محمد اظہر نذیر
محفلین
تُمہارے ساتھ رہنے کا یہی اک راستہ ہے کہ
رہے باقی نہ کچھ احساس، یا پتھر کا ہو جاوں
تُمہارے ساتھ رہنے کا یہی اک راستہ ہے کہرہے باقی نہ کچھ احساس، یا پتھر کا ہو جاوں
تیری نظر کے سامنے ہے چاند بھی چکور بھی عشق کا انتخاب دیکھ کوشش رائیگاں نہ دیکھ
رائگاں وصل میں بھی وقت ہواتیری نظر کے سامنے ہے چاند بھی چکور بھی عشق کا انتخاب دیکھ کوشش رائیگاں نہ دیکھ
بہت شکریہ جناب، بڑی نوازشخوب ہے بھائی۔۔۔ !
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہپپو بھیا ! یہ اصلاحِ سخن کا زمرہ ہے۔
گویا صورتحال اب کچھ ایسے ہو گیمحبت کے مباحث کا ذرا محور تو ہو جاوں
مرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
//مباحث کا محور؟ یہ دوسرا مصرع کون کہہ رہا ہے؟
جی درست فرمایا ابہام ہے اگر یوں کہوں تو؟
محبت کے مباحث کسی محور کا ہو جاوںجنون عشق میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوںسبھی کے ساتھ چل پانا ، نہیں ممکن ، مگر یوں ہے
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
//پہلے مصرع سی دوسرے کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسرے مصرع میں ’یا میں‘ میں الف گرنا اچھا نہیں۔ اسکو یوں کیا جا سکتا ہے
مرا احساس مر جائے، یا پتھر کا میں ہو جاؤں
جی اسے تبدیل کیے دیتا ہوں
سدھر جانا نہیں ممکن تُمہارا گر تو پھر یوں ہےمرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوںمیں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
//درست
نوازش
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
مگر اب سوچتا ہوں ، پی ہی لوں ، ساغر کا ہو جاوں
//درست، شعر کا مفہوم اگرچہ سمجھ میں نہیں آیا۔
جی بہتر ہے اسے بھی تبدیل کرتا ہوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سےمگر اے درد دل تھم جا ،یا پھر ساغر کا ہو جاوں؟چھڑا لوں جان ابتر سے، دعا کرتا ہوں میں اظہر
نہیں ممکن اگر اچھا، تو کچھ بہتر کا ہو جاوں
//’ابتر سے‘ اور ’بہتر کا‘ سے مطلب؟
جی وضاحت نہیں ہو رہی، درست فرمایا آپ نے، اگر یوں کہوں تو؟
سبھی کا بن کے بھی دیکھا، ملا کچھ بھی نہیں اب تکمرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
بھائی میں غور نہیں کیا معاف کردیں چند اشعار برائے اصلاح حاضرہیں امید ہے نظر الفت ہوگیپپو بھیا ! یہ اصلاحِ سخن کا زمرہ ہے۔
بھائی میں غور نہیں کیا معاف کردیں چند اشعار برائے اصلاح حاضرہیں امید ہے نظر الفت ہوگی
دولت سے کوئی معتبر نہیں ہوتا
جو سایہ نہ دے وہ شجر نہیں ہوتا
بستیاں اُجاڑ دیتیں ہیں یہ نفرتیں
کیوں آباد کوئی پیار کا نگر نہیں ہوتا
مل تو جائے کسی رہگذر پہ وہ
لیکن اب ہم سے سفر نہیں ہوتا
سوچتا اب بھلا دوں تمہیں
کام تو آساں ہے مگر نہیں ہوتا