خرد اعوان
محفلین
السلام علیکم
یہان میں کوئی سنی سنائی بات تحریر کرنے نہیںجا رہی بلکہ ایک سچی آپ بیتی شئیر کروں گی ۔ یہ آپ بیتی ہے مسز محمود کی جو چکار آذاد کشمیر سے تعلق رکھتیں ہیں اور زلزلے کے دو سال کے بعد جدہ میںمستقل سکونت اختیار کرنے کے لئے اپنے شوہر کے پاس آگئیں تھیں ۔ ملاقات پر جب ان سے وہاں کے حالات جانے تو دل کیا کہ ان حالات کو بھی شئیر کرنا چاہیے ہے ۔ تو زلزلہ کی کہانی متاثرہ خاتون کی زبانی سنتے ہیں۔
"چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اس لئے ہم لوگ سحری کرکے نماز وغیرہ پڑھنے لگے تھے ۔ میری بہن راولپنڈی سے آئی ہوئی تھی جس کی طبیعت کچھ ناساز تھی ۔ نماز پڑھ کر میرا بھائی بھی واپس آگیا ۔ بہن کی وجہ سے میں ، والدہ اور والد جاگ رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی گھر کی تیسری منزل پر تھے جہاں ہمارا کچن بھی تھا ۔ ہم لوگ نماز کے بعد سوئے نہیں بلکہ باتیں کر رہے تھے ۔ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور پھر اچانک ہمیں لگا کہ ہمارا گھر ہل رہا ہے ہم نے سیڑھیوں کی طرف جانے کی کوشش کی تو چھت کا کچھ حصہ ٹوٹ کر سیڑھیوں کو بلاک کر گیا ہم واپس پلٹ کر بھاگے تو باقی کی چھت لگا کہ ہمارے اوپر آکر گر جائے گی ۔ میں نے آیتہ کریمہ کا ورد لاشعوری طور پر کرنا شروع کر دیا اور پھر اچانک لگا کہ چھت کو کسی نے الٹ کر پیچھے والے نالے میں پھینک دیا ہو ۔ ہمارا گھر چونکہ کافی پرانا بنا ہوا تھا اس لیے ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ ہمارے گھر کے ساتھ ہی ہوا ہے ۔ تیسری منزل کی چھت چونکہ گر چکی تھی اس لئے ہم نے جب جھانک کر دیکھا تو کمرے کی اونچائی زمین کے برابر ہو چکی تھی ۔ ہم اپنے اوپر سے گرد جھاڑتے ہوئے باہر نکل آئے ۔ جب اردگرد نظر ڈالی تو معلوم ہواکہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے کوئی گھر نہ بچا تھا ۔ میرا بھائی گھر کی نچلی منزل پر سو رہا تھا لیکن اس کی بھی کوئی خبر نہ تھی ۔ ہم لوگوں کے پاس سر ڈھانکنے کو کوئی چادر نہیں تھی ۔ گاؤں کے وہ لوگ جو بچ گئے تھے یا زخمی تھے انہوں نے گھروں کو کھود کر کپڑے نکالے اور ہمیں اوڑھنے کے لئے دئیے ۔ پورے گاؤں کی کچھ عجیب حالت تھی کوئی گھر سلامت نہ تھا ۔ ہم سب روزے سے تھے ۔ لیکن شام تک کوئی امداد نہ پہنچنے کیوجہ سے لوگوں نے جہاں جہاں دکانیں تھیں وہاں کی زمین کو کھودا اور پھر اشیاء خوردونوش کا انتظام کیا ۔ ہم لوگوں کا دھیان مسلسل اپنے بھائی کی طرف تھا جو نچلی منزل میں پھنسا ہوا تھا ۔ تین منزلہ گھر زمین میں ایسے دھنس گیا تھا جیسے کوئی سوئچ کسی ساکٹ میں بآسانی چلا جاتا ہے ۔ کبھی زندگی میں سوچا بھی نہ تھا کہ ایسے ناقابل یقین اور عبرت انگیز مناظر دیکھنے پڑیں گے ۔
