اب دیکھیے تو اُستاد محترم
محبت کے خیالوں کےکسی محور کا ہو جاوں
جنوں کے رنگ میں ڈوبے کسی منظر کا ہو جاوں
ترا در چھوڑ دیتا ہوں، مگر اتنی دعا کرنا
مرا احساس مر جاٴے، یا میں پتھر کا ہو جاوں
میں چاہوں بھی کبھی تو اس جہاں کا ہو نہیں سکتا
فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے گھر کا ہو جاوں
مجھے رغبت ذرا سی بھی نہیں ہے، مے سے، ساقی سے
پیوں اک جام غم یا مستقل ساغر کا ہو جاوں؟
نہیں کرنا مجھے اظہار الفت، چار لفظوں میں
مجسم ہی محبت ہو میں جس مظہر کا ہو جاوں
پھرا ہوں دربدر اظہر، چلو خاطر تغیر کے
پیالہ وصل کا پی لوں، کسی کے در کا ہو جاوں