حسن محمود جماعتی
محفلین
کسی دو بیویوں کا کیا خوب فائدہ بتایا ہے کہ ’بیوی اگر ایک ہو تو وہ آپ سے لڑتی ہے لیکن اگر دو ہوں تو آپس میں مقابلے بازی کرتے ہوئے آپ کے لئے لڑیں گی‘۔ پر کیا کیا جائے، یہاں تو مرد حضرات ایک شادی کے بندھن میں بندھنے سے بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اسی کرہ ارض پر جب ہم نے 92 سال کی عمر میں اور 107 شادیاں کرنے کے بعد بھی مزید شادیوں کا ارادہ رکھنے والے نائیجیریا کے محمد بیلو ابوبکر کے بارے میں پڑھا تو آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔
یعنی بیگمات کی تعداد اتنی کہ مردوں کو حسد ہونے لگے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ شادیوں کی یہ تعداد تو خیر بہت زیادہ ہے۔ اس حساب سے بھی کہ ہمارے یہاں قانونی اور مذہبی طور پر صرف چار شادیوں کی اجازت ہے۔ ارے آپ ’’صرف‘‘ پر حیران نہ ہوں۔ یہ تو ہم نے محمد بیلو ابوبکر کی تعداد ازدواج کو دیکھتے ہوئے لکھا ہے۔ ورنہ حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ (کسی شوہر کے بقول) ایک آدمی کے لئے ایک شادی کرلینا اور ایک بیوی کو بھگتنا ہی جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ مگر پاکستانی مردوں کو محمد بیلو ابوبکر سے کچھ سبق تو سیکھنا چاہیئے، جو اتنی کثیر تعداد میں بیویوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم نے بھی کہیں پڑھا تھا، ’’زندگی میں ہر مرد کے دل میں کم سے کم ایک بار دوسری شادی کی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے۔‘‘ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ نکاحِ ثانی کا ارمان تو ہر آدمی کے دل میں ہی ہوتا ہے لیکن ناقابل تردید وجوہات کی بنا پر وہ اسے دل میں پوشیدہ رکھے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
سب سے بڑا سبب جو مرد حضرات اس حسرت کا بتاتے ہیں۔ وہ ان کی پہلی بیوی کی شدید ناراضگی اور خانگی انتشار کا ڈر ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے، وہ ٹھیک کہتے ہوں۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ بھائی ہم ایک سے زیادہ شادیوں کے اخراجات بھی تو نہیں اٹھاسکتے۔ سارا ملبہ بے چاری خواتین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بھلا بتائیے! خواتین کے مزاج میں حد درجہ حساسیت اور جلن پیدا کرنے والے بھی تو یہی موصوف ہیں ناں۔ اگر مرد توازن اور برابری کا رویہ اختیار نہیں کریں گے تو لازمی طور پر بیویوں کے درمیان رقابت اور جلن کا جذبہ ہی پیدا ہوگا۔
تحقیق کے مطابق شوہر کی ایک سے زیادہ شادیوں کی وجہ سے خواتین کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ یعنی وہ ذہنی تناؤ، حسد، جلن اور اداسی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سوکنوں اور ان کے بچوں کی آپس کی لڑائیاں ماحول کو کشیدہ ہی رکھتی ہیں۔ ڈپریشن، غصہ، ہسٹریا جیسے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی بچوں میں بھی غصہ، نظر اندازی، محبت اور توجہ میں کمی کے احساسات پروان چڑھتے ہیں کیونکہ زیادہ تر مرد اس معاملے میں انصاف نہیں کرتے۔ ان کے پاس وسائل کی بھی کمی ہوتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھر چلا سکیں۔ جس سے خواتین اور ان کے بچوں کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
لیکن ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں، ہمارے معاشرے میں رشتوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ مختلف عوامل کی بناء پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ کماؤ اور نیک مرد اقلیت میں پائے جاتے ہیں اور اپنی اکلوتی ہونے والی بیوی کے طور پر شکل صورت، تعلیم، اخلاق غرض ہر لحاظ سے پرفیکٹ لڑکی چاہتے ہیں (کہ ایک ہی بار تو شادی ہونی ہے) اور ہاں ان کی ایک ڈیمانڈ کم عمر لڑکی بھی ہوتی ہے۔ بتائیے پھر تھوڑی سی بھی زیادہ عمر والیاں کہاں جائیں؟ اس تلاش میں بعض اوقات خود لڑکے بھی عمر رسیدگی تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن ڈیمانڈز برقرار ہی رہتی ہیں۔