دن پر دن گزرے اور حکومت کی کوئی مدد ہم تک نہ پہنچی ۔ گاؤں کے لوگوں کی مدد سے کسی نہ کسی طرح ہم نے اپنے گھر کی دوسری منزل کی چھت جو کہ تیسری منزل کا فرش بھی تھا ہٹائی اور اسی طرح کرتے کرتے سات دن لگ گئے اور بمشکل ہم نچلی منزل تک پہنچے بارش ہو جانے کے باعث وہاں پانی موجود تھا اور میرا بھائی مردہ حالت میں پڑا ہوا تھا ۔ اس کے جسم پر ہلکی ہلکی سوجن آگئی تھی نامعلوم کب حالات سے لڑتے ہوئے اس نے جان دی تھی ۔ اس کا بستر اور کمبل اپنی جگہ تھا اور وہ کمرے سے باہر نچلی منزل کے دالان میں پڑا ہوا تھا ۔ ہمارے رشتہ دار راوالپنڈی سے کسی نہ کسی طرح چکار پہنچے ۔ تمام راستے مسدود تھے ۔ زلزلے کی وجہ سے جہاں پہاڑ تھے وہاں جھیلیں بن گئیں تھیں اور جہاں جھیلیں تھیں وہاں پہاڑ آگئے تھے ۔ راستوں کا بھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ حکومتی امداد مظفر آباد سے آگے کسی گاؤں تک نہ پہنچی تھی ۔ گھر ٹوٹ چکے تھے ۔ شدید سردی کے موسم میں ہمیں اﷲ کے سوا کسی کا آسرا نہ تھا ۔ پنڈی سے پہنچنے والے رشتے دار کسی نے کسی طرح کرکے ہمیں بھی پنڈی لے کر آگئے ۔ حالات کچھ نارمل ہوئے تو ہم واپس اپنے گاؤں گئے اور مکان کی تعمیر اپنی مدد آپ کے تحت کی ۔ حکومت نے صرف فی گھرانہ اسی ہزار کی مدد کا اعلان کیا تھا ۔ جو بعد میں ملے بھی ۔ گھر تو تعمیر ہو گیا لیکن کتنے ہی مہینے ہم سکون کی نیند نہ لے سکے ۔ آج بھی وہ مناظر نظروں میں گھومتے ہیں تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور چلی جاتی ہے ۔ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ یہ اﷲ کا عذاب تھا یا ہماری آزمائش ۔ بہرحال وقت تو گزر گیا لیکن یہ خلش تاحیات باقی رہے گی کہ اگر حکومت وقت کی امداد بروقت ہم تک پہنچ جاتی اور گھروں کی کھدائی کا کام جلد شروع ہو جاتا تو شاید ہمارا بھائی بچ جاتا ۔ والدہ کہتی ہیں کہ صبر کرو اس کی زندگی ہی اتنی تھی لیکن حکومت وقت کی بے حسی کو نظر انداز کرنا کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ "
یہان میں کوئی سنی سنائی بات تحریر کرنے نہیںجا رہی بلکہ ایک سچی آپ بیتی شئیر کروں گی ۔ یہ آپ بیتی ہے مسز محمود کی جو چکار آذاد کشمیر سے تعلق رکھتیں ہیں اور زلزلے کے دو سال کے بعد جدہ میںمستقل سکونت اختیار کرنے کے لئے اپنے شوہر کے پاس آگئیں تھیں ۔ ملاقات پر جب ان سے وہاں کے حالات جانے تو دل کیا کہ ان حالات کو بھی شئیر کرنا چاہیے ہے ۔ تو زلزلہ کی کہانی متاثرہ خاتون کی زبانی سنتے ہیں۔
"چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اس لئے ہم لوگ سحری کرکے نماز وغیرہ پڑھنے لگے تھے ۔ میری بہن راولپنڈی سے آئی ہوئی تھی جس کی طبیعت کچھ ناساز تھی ۔ نماز پڑھ کر میرا بھائی بھی واپس آگیا ۔ بہن کی وجہ سے میں ، والدہ اور والد جاگ رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی گھر کی تیسری منزل پر تھے جہاں ہمارا کچن بھی تھا ۔ ہم لوگ نماز کے بعد سوئے نہیں بلکہ باتیں کر رہے تھے ۔ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور پھر اچانک ہمیں لگا کہ ہمارا گھر ہل رہا ہے ہم نے سیڑھیوں کی طرف جانے کی کوشش کی تو چھت کا کچھ حصہ ٹوٹ کر سیڑھیوں کو بلاک کر گیا ہم واپس پلٹ کر بھاگے تو باقی کی چھت لگا کہ ہمارے اوپر آکر گر جائے گی ۔ میں نے آیتہ کریمہ کا ورد لاشعوری طور پر کرنا شروع کر دیا اور پھر اچانک لگا کہ چھت کو کسی نے الٹ کر پیچھے والے نالے میں پھینک دیا ہو ۔ ہمارا گھر چونکہ کافی پرانا بنا ہوا تھا اس لیے ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ ہمارے گھر کے ساتھ ہی ہوا ہے ۔ تیسری منزل کی چھت چونکہ گر چکی تھی اس لئے ہم نے جب جھانک کر دیکھا تو کمرے کی اونچائی زمین کے برابر ہو چکی تھی ۔ ہم اپنے اوپر سے گرد جھاڑتے ہوئے باہر نکل آئے ۔ جب اردگرد نظر ڈالی تو معلوم ہواکہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے کوئی گھر نہ بچا تھا ۔ میرا بھائی گھر کی نچلی منزل پر سو رہا تھا لیکن اس کی بھی کوئی خبر نہ تھی ۔ ہم لوگوں کے پاس سر ڈھانکنے کو کوئی چادر نہیں تھی ۔ گاؤں کے وہ لوگ جو بچ گئے تھے یا زخمی تھے انہوں نے گھروں کو کھود کر کپڑے نکالے اور ہمیں اوڑھنے کے لئے دئیے ۔ پورے گاؤں کی کچھ عجیب حالت تھی کوئی گھر سلامت نہ تھا ۔ ہم سب روزے سے تھے ۔ لیکن شام تک کوئی امداد نہ پہنچنے کیوجہ سے لوگوں نے جہاں جہاں دکانیں تھیں وہاں کی زمین کو کھودا اور پھر اشیاء خوردونوش کا انتظام کیا ۔ ہم لوگوں کا دھیان مسلسل اپنے بھائی کی طرف تھا جو نچلی منزل میں پھنسا ہوا تھا ۔ تین منزلہ گھر زمین میں ایسے دھنس گیا تھا جیسے کوئی سوئچ کسی ساکٹ میں بآسانی چلا جاتا ہے ۔ کبھی زندگی میں سوچا بھی نہ تھا کہ ایسے ناقابل یقین اور عبرت انگیز مناظر دیکھنے پڑیں گے ۔
دن پر دن گزرے اور حکومت کی کوئی مدد ہم تک نہ پہنچی ۔ گاؤں کے لوگوں کی مدد سے کسی نہ کسی طرح ہم نے اپنے گھر کی دوسری منزل کی چھت جو کہ تیسری منزل کا فرش بھی تھا ہٹائی اور اسی طرح کرتے کرتے سات دن لگ گئے اور بمشکل ہم نچلی منزل تک پہنچے بارش ہو جانے کے باعث وہاں پانی موجود تھا اور میرا بھائی مردہ حالت میں پڑا ہوا تھا ۔ اس کے جسم پر ہلکی ہلکی سوجن آگئی تھی نامعلوم کب حالات سے لڑتے ہوئے اس نے جان دی تھی ۔ اس کا بستر اور کمبل اپنی جگہ تھا اور وہ کمرے سے باہر نچلی منزل کے دالان میں پڑا ہوا تھا ۔ ہمارے رشتہ دار راوالپنڈی سے کسی نہ کسی طرح چکار پہنچے ۔ تمام راستے مسدود تھے ۔ زلزلے کی وجہ سے جہاں پہاڑ تھے وہاں جھیلیں بن گئیں تھیں اور جہاں جھیلیں تھیں وہاں پہاڑ آگئے تھے ۔ راستوں کا بھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ حکومتی امداد مظفر آباد سے آگے کسی گاؤں تک نہ پہنچی تھی ۔ گھر ٹوٹ چکے تھے ۔ شدید سردی کے موسم میں ہمیں اﷲ کے سوا کسی کا آسرا نہ تھا ۔ پنڈی سے پہنچنے والے رشتے دار کسی نے کسی طرح کرکے ہمیں بھی پنڈی لے کر آگئے ۔ حالات کچھ نارمل ہوئے تو ہم واپس اپنے گاؤں گئے اور مکان کی تعمیر اپنی مدد آپ کے تحت کی ۔ حکومت نے صرف فی گھرانہ اسی ہزار کی مدد کا اعلان کیا تھا ۔ جو بعد میں ملے بھی ۔ گھر تو تعمیر ہو گیا لیکن کتنے ہی مہینے ہم سکون کی نیند نہ لے سکے ۔ آج بھی وہ مناظر نظروں میں گھومتے ہیں تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور چلی جاتی ہے ۔ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ یہ اﷲ کا عذاب تھا یا ہماری آزمائش ۔ بہرحال وقت تو گزر گیا لیکن یہ خلش تاحیات باقی رہے گی کہ اگر حکومت وقت کی امداد بروقت ہم تک پہنچ جاتی اور گھروں کی کھدائی کا کام جلد شروع ہو جاتا تو شاید ہمارا بھائی بچ جاتا ۔ والدہ کہتی ہیں کہ صبر کرو اس کی زندگی ہی اتنی تھی لیکن حکومت وقت کی بے حسی کو نظر انداز کرنا کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ "