ایک شعر

پپو

محفلین
تیری نظر کے سامنے ہے چاند بھی چکور بھی
عشق کا انتخاب دیکھ کوشش رائیگاں نہ دیکھ
 
بات دراصل اب شعر سے آگے بڑھ گئی تو پوری غزل ہی پیش کر دیتا ہوں اُستاد محترم کی خدمت میں

بچاوں مال سے دامن، مگر پھر زر کا ہو جاوں؟
چھڑا کر جان آفت سے، میں کیسے شر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مری قسمت میں لکھا کیوں تھا اُس نے در بدر رہنا؟
اگر سمجھے مناسب وہ، اُسی کے در کا ہو جاوں
تُمہارے ساتھ رہنے کا یہی اک راستہ ہے کہ
رہے باقی نہ کچھ احساس، یا پتھر کا ہو جاوں
میں چھوڑوں ساتھ اظہر کا؟ مجھے پاگل سمجھتے ہو؟
کٹا کر اپنے ہی بازو، بے بالُ پر کا ہو جاوں
 
تبدیلیاں

محبت کے مباحث کا ذرا محور تو ہو جاوں
مرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
سبھی کے ساتھ چل پانا ، نہیں ممکن ، مگر یوں ہے
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
مگر اب سوچتا ہوں ، پی ہی لوں ، ساغر کا ہو جاوں
چھڑا لوں جان ابتر سے، دعا کرتا ہوں میں اظہر
نہیں ممکن اگر اچھا، تو کچھ بہتر کا ہو جاوں
 

الف عین

لائبریرین
محبت کے مباحث کا ذرا محور تو ہو جاوں
مرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
//مباحث کا محور؟ یہ دوسرا مصرع کون کہہ رہا ہے؟

سبھی کے ساتھ چل پانا ، نہیں ممکن ، مگر یوں ہے
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
//پہلے مصرع سی دوسرے کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسرے مصرع میں ’یا میں‘ میں الف گرنا اچھا نہیں۔ اسکو یوں کیا جا سکتا ہے
مرا احساس مر جائے، یا پتھر کا میں ہو جاؤں

میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
//درست

مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
مگر اب سوچتا ہوں ، پی ہی لوں ، ساغر کا ہو جاوں
//درست، شعر کا مفہوم اگرچہ سمجھ میں نہیں آیا۔

چھڑا لوں جان ابتر سے، دعا کرتا ہوں میں اظہر
نہیں ممکن اگر اچھا، تو کچھ بہتر کا ہو جاوں
//’ابتر سے‘ اور ’بہتر کا‘ سے مطلب؟
 
محبت کے مباحث کا ذرا محور تو ہو جاوں
مرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
//مباحث کا محور؟ یہ دوسرا مصرع کون کہہ رہا ہے؟

جی درست فرمایا ابہام ہے اگر یوں کہوں تو؟
محبت کے مباحث کسی محور کا ہو جاوں
جنون عشق میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
سبھی کے ساتھ چل پانا ، نہیں ممکن ، مگر یوں ہے
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
//پہلے مصرع سی دوسرے کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسرے مصرع میں ’یا میں‘ میں الف گرنا اچھا نہیں۔ اسکو یوں کیا جا سکتا ہے
مرا احساس مر جائے، یا پتھر کا میں ہو جاؤں
جی اسے تبدیل کیے دیتا ہوں
سدھر جانا نہیں ممکن تُمہارا گر تو پھر یوں ہے
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
//درست
نوازش

مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
مگر اب سوچتا ہوں ، پی ہی لوں ، ساغر کا ہو جاوں
//درست، شعر کا مفہوم اگرچہ سمجھ میں نہیں آیا۔
جی بہتر ہے اسے بھی تبدیل کرتا ہوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
مگر اے درد دل تھم جا ،یا پھر ساغر کا ہو جاوں؟
چھڑا لوں جان ابتر سے، دعا کرتا ہوں میں اظہر
نہیں ممکن اگر اچھا، تو کچھ بہتر کا ہو جاوں
//’ابتر سے‘ اور ’بہتر کا‘ سے مطلب؟
جی وضاحت نہیں ہو رہی، درست فرمایا آپ نے، اگر یوں کہوں تو؟
سبھی کا بن کے بھی دیکھا، ملا کچھ بھی نہیں اب تک
مرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
گویا صورتحال اب کچھ ایسے ہو گی

