شاعر نے چونکہ کائنات کو تماشا کہا ہے اس لیے اس شعر کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔۔۔ یہ شعر شاعر کے "کائناتی شعور" کا عکاس ہے ۔۔۔ البتہ دوسرے مصرعے کو الگ سے پڑھا جائے تو اس کے معنی بدل جائیں گے ۔۔۔ اور اس مصرعے کو "ہونہار طفلان" پر بھی "چسپاں" کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ گو کہ دوسرے مصرعے کی تشریح بھی سائنس کی رو سے کی جا سکتی ہے ۔۔۔ذوقِ نظر ملے تو تماشا ہے کائنات
ہر ذرے میں چھپے ہیں کئی آفتاب سے
از واصف علی واصفؔ
سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس کو رب ِکائنات سے متصل کریں یا عہدِحاضر کہ ہونہار طفلِ مکتب سے۔۔۔ ۔
وہ ضرور خامہ فرسائی فرمائیں گے اگر آپ ان کو ٹیگ کر دیں تو ۔۔۔ تاکہ ان کو بھی خبر ہو جائے کہ آپ نے "دیدہ و دل فرشِ راہ" کیا ہوا ہے ۔۔۔ہاں بجا فرمایا جناب نے ہمیں بھی یہی لگتا ہے دراصل ہم نے بحث چوں کہ دوسرے مصرے پر کرنی ہے اس لیے توجہ کا مرکز بھی یہی ہونا چاہیے۔۔باقی ہم اور بھی کسی صاحب فِراست خرامہ فرسائی کے متمنی ہیں دیدہ و دل فرشِ راہ ہیں
بہت بہت نوازش عین نوازش۔۔ہم سپاس گزار ہیں جناب کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری ذاتی تفہیم کے مطابق تو اس کا تعلق طالب علم سے ہی ہے، یعنی جو اپنے کو طالب علم سمجھتا ہے اور کائنات کے راز ہائے سر بستہ سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ضمنی طور پر خالق کائنات کے نظام پر بھی اشارہ ضرور ہے، لیکن شعر دیدہء بینا سے ہی متعلق محسوس ہوتا ہے۔
واہ!ذوقِ نظر ملے تو تماشا ہے کائنات
ہر ذرے میں چھپے ہیں کئی آفتاب سے
از واصف علی واصفؔ
شعر کی اصل حقیقت تو شاعر ہی جانتا ہے ۔ میں بھی لگے ہاتھوں کچھ لفاظی کرتا چلوں ۔
محترم واصف صاحب چونکہ اک روحانی بزرگی کے حامل تھے سو ان کا سب کلام " سالک " یعنی " حقیقت کی جستجو میں سرگرداں رہنے والوں کو اپنا مخاطب بناتا ہے ۔ سالک اک سائنسدان بھی ہو سکتا ہے اور اک طالب علم بھی ۔
اس شعر میں " ذوق نظر " سے مراد وہی ہے جس کو علامہ اقبال صاحب نے " نگاہ مرد مومن " قرار دیا ہے
یہ " ذوق نظر " جو کسی " مرد مومن " کو اس کائنات بارے غوروفکر کرتے نصیب ہوتی ہے ۔
تو اسکی نظر تحقیق و طلب کو ہمراہ لیئے کائنات کے کسی مظہر سے ٹکراتی ہے ۔ حقیقت کو کھوجتی ہے ۔
تو اس مظہر سے حجابات کے پردے اترنے لگتے ہیں ۔ اور چھپی ہوئی حقیقت سامنے آنے لگتی ہے ۔
اور حقیقت ازلی و ابدی سامنے آجاتی ہے کہ " ہر ذرہ خود میں کئی آفتاب چھپائے ہوئے ہے "
اسے چاہے مادیت سے منسلک کر لیں چاہے روحانیت سے بہر طور مقصود اک ہی نکلے گا ۔
بظاہر اک ذرہ معمولی نظر آتا ہے مگر جب سائنسدان کی نظر جستجو و تحقیق و طلب کو ہمراہ لیئے اس پر اپنی " توجہ " مرکوز کرتا ہے تو اس ذرے میں " ایٹم بم " دریافت ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح بظاہر معمولی و سادہ نظر آنے والے انسان بھی اپنے اندر اتنا نور سمائے ہوتے ہیں ۔ جو نظر نہ آنے والی روحانی تاریکی کو اک نگاہ سے اجالے میں بدل دیتے ہیں ۔
نہ یہ شعر کی تشریح ہے نہ توضیح ۔ جو میرے ناقص علم نے سمجھایا تحریر کر دیا ۔ تاکہ کوئی صاحب علم اس پر رائے دیتے میرے علم میں اضافے کا سبب بنے ۔
اسی مفہوم میں علامہ اقبال نے کہا تھابراہِ کرم سودا کے اِس شعر کی تشریح کردیں:
سودا نگاہِ دیدہِ تحقیق کے حضور
جلوہ ہر ایک ذرے میں ہے آفتاب کا
میرزا رفیع سودا
نگاہ اور دیدہ میں فرق ہوتا ہے۔ نگاہ اور چیز ہے دیدہ اور ۔ نگاہ کے معنی نظر کے ہیںبجا فرمایا آپ نے ۔ اشکال کافی حد تک دور ہوگیا لیکن یہ نگاہ اور دیدہ کو یکجا کرنے سے کیا مراد ہے یہاں؟ کیا نگاہ سے مراد نظر اور دیدہ سے مراد آنکھ ہے؟