وقار علی روغانی
محفلین
براہِ کرم سودا کے اِس شعر کی تشریح کردیں:
سودا نگاہِ دیدہِ تحقیق کے حضور
جلوہ ہر ایک ذرے میں ہے آفتاب کا
میرزا رفیع سودا
سودا نگاہِ دیدہِ تحقیق کے حضور
جلوہ ہر ایک ذرے میں ہے آفتاب کا
میرزا رفیع سودا
نگاہ اور دیدہ دونوں ’’ہم معنی‘‘ الفاظ ہیں۔ دیدہ آنکھ کو بھی کہتے ہیں اور انگلش والے ’’سین‘‘ (بمعنی دیکھی گئی) کو بھی کہتے ہیں۔ نگاہ یقینا" نظر ہے۔ یہاں شاعر نے غالبا" اپنی بات پر ’’زور‘‘ دینے کے لئے (اور شاید مصرع کا وزن پورا کرنے کے لئے) ایک ساتھ دونوں الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہین نا کہ ’’گورا چٹا ‘‘ یا ’’کالا سیاہ‘‘ یعنی بہت زیادہ گورا اور بہت زیادہ کالا۔بجا فرمایا آپ نے ۔ اشکال کافی حد تک دور ہوگیا لیکن یہ نگاہ اور دیدہ کو یکجا کرنے سے کیا مراد ہے یہاں؟ کیا نگاہ سے مراد نظر اور دیدہ سے مراد آنکھ ہے؟
وقار صاحب اردو محفل میں صمیم قلب سے خوش آمدید آپ کی مراسلت سے جی خوش ہوا، شعر درست کردیا گیا ہے ( آپ تدوین کا بٹن دبا کر اپنا مراسلہ مدون کرسکتے ہیں) ،آپ سب کی مدد کا بہت بہت شکریہ ۔ آصف علی صاحب یہ میری غلطی ہوگی کہ ایک کی جگہ اک لکھا ہے ۔ یقینا اُردو محفل ایسی جگہ ہے جہاں بندہ اردو سیکھنے کے لئے کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی رجوع کرسکتا ہے ۔
میرا نام سید عاطف علی ہے ۔ اور یہاں کے احباب مجھے آصف علی کہہ کر مخاطب کررہے ہیں ۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟؟؟؟آپ سب کی مدد کا بہت بہت شکریہ ۔ آصف علی صاحب یہ میری غلطی ہوگی کہ ایک کی جگہ اک لکھا ہے ۔ یقینا اُردو محفل ایسی جگہ ہے جہاں بندہ اردو سیکھنے کے لئے کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی رجوع کرسکتا ہے ۔
یہ معمولی قسم کی فرو گزاشتیں ہیں وقار علی صاحب۔آپ زیادہ محسوس کر گئے -اپنا دل ذرا بڑا رکھیں ( اس سے آپ کو زندگی میں بہت سے فوائد حاصل ہوں گے ) اور معافی کی ضرورت ہر گز نہیں ۔ میں نے آپ کو کوئی سزا تو نہیں سنادی۔ حتی ٰ کہ آپ کا نام تک نہیں لیا بلکہ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ایسا کئی بار (دیگر ) احباب کی جانب سے (بھی) ہوا ہے ۔اس لیے مجھ پر شائبہ گذرا کہ اس کا باعث کوئی تکنیکی خامی تو نہیں ۔میں نے تدوین کرلی ہے جنابِ سید ۔ آپ اسے میری نظر کی "کمزوری" کہہ سکتے ہیں ۔ اب تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ایک غلطی تو ہر ایک کو معاف ہے کیونکہ اس ایک دھاگے میں کافی ساری غلطیاں کرڈالی ہیں ۔ سب سے معذرت ؛ اُمید ہے معاف فرمائیں گے ۔ دراصل انگریزی الفاظ دیکھ کر لگتا ہے کہ "آصف" ہے ؛ اگر ناگوار نہ ہو اور ممکن ہو تو اپنا نام اُردو میں لکھ لیجئے ، شائد اس قسم کی "گستاخیاں" کم ہوجائیں۔
خوش آمدید وقار روغانی، آپ کے تعارف کا منتظر ہوں۔ یہاں میں آپ سے متفق ہوں، شاعر یقیناً آنکھ کے دیکھے جانے کے عمل کو دیدے کی نگاہ کہہ رہا ہے۔ باقی تشریح تو خلیل نے خوب کی ہے۔ اصل معنی تو فی بطنِ شاعر!!!بجا فرمایا آپ نے ۔ اشکال کافی حد تک دور ہوگیا لیکن یہ نگاہ اور دیدہ کو یکجا کرنے سے کیا مراد ہے یہاں؟ کیا نگاہ سے مراد نظر اور دیدہ سے مراد آنکھ ہے؟