اب اس صورت میں ہمارے ہاں اچھے رشتوں کا جو بحران پیدا ہوا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے انتظار میں بیٹیوں کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے تو دوسری طرف لڑکوں کے سر سے بال ہی گر جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال (یعنی کم مردوں اور زیادہ خواتین) میں ایک شادی کے اصول پر کاربند رہنے سے معاشرے میں لڑکیوں کی بڑی تعداد شادی سے محروم ہی رہ جائے گی۔ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی ہر لڑکی کا حق ہے، لہذا اگر کوئی آدمی اتنی استطاعت رکھتا ہو کہ انصاف کے ساتھ ایک سے زیادہ گھرانوں کی سرپرستی کرسکے تو اسے یہ بھلائی کا کام کرلینا چاہیئے اور اگر آدمی بیویوں اور بچوں کے درمیان ہر معاملے میں عدل اختیار کریں گے تو یقیناً عورتوں کے تحفظات بھی کم ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے ایسا وقت بھی آجائے کہ سوکنیں بہنوں کی طرح پیار محبت سے رہنے لگیں (شاید)۔
اللہ نے مردوں کو چار نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ حکم 14 سو سال پہلے بھی ایک معاشرتی مسئلے کے حل کے طور پر آیا تھا۔ جنگوں میں مرد بڑی تعداد میں مرچکے تھے۔ اس ایمرجنسی کی حالت میں بیواؤں اور یتیم بچوں کی کفالت و سرپرستی کے لئے زیادہ شادیوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس طرح کی ضروریات معاشروں میں مختلف صورتوں میں موجود رہتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں اب بیاہ رچانا، چاہے لڑکی کا ہو یا لڑکے کا، ایک بڑے مسئلہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے یہاں معاشرتی بے راہ روی میں مستقل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس کا ایک سبب صحیح وقت پر شادیاں نہ ہونا اور عمر کا تجاوز کرجانا ہے اور لڑکیوں کی عمر زیادہ ہوجائے تو رشتوں میں پریشانیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ جس طرح کا ہے اس میں لڑکیاں ذہنی دباؤ، احساس کمتری، تنہائی کا شکار ہوجاتی ہیں اور خود کو اپنے ہی ماں باپ کے گھر میں بوجھ تصور کرنے لگتی ہیں۔ غربت بھی اس ضمن میں ایک نہایت منفی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی صورت میں اُن خواتین کو سپورٹ کرنے کے لئے ایک مرد سرپرست مل سکتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دوسری تیسری یا چوتھی شادی کرنے میں بنیادی شرط عدل و انصاف روا رکھنے کی ہے۔ لیکن ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کم ہی پائے جاتے ہیں جو زیر کفالت لوگوں پر زیادتی کا رجحان نہیں رکھتے بلکہ عدل و توازن کو عملی طور پر اپناتے ہوں۔ لہذا مجموعی طور پر معاشرے کی تعلیم، تربیت اور اصلاح کا کام بھی ہونا چاہیئے۔
یہاں اپنے شوہر کے بارے میں ایک حساس بیوی کا سوال ہے کہ کیا خواتین کی صرف مالی ضروریا ت ہوتی ہیں، جن کو پورا کرنے سے ذمہ داری ادا ہوجاتی ہے؟ زیادہ شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حسد، ڈپریشن اور نظر اندازی جیسے رویے بھی تو پیدا ہوتے ہیں، اُن کا کیا؟ تو عرض یہ ہے کہ نفسیاتی، ذہنی مسائل، بہرحال جسمانی ضرورتوں کے برابر کی سطح پر نہیں پہنچتے۔ ایک خاتون جس کے لئے اس مہنگائی کے دور میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو، اس سے نکاح کرکے باعزت اور قانونی طور پر سہارا دینا بلاشبہ کئی معاشرتی مسائل کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔
