدا سے پوچھتا ہے یا اپنے آپ سے . ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ یہ سوال کسی تیسری ذات سے نہیں کیا جا سکتا . آپ یہ سوال کسی اور سے بھی کر سکتے ہیں ، یہاں تک کہ محبوبہ سے بھی ، اگر وہ دانشورانہ مزاج رکھتی ہو . لیکن روایت یہی ہے کہ یہ سوال یا تو خدا سے ہوتا ہے یا خود سے . یہاں خدا سے كلام کا امکان تو پہلے مصرعے نے ہی ختم کر دیا . باقی بچا شاعر خود . شروعاتی مصرعوں سے ظاہر ہے کہ شاعر براہ راست خود سے ہَم كلام نہیں ہے . میرا قیاس ہے کہ یہاں كلام اپنی تنہائی سے ہے ، یا یوں کہیے کہ تنہائی كے تَوَسُّط سے كلام خود سے ہے . یعنی یہاں معاملہ روایت كے مطابق ہی ہے .
میری ناچیز رائے میں كلام کس سے ہے ، یہ اتنا اہم نہیں جتنا كلام کا موضوع ، یعنی وہ سوال جو نظم کا مضمون اور عنوان ہے . جہاں تک اِس سوال کا سوال ہے ، یہ بڑی خوش اسلوبی سے پوچھا گیا ہے . اِس سوال کی وجہ سے انسان كے ذہن میں جو الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ، ان کی عکاسی تشبیہات كے ذریعے بخوبی کی گئی ہے . البتہ مجھے لگا کہ تشبیہات کی فہرست کچھ طویل ہو گئی . چند مثالیں دے کر اگر نظم ختم کر دی جاتی تو یہ اور پر اثر ہو جاتی .
چلتے چلتے یہ بھی بتا دوں کہ آپ کی نظم نے مجھے کوئی بیس سال پہلے کی اپنی ایک ادنیٰ نظم یاد دلا دی جو اسی موضوع پر تھی . وہ اِس قابل تو نہیں ہے کہ یہاں پیش کی جا سکے ، لیکن سوچ رہا ہوں ہمت کر كے چَسْپاں کر ہی دوں .
نبیل صاحب کو ٹیگ کر دیا ہے۔ امید ہے وہ آپ کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ ویسے، اس لڑی کے حساب سے یہ غیر متعلقہ مراسلہ ہے، اس کے لیے معذرت۔ مدیران چاہیں تو اس مراسلے کو حذف کر دیں۔نبیل صاحب !
ارشد رشید صاحب کی طرح میرا نام بھی تبدیل کردیں تو کیا جائیگا آپ کا،
یعنی یہ میرے نام سے 23 کے اعداد ختم کرکے اگر مستاؔ، میرا تخلص جوڑ
دیں تو میں اہلِ محفل کوشعر و ادب کے ادنیٰ طالبِ علم کی جگہہ علمِ جفر کا
اونچے درجےکاشوقین تو نہ دکھائی دوں ۔ایمان سے بہت شاق گزرتا ہے
۔۔۔شکیل احمد خان23 کادیکھنا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنونِ شوق میں سجدوں کی آبرو بھی گئی !
شکیل احمد خان ،کراچی۔
محترمہ ؟: آداب عرض ہے۔نام کے مبہم پن کو نظر انداز کر دیجیے۔ نظم کے متعلق جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکی ہوں کہ شاعر نے اپنے وجود سے باہر بھی اپنے وجود کی تلاش جاری رکھی ہے۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر میں اس نے اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ علامتوں اور تشبیہات کی مدد سے اپنی ہستی کی صفات کو دیگر مظاہراتِ فطرت پر اس طرز پر منطبق کیا ہے کہ کہیں کہیں دوئی کا فرق مٹتا نظر آیا ہے۔
لیکن مجھے نظم سے زیادہ نظم کی تمہید نے ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا۔ بحیثیت قاری، کئی سلجھی ہوئی چیزیں مزیدالجھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ شاعر کے سوال کا جواب، جو کسی نہ کسی حد تک ہر دور میں معلوم ہی رہا ہے، اس پر پھر سے سوالیہ نشان لگتا دکھائی دیا۔ یہ درست ہے کہ خیال، زمان و مکاں کی حدود سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ سوچ کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوتا۔ لیکن شاعر جس کی جستجو کا دائرہ کار کافی وسیع ہے ، جو شدت سے اپنی ہستی کی گھتیاں سلجھانےکا خواہاں ہے، وہ کچھ چیزوں سے کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے۔
کیا واقعی شاعر سمجھتا ہے کہ آج تک کوئی نظریہ، کوئی مذہب، کوئی فلسفہ اس عقدے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا؟