ایک شعر از میرزا رفیع سودا تشریح و توضیح درکار ہے

یوسف-2

محفلین
یہ ’’ایٹمی تھیوری ‘‘ پر مبنی شعر ہے۔ عام لوگوں کی نگاہ میں تو ’’ایٹم‘‘ ایک ’’ذرہ‘‘ ہی ہے۔ لیکن محققین کی نگاہوں (سائنسدانوں) سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ایک ایٹم کے اندر بھی ’’سولر سسٹم ‘‘ کا سا ’’جلوہ‘‘ موجود ہوتا ہے۔ سورج ایک مرکز کی مانند ہےجس کے گرد بہت سے سیارے گھومتے ہیں، جس سے زمین پر دن رات اور موسم وجود مین آتے ہیں۔ اسی طرح ایک سب سے چھوٹے ذرے یعنی ایٹم کے مرکزے کے گرد الیکٹرون گردش کرتے ہیں۔ انہی الیکٹرون کے ایک مدار سے دوسرے مدار مین منتقلی سے کیمیاوی تعاملات وقوع پذیر ہوتے ہیں، جس سے ہماری دنیا کے بے شمارکام سر انجام پاتے ہیں۔
یعنی تحقیق کی نگاہ رکھنے والے ایک معمولی ذرہ کی اہمیت سے بھی بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ ایک بے جان ذرہ کے اندر بھی جھانک لیتے ہیں اور ایک معمولی بیج کے اندر بھی ایک جنگل دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ ایک بیج سے ایک پیڑ پودا اور درخت نمو پاتا ہے، جس سے مزید سینکڑوں ہزاروں پھلل اور بیج پیدا ہوتے ہیں۔ اور آگے پھر ہر بیج ایک ایک درخت بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
 
بجا فرمایا آپ نے ۔ اشکال کافی حد تک دور ہوگیا لیکن یہ نگاہ اور دیدہ کو یکجا کرنے سے کیا مراد ہے یہاں؟ کیا نگاہ سے مراد نظر اور دیدہ سے مراد آنکھ ہے؟
 

یوسف-2

محفلین
بجا فرمایا آپ نے ۔ اشکال کافی حد تک دور ہوگیا لیکن یہ نگاہ اور دیدہ کو یکجا کرنے سے کیا مراد ہے یہاں؟ کیا نگاہ سے مراد نظر اور دیدہ سے مراد آنکھ ہے؟
نگاہ اور دیدہ دونوں ’’ہم معنی‘‘ الفاظ ہیں۔ دیدہ آنکھ کو بھی کہتے ہیں اور انگلش والے ’’سین‘‘ (بمعنی دیکھی گئی) کو بھی کہتے ہیں۔ نگاہ یقینا" نظر ہے۔ یہاں شاعر نے غالبا" اپنی بات پر ’’زور‘‘ دینے کے لئے (اور شاید مصرع کا وزن پورا کرنے کے لئے) ایک ساتھ دونوں الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہین نا کہ ’’گورا چٹا ‘‘ یا ’’کالا سیاہ‘‘ یعنی بہت زیادہ گورا اور بہت زیادہ کالا۔

یعنی عام دیکھنے والی آنکھ سے نہیں بلکہ بہت گہرائی و گیرائی سے دیکھنے والی آنکھ اور نظر اور وہ بھی اگر ’’تحقیق‘‘ کرتے ہوئے دیکھے تب۔۔۔۔
امید ہے کہ بات واضح ہوگئی ہوگی۔ اگر کوئی میری اس تشریح میں مزید اضافہ یا تصحیح کرسکے تو ممنون ہوں گا کہ شاعری میرا شعبہ نہیں ہے۔ بس ’’اندازے‘‘ سے یہ سب کچھ لکھ دیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دوسرے مصرع کا وزن ذرا ڈگمگا رہا ہے۔۔۔غالبا" اس طرح صحیح ہو گا
" جلوہ ہر ایک ذرے میں ہے آفتاب کا "
شعر کی توضیح تو یوسف ثانی صآحب نے خوب کی ہے۔ لیکن ایک بات قابل ذکر ہے اس (سودا کے) وقت میں فزکس نے غالبا" کوانٹم فزکس کے وہ جلوے نہ دیکھے تھے جو موصوف نے تحریر فرمائے ہیں ۔ تاہم سودا کی فکری گہرائی کو ایسی مثال سے خوب داد ملتی ہے ۔اور تشریح بھی خوب ہوجاتی ہے۔۔۔
نیل بوھر اور ردر فورڈ کے اٹامک ماڈلز غالباً انیس سو گیارہ کے بعد ماڈرن فزکس کی افق پر ظہور پذیر ہوئے۔
 
آپ سب کی مدد کا بہت بہت شکریہ ۔ عاطف علی صاحب یہ میری غلطی ہوگی کہ ایک کی جگہ اک لکھا ہے ۔ یقینا اُردو محفل ایسی جگہ ہے جہاں بندہ اردو سیکھنے کے لئے کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی رجوع کرسکتا ہے ۔
 

