پیرزادہ قاسم ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رُت بتاگئی :: پیر زادہ قاسم

غزل
پیر زادہ قاسم رضا صدیقی

ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رُت بتاگئی
پھر وہی صبح آئے گی، پھر وہی شام آگئی

میرے لہو میں جل اُٹھے اُتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوَا جِتنے دِیے بُجھاگئی

میں بھی بہ پاسِ دوستاں اپنے خِلاف ہوگیا
اب یہی رسمِ دوستی مجھ کو بھی راس آگئی

تُند ہَوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تَن سے کوئی قبا چھِنی سر سے کوئی رِدا گئی

تازہ بُریدہ شاخِ گُل تجھ کو تو ہوش ہی نہیں
دیکھ ترے قریب سے رقص کُناں صبا گئی

دِل زدگاں کے قافلے دُور نکل چُکے تمام
اُن کی تلاش میں نگاہ اب جو گئی تو کیا گئی

رنگ نہیں لُہو سہی رونقِ فصلِ جاں تو ہے
گُل نہ سہی مگر بہار زخم تو کچھ کھِلاگئی

آخرِ شب کی داستاں اور کریں بھی کیا بیاں
ایک ہی آہِ سرد تھی سارے دیے بُجھاگئی

 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اچھا انتخاب ہے خلیل بھائی ! غزل لگانے کا بہت شکریہ!
پیرزاد قاسم میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔ ان کی غزلیں ان کے مخصوص ترنم میں اور مزا دیتی ہیں ۔ ان کی ترنم پڑھی ہوئی یہ غزل میرے پاس ایک سی ڈی میں ہے اور گاہے بگاہے سنتا رہتا ہوں۔

ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رُت بتاگئی
پھر وہی صبح آئے گی، پھر وہی شام آگئی

میرے لہو میں جل اُٹھے اُتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوا جتنے دِیے بجھاگئی

میں بھی بہ پاسِ دوستاں اپنے خِلاف ہوگیا
اب یہی رسمِ دوستی مجھ کو بھی راس آگئی

تُند ہوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تن سے کوئی قبا چھنی سر سے کوئی رِدا گئی

تازہ بُریدہ شاخِ گُل تجھ کو تو ہوش ہی نہیں
دیکھ ترے قریب سے رقص کناں صبا گئی

واہ! کیا بات ہے !
 
بہت اچھا انتخاب ہے خلیل بھائی ! غزل لگانے کا بہت شکریہ!
پیرزاد قاسم میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔ ان کی غزلیں ان کے مخصوص ترنم میں اور مزا دیتی ہیں ۔ ان کی ترنم پڑھی ہوئی یہ غزل میرے پاس ایک سی ڈی میں ہے اور گاہے بگاہے سنتا رہتا ہوں۔

ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رُت بتاگئی
پھر وہی صبح آئے گی، پھر وہی شام آگئی

میرے لہو میں جل اُٹھے اُتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوا جتنے دِیے بجھاگئی

میں بھی بہ پاسِ دوستاں اپنے خِلاف ہوگیا
اب یہی رسمِ دوستی مجھ کو بھی راس آگئی

تُند ہوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تن سے کوئی قبا چھنی سر سے کوئی رِدا گئی

تازہ بُریدہ شاخِ گُل تجھ کو تو ہوش ہی نہیں
دیکھ ترے قریب سے رقص کناں صبا گئی

واہ! کیا بات ہے !
جزاک اللہ ظہیراحمدظہیر بھائی۔ خوش رہیے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اپنے لہو سے بجھا دیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا
فاخر بھائی اس مشہور غزل کا مطلع یوں نہیں ہے جیسے آپ نے لکھا ۔ درست شعر یوں ہے:
خون سے جب جلادیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا

اب آپ نے یہ غزل یاد دلاہی دی ہے تو پوری غزل ذیل میں لکھ دیتا ہوں ۔

خون سے جب جلا دیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا

اپنےتوعہدِشوق کےمرحلےسب عزیز تھے
ہم کو وصال سا لگا ایک دیا بجھا ہوا

ایک ہی داستانِ شب ، ایک ہی سلسلہ توہے
ایک دیا جلا ہوا ، ایک دیا بجھا ہوا

شعلہ ہوا نژاد تھا پھربھی ہواکے ہاتھ نے
بس یہی فیصلہ لکھا ، ایک دیا بجھا ہوا

محفلِ رنگ و نورکی پھرمجھے یادآگئی
پھر مجھے یاد آگیا ایک دیا بجھا ہوا

مجھ کو نشاط سے فزوں رسمِ وفاعزیزہے
میرا رفیق شب رہا ایک دیا بجھا ہوا

دردکی کائنات میں مجھ سےبھی روشنی رہی
ویسے میری بساط کیا ایک دیا بجھا ہوا

سب مری روشنئ جاں حرفِ سخن میں ڈھل گئی
اور میں جیسے رہ گیا ایک دیا بجھا ہوا

پیرزادہ قاسم
 

فاخر رضا

محفلین
فاخر بھائی اس مشہور غزل کا مطلع یوں نہیں ہے جیسے آپ نے لکھا ۔ درست شعر یوں ہے:
خون سے جب جلادیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا

اب آپ نے یہ غزل یاد دلاہی دی ہے تو پوری غزل ذیل میں لکھ دیتا ہوں ۔

خون سے جب جلا دیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا

اپنےتوعہدِشوق کےمرحلےسب عزیز تھے
ہم کو وصال سا لگا ایک دیا بجھا ہوا

ایک ہی داستانِ شب ، ایک ہی سلسلہ توہے
ایک دیا جلا ہوا ، ایک دیا بجھا ہوا

شعلہ ہوا نژاد تھا پھربھی ہواکے ہاتھ نے
بس یہی فیصلہ لکھا ، ایک دیا بجھا ہوا

محفلِ رنگ و نورکی پھرمجھے یادآگئی
پھر مجھے یاد آگیا ایک دیا بجھا ہوا

مجھ کو نشاط سے فزوں رسمِ وفاعزیزہے
میرا رفیق شب رہا ایک دیا بجھا ہوا

دردکی کائنات میں مجھ سےبھی روشنی رہی
ویسے میری بساط کیا ایک دیا بجھا ہوا

سب مری روشنئ جاں حرفِ سخن میں ڈھل گئی
اور میں جیسے رہ گیا ایک دیا بجھا ہوا

پیرزادہ قاسم
السلام علیکم
بہت شکریہ بھائی
اب تدوین ممکن نہیں تھی لہٰذا آپ کا مراسلہ اس کمی کو پورا کردیگا
 
بہت اچھا انتخاب ہے خلیل بھائی ! غزل لگانے کا بہت شکریہ!
پیرزاد قاسم میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔ ان کی غزلیں ان کے مخصوص ترنم میں اور مزا دیتی ہیں ۔ ان کی ترنم پڑھی ہوئی یہ غزل میرے پاس ایک سی ڈی میں ہے اور گاہے بگاہے سنتا رہتا ہوں۔

ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رُت بتاگئی
پھر وہی صبح آئے گی، پھر وہی شام آگئی

میرے لہو میں جل اُٹھے اُتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوا جتنے دِیے بجھاگئی

میں بھی بہ پاسِ دوستاں اپنے خِلاف ہوگیا
اب یہی رسمِ دوستی مجھ کو بھی راس آگئی

تُند ہوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تن سے کوئی قبا چھنی سر سے کوئی رِدا گئی

تازہ بُریدہ شاخِ گُل تجھ کو تو ہوش ہی نہیں
دیکھ ترے قریب سے رقص کناں صبا گئی

واہ! کیا بات ہے !
بہت خوب جناب۔
 
Top