محبت کے مباحث کسی محور کا ہو جاوں
جنون عشق میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
سدھر جانا نہیں ممکن تُمہارا گر تو پھر یوں ہے
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
مگر اے درد دل تھم جا ،یا پھر ساغر کا ہو جاوں؟
سبھی کا بن کے بھی دیکھا، ملا کچھ بھی نہیں اب تک
مرا دل چاہتا ہے اب کہ میں اظہر کا ہو جاوں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں اب بھی ابہام ہے۔
دوسرے شعر میں مطلب تو واضح ہو جاتا ہے، لیکن روانی نہیں مصرع میں۔ اسے یوں کہو تو؟
اگر اصلاح نا ممکن ہی ہے ان کی تو پھر یوں ہو

مگر اے درد دل تھم جا ۔۔۔۔کا اضافہ کیوں، اس سے مطلب کہاں واضح ہوتا ہے؟
مقطع اب بھی سمجھ میں نہیں آیا، کون کہہ رہا ہے اور مخاطب کون ہے؟
 
اب دیکھیے گا جناب​
محبت کے خیالوں کےکسی محور کا ہو جاوں
جنون عشق میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
اگر اصلاح نا ممکن ہی ہے ان کی تو پھر یوں ہو
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
رکے گا درد دل آخر ،یا پھر ساغر کا ہو جاوں؟
میں اپنا بن نہیں پایا، کسی کا بن کے کیا ہو گا؟
مرا دل چاہتا ہے اب کہ بس اظہر کا ہو جاوں
 

پپو

محفلین
پپو بھیا ! یہ اصلاحِ سخن کا زمرہ ہے۔
بھائی میں غور نہیں کیا معاف کردیں چند اشعار برائے اصلاح حاضرہیں امید ہے نظر الفت ہوگی
دولت سے کوئی معتبر نہیں ہوتا
جو سایہ نہ دے وہ شجر نہیں ہوتا
بستیاں اُجاڑ دیتیں ہیں یہ نفرتیں
کیوں آباد کوئی پیار کا نگر نہیں ہوتا
مل تو جائے کسی رہگذر پہ وہ
لیکن اب ہم سے سفر نہیں ہوتا
سوچتا اب بھلا دوں تمہیں
کام تو آساں ہے مگر نہیں ہوتا
 
اب دیکھیے گا جناب​
محبت کے خیالوں کےکسی محور کا ہو جاوں
جنون عشق میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
اگر اصلاح نا ممکن ہی ہے ان کی تو پھر یوں ہو
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
رکے گا درد دل آخر ،یا پھر ساغر کا ہو جاوں؟
میں اپنا بن نہیں پایا، کسی کا بن کے کیا ہو گا؟
مرا دل چاہتا ہے اب کہ بس اظہر کا ہو جاوں
 

محمداحمد

لائبریرین
بھائی میں غور نہیں کیا معاف کردیں چند اشعار برائے اصلاح حاضرہیں امید ہے نظر الفت ہوگی
دولت سے کوئی معتبر نہیں ہوتا
جو سایہ نہ دے وہ شجر نہیں ہوتا
بستیاں اُجاڑ دیتیں ہیں یہ نفرتیں
کیوں آباد کوئی پیار کا نگر نہیں ہوتا
مل تو جائے کسی رہگذر پہ وہ
لیکن اب ہم سے سفر نہیں ہوتا
سوچتا اب بھلا دوں تمہیں
کام تو آساں ہے مگر نہیں ہوتا

شکریہ پپو بھائی۔۔۔۔!

آپ کا کلام اچھا ہے۔ محاسن و معائب پر بات تو اساتذہ ہی کریں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
اظہر در اصل تم نے زمین ہی ایسی منتخب کی ہے جس میں صاف اور واضح اشعار بہت کم ممکن ہیں۔ ان تصحیحات میں بھی تم نے محض الفاظ بدل دئے ہیں، مطلب تو اب بھی واضح نہیں ہوتا۔
 
Top