مغزل

محفلین
آپ سب کی مدد کا بہت بہت شکریہ ۔ آصف علی صاحب یہ میری غلطی ہوگی کہ ایک کی جگہ اک لکھا ہے ۔ یقینا اُردو محفل ایسی جگہ ہے جہاں بندہ اردو سیکھنے کے لئے کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی رجوع کرسکتا ہے ۔
وقار صاحب اردو محفل میں صمیم قلب سے خوش آمدید آپ کی مراسلت سے جی خوش ہوا، شعر درست کردیا گیا ہے ( آپ تدوین کا بٹن دبا کر اپنا مراسلہ مدون کرسکتے ہیں) ،
امید ہے آپ سے گفتگو کا شرف حاصل رہے گا۔مناسب خیال کیجے تو تعارف کی لڑی میں اپنا مفصل تعارف شامل کیجے تاکہ احباب آپ کے بارے میں جان سکیں ۔
کسی بھی قسم کی مدد درکار ہو تو حکم کیجے گا۔
والسلام
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ سب کی مدد کا بہت بہت شکریہ ۔ آصف علی صاحب یہ میری غلطی ہوگی کہ ایک کی جگہ اک لکھا ہے ۔ یقینا اُردو محفل ایسی جگہ ہے جہاں بندہ اردو سیکھنے کے لئے کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی رجوع کرسکتا ہے ۔
میرا نام سید عاطف علی ہے ۔ اور یہاں کے احباب مجھے آصف علی کہہ کر مخاطب کررہے ہیں ۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟؟؟؟
 
میں نے تدوین کرلی ہے جنابِ سید ۔ آپ اسے میری نظر کی "کمزوری" کہہ سکتے ہیں ۔ اب تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ایک غلطی تو ہر ایک کو معاف ہے کیونکہ اس ایک دھاگے میں کافی ساری غلطیاں کرڈالی ہیں ۔ سب سے معذرت ؛ اُمید ہے معاف فرمائیں گے ۔ دراصل انگریزی الفاظ دیکھ کر لگتا ہے کہ "آصف" ہے ؛ اگر ناگوار نہ ہو اور ممکن ہو تو اپنا نام اُردو میں لکھ لیجئے ، شائد اس قسم کی "گستاخیاں" کم ہوجائیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں نے تدوین کرلی ہے جنابِ سید ۔ آپ اسے میری نظر کی "کمزوری" کہہ سکتے ہیں ۔ اب تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ایک غلطی تو ہر ایک کو معاف ہے کیونکہ اس ایک دھاگے میں کافی ساری غلطیاں کرڈالی ہیں ۔ سب سے معذرت ؛ اُمید ہے معاف فرمائیں گے ۔ دراصل انگریزی الفاظ دیکھ کر لگتا ہے کہ "آصف" ہے ؛ اگر ناگوار نہ ہو اور ممکن ہو تو اپنا نام اُردو میں لکھ لیجئے ، شائد اس قسم کی "گستاخیاں" کم ہوجائیں۔
یہ معمولی قسم کی فرو گزاشتیں ہیں وقار علی صاحب۔آپ زیادہ محسوس کر گئے -اپنا دل ذرا بڑا رکھیں ( اس سے آپ کو زندگی میں بہت سے فوائد حاصل ہوں گے ) اور معافی کی ضرورت ہر گز نہیں ۔ میں نے آپ کو کوئی سزا تو نہیں سنادی۔ حتی ٰ کہ آپ کا نام تک نہیں لیا بلکہ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ایسا کئی بار (دیگر ) احباب کی جانب سے (بھی) ہوا ہے ۔اس لیے مجھ پر شائبہ گذرا کہ اس کا باعث کوئی تکنیکی خامی تو نہیں ۔
دوسرے یہ کہ میں نے غلطی سے اپنا نام شروع ہی انگلش میں لکھ دیا تھا ۔ اور ایک مرتبہ کوشش بھی کی کہ نام اردو میں لکھ لوں لیکن ایڈٹ کرنے کا کوئی مناسب آپشن نہ مل سکا حتیٰ کہ سید کا ایس کیپیٹل بھی نہ کر سکا ۔اگر آپ مساعدت فرمائیں تو نوازش ہو گی۔شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
بجا فرمایا آپ نے ۔ اشکال کافی حد تک دور ہوگیا لیکن یہ نگاہ اور دیدہ کو یکجا کرنے سے کیا مراد ہے یہاں؟ کیا نگاہ سے مراد نظر اور دیدہ سے مراد آنکھ ہے؟
خوش آمدید وقار روغانی، آپ کے تعارف کا منتظر ہوں۔ یہاں میں آپ سے متفق ہوں، شاعر یقیناً آنکھ کے دیکھے جانے کے عمل کو دیدے کی نگاہ کہہ رہا ہے۔ باقی تشریح تو خلیل نے خوب کی ہے۔ اصل معنی تو فی بطنِ شاعر!!!
عاطف، نام اگر اردو میں کرنا چاہتے ہوں تو منتظمین نبیل اور ابن سعید یا زیک کو متوجہ کریں۔
 