دوسرے یہ کہ میں نے غلطی سے اپنا نام شروع ہی انگلش میں لکھ دیا تھا ۔ اور ایک مرتبہ کوشش بھی کی کہ نام اردو میں لکھ لوں لیکن ایڈٹ کرنے کا کئی مناسب آپشن نہ مل سکا حتیٰ کہ سید کا ایس کیپیٹل بھی نہ کر سکا ۔اگر آپ مساعدت فرمائیں تو نوازش ہو گی۔شکریہ
جناب ابن سعید صاحب ۔ اگر میرا نام اس طرح ہو ۔ سید عاطف علی ۔ تو میں خوب سپاس گزار ہوں ۔ جیسا کہ میں نے اوپر کے مراسلے میں تحریر کیا ۔ الف عین صاحب کا بھی بہت شکریہآپ یہاں اپنے نام کی مکمل ہجے لکھ دیں جیسی آپ تبدیدیلی چاہتے ہوں۔
جناب ابن سعید صاحب ۔ اگر میرا نام اس طرح ہو ۔ سید عاطف علی ۔ تو میں خوب سپاس گزار ہوں ۔ جیسا کہ میں نے اوپر کے مراسلے میں تحریر کیا ۔ الف عین صاحب کا بھی بہت شکریہ
مستعد کار گزاری کا سنہری شکریہ ۔ ابھیابھی داہنی طرف والے گوشے میں جو نوٹیفیکیشن کی ہلکی سی جھلک آئی تو میں یہی سمجھاتھا ۔ پھر شکریہ ۔لیکن اگر سہولت ہو تو یہ اختیار کھلا چھوڑنا بہتر نہ ہو گا ؟امید ہے کہ اب آپ کا نام آپ کی خواہش کے مطابق ہوگا۔ لاگ آؤٹ کر کے دوبارہ نئے نام سے داخل ہوں۔ اگر مشکل درپیش ہو تو رابطہ کیجئے گا۔
مستعد کار گزاری کا سنہری شکریہ ۔ ابھیابھی داہنی طرف والے گوشے میں جو نوٹیفیکیشن کی ہلکی سی جھلک آئی تو میں یہی سمجھاتھا ۔ پھر شکریہ ۔لیکن اگر سہولت ہو تو یہ اختیار کھلا چھوڑنا بہتر نہ ہو گا ؟
بجا ارشاد فرمایا۔ سائنس کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے احقر کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ ایٹمی اسٹرکچر بہت بعد کی دریافت ہے۔ انسانی قدم چاند کی سرزمین پر بہت بعد میں پہنچے۔ عہد جدید کی بہت سی ایجادات و دریافت بہت بعد کی چیز ہے۔ مگر ہمارے شعراء اور فکشن رائٹرز نے اپنی تحریروں میں ان کی طرف اشارہ صدیوں پہلے کردیا تھا۔ غالبا" نہیں بلکہ یقینا" سائنسدانوں کی بیشتر ایجادات کا سہرا ادباء و شعراء کی تخلیقی تصورات کوجاتا ہے۔ وہ اپنے ’’الہامی خیالات‘‘ کے ذریعہ انسانیت کوراستہ دکھلاتے ہین کہ اِس جانب سفر کرکے آپ اُس منزل تک حقیقتا" پہنچ سکتے ہیں، جہاں ہم عالم تصور اور عالم خواب میں پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔دوسرے مصرع کا وزن ذرا ڈگمگا رہا ہے۔۔۔غالبا" اس طرح صحیح ہو گا
" جلوہ ہر ایک ذرے میں ہے آفتاب کا "
شعر کی توضیح تو یوسف ثانی صآحب نے خوب کی ہے۔ لیکن ایک بات قابل ذکر ہے اس (سودا کے) وقت میں فزکس نے غالبا" کوانٹم فزکس کے وہ جلوے نہ دیکھے تھے جو موصوف نے تحریر فرمائے ہیں ۔ تاہم سودا کی فکری گہرائی کو ایسی مثال سے خوب داد ملتی ہے ۔اور تشریح بھی خوب ہوجاتی ہے۔۔۔
نیل بوھر اور ردر فورڈ کے اٹامک ماڈلز غالباً انیس سو گیارہ کے بعد ماڈرن فزکس کی افق پر ظہور پذیر ہوئے۔
اس سے پہلے کہ ساتھ کوئی "زرداری" کا اضافہ کرےمیرا نام سید عاطف علی ہے ۔ اور یہاں کے احباب مجھے آصف علی کہہ کر مخاطب کررہے ہیں ۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟؟؟؟