ایک شعر جو اپنے خالق کو بہت پیچھے چھوڑ گیا۔

ادب میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں جو باوجود اس کے کہ معمولی نہیں تھیں، منظرِ عام پر نہیں آسکیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت ان کی بھی ہے۔ زندگی کی تلخیوں پر طنزیہ انداز میں لکھنے والا شاید ان سے بڑا کوئی بھی نہیں گزرا۔ ان کا کلام گو کہ زیادہ نہیں ہے، لیکن جتنا ہے اس سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ ایک قادر الکلام، جہاں دیدہ اور پختہ کار شاعر ہے۔ اور ہم میں سے تقریباً ہر شخص انہیں ان کے نام سے نہیں تو کم از کم ان کے اس شہرہ آفاق شعر سے ضرور جانتا ہے:

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اس شعر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنے خالق سے اتنا آگے نکل گیا کہ آج ہر وہ شخص جو شاعری سے بالکل بھی لگاؤ نہ رکھتا ہو، اسے بھی یہ شعر یاد ہوتا ہے۔ چنانچہ ابھی فیس بک کے ایک گروپ میں یہ سوال ہوا کہ یہ شعر کس کا ہے، تو سوچا کہ اس شعر کو مکمل غزل کے ساتھ ٹائپ کرکے شائع کیا جائے۔ ملاحظہ ہو، حضرت اخترؔ انصاری:

سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا
اف یہ بد مست مے کدہ میرا

نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نا رسا میرا

عشق کو منہ دکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اڑ گیا میرا

دلِ غم دیدہ پر خدا کی مار
سینہ آہوں سے چھل گیا میرا

یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جل اٹھا میرا

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

منّتِ چرخ سے بری ہوں میں
نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا

ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ
پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا

دہانِ زخم (مجموعۂ کلام از اختر انصاری)
 
اگر ہو سکے تو دیوان کو اسکین کر کے پی ڈی ایف فائل بنا دیں آپ کی گراں قدر ادبی خدمات میں یہ ایک اضافہ ہو گا
 
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نا رسا میرا
دلِ غم دیدہ پر خدا کی مار
سینہ آہوں سے چھل گیا میرا
منّتِ چرخ سے بری ہوں میں
نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا

ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ
پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا
کیا بات۔ شاعر تو بدنصیب ہے سو ہے کہ مقبول نہ ہوا۔ اس سے بڑے بدنصیب ہم ہیں جو اسے جانتے تک نہ تھے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فیس بک کی معرفت موصوف کی ایک غزل سامنے آئی اچھی لگی ۔سو حاضر ہے۔

اختر انصاری

آرزُو کو رُوح میں غم بَن کے رہنا آگیا
سہتے سہتے، ہم کو آخر رنج سہنا آگیا

دِل کا خُوں آنکھوں میں کِھنچ آیا، چَلو اچھّا ہُوا
میری آنکھوں کو، مِرا احوال کہنا آگیا

سہل ہوجائے گی مشکل ضبطِ سوز و ساز کی
خُونِ دِل کو آنکھ سے جس روز بہنا آگیا

میں کسی سے اپنے دِل کی بات کہہ سکتا نہ تھا
اب سُخن کی آڑ میں ، کیا کُچھ نہ کہنا آگیا

جب سے مُنہ کو لگ گئی، اختر محبّت کی شراب !
بے پِیے آٹھوں پہر مدہوش رہنا آگیا

اختر انصاری
................
 
فیس بک کی معرفت موصوف کی ایک غزل سامنے آئی اچھی لگی ۔سو حاضر ہے۔

اختر انصاری

آرزُو کو رُوح میں غم بَن کے رہنا آگیا
سہتے سہتے، ہم کو آخر رنج سہنا آگیا

دِل کا خُوں آنکھوں میں کِھنچ آیا، چَلو اچھّا ہُوا
میری آنکھوں کو، مِرا احوال کہنا آگیا

سہل ہوجائے گی مشکل ضبطِ سوز و ساز کی
خُونِ دِل کو آنکھ سے جس روز بہنا آگیا

میں کسی سے اپنے دِل کی بات کہہ سکتا نہ تھا
اب سُخن کی آڑ میں ، کیا کُچھ نہ کہنا آگیا

جب سے مُنہ کو لگ گئی، اختر محبّت کی شراب !
بے پِیے آٹھوں پہر مدہوش رہنا آگیا

اختر انصاری
................

بہت خوب۔ ان کا صاحبِ طرز ہونا ان دونوں غزلوں سے واضح ہے۔
 
Top