دوسرے یہ کہ میں نے غلطی سے اپنا نام شروع ہی انگلش میں لکھ دیا تھا ۔ اور ایک مرتبہ کوشش بھی کی کہ نام اردو میں لکھ لوں لیکن ایڈٹ کرنے کا کئی مناسب آپشن نہ مل سکا حتیٰ کہ سید کا ایس کیپیٹل بھی نہ کر سکا ۔اگر آپ مساعدت فرمائیں تو نوازش ہو گی۔شکریہ

آپ یہاں اپنے نام کی مکمل ہجے لکھ دیں جیسی آپ تبدیدیلی چاہتے ہوں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ یہاں اپنے نام کی مکمل ہجے لکھ دیں جیسی آپ تبدیدیلی چاہتے ہوں۔ :)
جناب ابن سعید صاحب ۔ اگر میرا نام اس طرح ہو ۔ سید عاطف علی ۔ تو میں خوب سپاس گزار ہوں :thumbsup: ۔ جیسا کہ میں نے اوپر کے مراسلے میں تحریر کیا ۔ الف عین صاحب کا بھی بہت شکریہ
 
جناب ابن سعید صاحب ۔ اگر میرا نام اس طرح ہو ۔ سید عاطف علی ۔ تو میں خوب سپاس گزار ہوں :thumbsup: ۔ جیسا کہ میں نے اوپر کے مراسلے میں تحریر کیا ۔ الف عین صاحب کا بھی بہت شکریہ

امید ہے کہ اب آپ کا نام آپ کی خواہش کے مطابق ہوگا۔ لاگ آؤٹ کر کے دوبارہ نئے نام سے داخل ہوں۔ اگر مشکل درپیش ہو تو رابطہ کیجئے گا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
امید ہے کہ اب آپ کا نام آپ کی خواہش کے مطابق ہوگا۔ لاگ آؤٹ کر کے دوبارہ نئے نام سے داخل ہوں۔ اگر مشکل درپیش ہو تو رابطہ کیجئے گا۔
مستعد کار گزاری کا سنہری شکریہ ۔ ابھیابھی داہنی طرف والے گوشے میں جو نوٹیفیکیشن کی ہلکی سی جھلک آئی تو میں یہی سمجھاتھا ۔ پھر شکریہ ۔لیکن اگر سہولت ہو تو یہ اختیار کھلا چھوڑنا بہتر نہ ہو گا ؟:)
 
مستعد کار گزاری کا سنہری شکریہ ۔ ابھیابھی داہنی طرف والے گوشے میں جو نوٹیفیکیشن کی ہلکی سی جھلک آئی تو میں یہی سمجھاتھا ۔ پھر شکریہ ۔لیکن اگر سہولت ہو تو یہ اختیار کھلا چھوڑنا بہتر نہ ہو گا ؟:)

یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ہر دوسرے روز تبدیل کی جائے۔ کھلا چھوڑنے سے بعض دفعہ غلط استعمال کا امکان رہتا ہے اس لئے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ اس اختیار کو ناظمین تک محدود رکھا جائے۔ انتظامیہ محفلین کی خدمت کو ہمیشہ تیار رہتی ہے اس لئے ایسے مسائل در پیش ہوں تو کبھی بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
دوسرے مصرع کا وزن ذرا ڈگمگا رہا ہے۔۔۔غالبا" اس طرح صحیح ہو گا
" جلوہ ہر ایک ذرے میں ہے آفتاب کا "
شعر کی توضیح تو یوسف ثانی صآحب نے خوب کی ہے۔ لیکن ایک بات قابل ذکر ہے اس (سودا کے) وقت میں فزکس نے غالبا" کوانٹم فزکس کے وہ جلوے نہ دیکھے تھے جو موصوف نے تحریر فرمائے ہیں ۔ تاہم سودا کی فکری گہرائی کو ایسی مثال سے خوب داد ملتی ہے ۔اور تشریح بھی خوب ہوجاتی ہے۔۔۔
نیل بوھر اور ردر فورڈ کے اٹامک ماڈلز غالباً انیس سو گیارہ کے بعد ماڈرن فزکس کی افق پر ظہور پذیر ہوئے۔
بجا ارشاد فرمایا۔ سائنس کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے احقر کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ ایٹمی اسٹرکچر بہت بعد کی دریافت ہے۔ انسانی قدم چاند کی سرزمین پر بہت بعد میں پہنچے۔ عہد جدید کی بہت سی ایجادات و دریافت بہت بعد کی چیز ہے۔ مگر ہمارے شعراء اور فکشن رائٹرز نے اپنی تحریروں میں ان کی طرف اشارہ صدیوں پہلے کردیا تھا۔ غالبا" نہیں بلکہ یقینا" سائنسدانوں کی بیشتر ایجادات کا سہرا ادباء و شعراء کی تخلیقی تصورات کوجاتا ہے۔ وہ اپنے ’’الہامی خیالات‘‘ کے ذریعہ انسانیت کوراستہ دکھلاتے ہین کہ اِس جانب سفر کرکے آپ اُس منزل تک حقیقتا" پہنچ سکتے ہیں، جہاں ہم عالم تصور اور عالم خواب میں پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیا ل میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
 
Top