محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
غزل
پیر زادہ قاسم رضا صدیقی
ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رُت بتاگئی
پھر وہی صبح آئے گی، پھر وہی شام آگئی
میرے لہو میں جل اُٹھے اُتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوَا جِتنے دِیے بُجھاگئی
میں بھی بہ پاسِ دوستاں اپنے خِلاف ہوگیا
اب یہی رسمِ دوستی مجھ کو بھی راس آگئی
تُند ہَوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تَن سے کوئی قبا چھِنی سر سے کوئی رِدا گئی
تازہ بُریدہ شاخِ گُل تجھ کو تو ہوش ہی نہیں
دیکھ ترے قریب سے رقص کُناں صبا گئی
دِل زدگاں کے قافلے دُور نکل چُکے تمام
اُن کی تلاش میں نگاہ اب جو گئی تو کیا گئی
رنگ نہیں لُہو سہی رونقِ فصلِ جاں تو ہے
گُل نہ سہی مگر بہار زخم تو کچھ کھِلاگئی
آخرِ شب کی داستاں اور کریں بھی کیا بیاں
ایک ہی آہِ سرد تھی سارے دیے بُجھاگئی
پیر زادہ قاسم رضا صدیقی
ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رُت بتاگئی
پھر وہی صبح آئے گی، پھر وہی شام آگئی
میرے لہو میں جل اُٹھے اُتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوَا جِتنے دِیے بُجھاگئی
میں بھی بہ پاسِ دوستاں اپنے خِلاف ہوگیا
اب یہی رسمِ دوستی مجھ کو بھی راس آگئی
تُند ہَوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تَن سے کوئی قبا چھِنی سر سے کوئی رِدا گئی
تازہ بُریدہ شاخِ گُل تجھ کو تو ہوش ہی نہیں
دیکھ ترے قریب سے رقص کُناں صبا گئی
دِل زدگاں کے قافلے دُور نکل چُکے تمام
اُن کی تلاش میں نگاہ اب جو گئی تو کیا گئی
رنگ نہیں لُہو سہی رونقِ فصلِ جاں تو ہے
گُل نہ سہی مگر بہار زخم تو کچھ کھِلاگئی
آخرِ شب کی داستاں اور کریں بھی کیا بیاں
ایک ہی آہِ سرد تھی سارے دیے بُجھاگئی