جہاں تک عدم برداشت، جلن، نظرانداز کئے جانے کے ان رویوں کی بات ہے، تو یہ عمومی طور پر ہمارے مزاج میں رچے بسے ہیں اور ایک شادی کی صورت بھی زندگیوں کو تلخ بنائے ہوتے ہیں، درحقیقت اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے برداشت اور انصاف کی روش نہ صرف ایک سے زیادہ شادیوں کے معاملے میں اپنانی ضروری ہے، بلکہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی۔
ماخذ
یعنی بیگمات کی تعداد اتنی کہ مردوں کو حسد ہونے لگے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ شادیوں کی یہ تعداد تو خیر بہت زیادہ ہے۔ اس حساب سے بھی کہ ہمارے یہاں قانونی اور مذہبی طور پر صرف چار شادیوں کی اجازت ہے۔ ارے آپ ’’صرف‘‘ پر حیران نہ ہوں۔ یہ تو ہم نے محمد بیلو ابوبکر کی تعداد ازدواج کو دیکھتے ہوئے لکھا ہے۔ ورنہ حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ (کسی شوہر کے بقول) ایک آدمی کے لئے ایک شادی کرلینا اور ایک بیوی کو بھگتنا ہی جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ مگر پاکستانی مردوں کو محمد بیلو ابوبکر سے کچھ سبق تو سیکھنا چاہیئے، جو اتنی کثیر تعداد میں بیویوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم نے بھی کہیں پڑھا تھا، ’’زندگی میں ہر مرد کے دل میں کم سے کم ایک بار دوسری شادی کی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے۔‘‘ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ نکاحِ ثانی کا ارمان تو ہر آدمی کے دل میں ہی ہوتا ہے لیکن ناقابل تردید وجوہات کی بنا پر وہ اسے دل میں پوشیدہ رکھے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
سب سے بڑا سبب جو مرد حضرات اس حسرت کا بتاتے ہیں۔ وہ ان کی پہلی بیوی کی شدید ناراضگی اور خانگی انتشار کا ڈر ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے، وہ ٹھیک کہتے ہوں۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ بھائی ہم ایک سے زیادہ شادیوں کے اخراجات بھی تو نہیں اٹھاسکتے۔ سارا ملبہ بے چاری خواتین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بھلا بتائیے! خواتین کے مزاج میں حد درجہ حساسیت اور جلن پیدا کرنے والے بھی تو یہی موصوف ہیں ناں۔ اگر مرد توازن اور برابری کا رویہ اختیار نہیں کریں گے تو لازمی طور پر بیویوں کے درمیان رقابت اور جلن کا جذبہ ہی پیدا ہوگا۔
تحقیق کے مطابق شوہر کی ایک سے زیادہ شادیوں کی وجہ سے خواتین کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ یعنی وہ ذہنی تناؤ، حسد، جلن اور اداسی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سوکنوں اور ان کے بچوں کی آپس کی لڑائیاں ماحول کو کشیدہ ہی رکھتی ہیں۔ ڈپریشن، غصہ، ہسٹریا جیسے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی بچوں میں بھی غصہ، نظر اندازی، محبت اور توجہ میں کمی کے احساسات پروان چڑھتے ہیں کیونکہ زیادہ تر مرد اس معاملے میں انصاف نہیں کرتے۔ ان کے پاس وسائل کی بھی کمی ہوتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھر چلا سکیں۔ جس سے خواتین اور ان کے بچوں کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
لیکن ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں، ہمارے معاشرے میں رشتوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ مختلف عوامل کی بناء پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ کماؤ اور نیک مرد اقلیت میں پائے جاتے ہیں اور اپنی اکلوتی ہونے والی بیوی کے طور پر شکل صورت، تعلیم، اخلاق غرض ہر لحاظ سے پرفیکٹ لڑکی چاہتے ہیں (کہ ایک ہی بار تو شادی ہونی ہے) اور ہاں ان کی ایک ڈیمانڈ کم عمر لڑکی بھی ہوتی ہے۔ بتائیے پھر تھوڑی سی بھی زیادہ عمر والیاں کہاں جائیں؟ اس تلاش میں بعض اوقات خود لڑکے بھی عمر رسیدگی تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن ڈیمانڈز برقرار ہی رہتی ہیں۔
اب اس صورت میں ہمارے ہاں اچھے رشتوں کا جو بحران پیدا ہوا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے انتظار میں بیٹیوں کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے تو دوسری طرف لڑکوں کے سر سے بال ہی گر جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال (یعنی کم مردوں اور زیادہ خواتین) میں ایک شادی کے اصول پر کاربند رہنے سے معاشرے میں لڑکیوں کی بڑی تعداد شادی سے محروم ہی رہ جائے گی۔ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی ہر لڑکی کا حق ہے، لہذا اگر کوئی آدمی اتنی استطاعت رکھتا ہو کہ انصاف کے ساتھ ایک سے زیادہ گھرانوں کی سرپرستی کرسکے تو اسے یہ بھلائی کا کام کرلینا چاہیئے اور اگر آدمی بیویوں اور بچوں کے درمیان ہر معاملے میں عدل اختیار کریں گے تو یقیناً عورتوں کے تحفظات بھی کم ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے ایسا وقت بھی آجائے کہ سوکنیں بہنوں کی طرح پیار محبت سے رہنے لگیں (شاید)۔
اللہ نے مردوں کو چار نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ حکم 14 سو سال پہلے بھی ایک معاشرتی مسئلے کے حل کے طور پر آیا تھا۔ جنگوں میں مرد بڑی تعداد میں مرچکے تھے۔ اس ایمرجنسی کی حالت میں بیواؤں اور یتیم بچوں کی کفالت و سرپرستی کے لئے زیادہ شادیوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس طرح کی ضروریات معاشروں میں مختلف صورتوں میں موجود رہتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں اب بیاہ رچانا، چاہے لڑکی کا ہو یا لڑکے کا، ایک بڑے مسئلہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے یہاں معاشرتی بے راہ روی میں مستقل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس کا ایک سبب صحیح وقت پر شادیاں نہ ہونا اور عمر کا تجاوز کرجانا ہے اور لڑکیوں کی عمر زیادہ ہوجائے تو رشتوں میں پریشانیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ جس طرح کا ہے اس میں لڑکیاں ذہنی دباؤ، احساس کمتری، تنہائی کا شکار ہوجاتی ہیں اور خود کو اپنے ہی ماں باپ کے گھر میں بوجھ تصور کرنے لگتی ہیں۔ غربت بھی اس ضمن میں ایک نہایت منفی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی صورت میں اُن خواتین کو سپورٹ کرنے کے لئے ایک مرد سرپرست مل سکتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دوسری تیسری یا چوتھی شادی کرنے میں بنیادی شرط عدل و انصاف روا رکھنے کی ہے۔ لیکن ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کم ہی پائے جاتے ہیں جو زیر کفالت لوگوں پر زیادتی کا رجحان نہیں رکھتے بلکہ عدل و توازن کو عملی طور پر اپناتے ہوں۔ لہذا مجموعی طور پر معاشرے کی تعلیم، تربیت اور اصلاح کا کام بھی ہونا چاہیئے۔
یہاں اپنے شوہر کے بارے میں ایک حساس بیوی کا سوال ہے کہ کیا خواتین کی صرف مالی ضروریا ت ہوتی ہیں، جن کو پورا کرنے سے ذمہ داری ادا ہوجاتی ہے؟ زیادہ شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حسد، ڈپریشن اور نظر اندازی جیسے رویے بھی تو پیدا ہوتے ہیں، اُن کا کیا؟ تو عرض یہ ہے کہ نفسیاتی، ذہنی مسائل، بہرحال جسمانی ضرورتوں کے برابر کی سطح پر نہیں پہنچتے۔ ایک خاتون جس کے لئے اس مہنگائی کے دور میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو، اس سے نکاح کرکے باعزت اور قانونی طور پر سہارا دینا بلاشبہ کئی معاشرتی مسائل کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔
جہاں تک عدم برداشت، جلن، نظرانداز کئے جانے کے ان رویوں کی بات ہے، تو یہ عمومی طور پر ہمارے مزاج میں رچے بسے ہیں اور ایک شادی کی صورت بھی زندگیوں کو تلخ بنائے ہوتے ہیں، درحقیقت اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے برداشت اور انصاف کی روش نہ صرف ایک سے زیادہ شادیوں کے معاملے میں اپنانی ضروری ہے، بلکہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی۔
ماخذ