ایک صدی بعد آئن اسٹائن کا کشش ثقل سے متعلق نظریہ درست ثابت ہوگیا!

arifkarim

معطل
خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی
151125115106_ondasgravitacionais3_640x360_advancedligo_nocredit.jpg

بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں امریکہ میں دو الگ الگ ’لیگو‘ تجربہ گاہوں میں محسوس کی گئیں
خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی تلاش کے لیے جاری عالمی کوششوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کششِ ثقل کو مکمل طور پر سمجھنے کے سلسلے میں ایک چونکا دینے والی دریافت کی ہے۔
ان کے مطابق انھوں نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پر واقع دو بلیک ہولز کے تصادم کی وجہ سے ’سپیس ٹائم‘ میں بدلاؤ کا مشاہدہ کیا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کی ان لہروں کی پہلی مرتبہ نشاندہی سے علمِ فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لیگو) کی اس رپورٹ کو فزیکل ریویو لیٹرز نامی سائنسی رسالے میں اشاعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔
100 برس قبل مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے ’عمومی اضافیت‘ کے نظریے میں ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی، تاہم کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تلاش کے باوجود ایسی لہروں کی نشاندہی نہیں ہو سکی تھی۔
لیگو کے تحت دنیا بھر میں قائم تجربہ گاہوں میں ایسی لہروں کی تلاش کے لیے قائم لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری میں ایک لیزر شعاع کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انگریزی حرف ایل کی شکل کی چار کلومیٹر طویل ایک جیسی عمودی متوازی سرنگوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ منعکس ہو کر واپس آتی ہیں۔
اگر اس دوران کسی دور دراز کہکشاں میں پیدا ہونے والی کشش ثقل کی لہریں تجربہ گاہ میں سے گزریں تو یہ تجربہ گاہ کے حساس ترین آلات کو متاثر کرتی ہیں لیکن یہ فرق انتہائی کم یعنی ایک ایٹم کی چوڑائی سے بھی کہیں کم ہوتا ہے۔
کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتدا کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ اگر ہم ان لہروں کو دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصے کا حال جان سکتے ہیں۔‘
ٹک سٹیبنز، ناسا
دو بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں امریکہ میں دو الگ الگ ’لیگو‘ تجربہ گاہوں میں محسوس کی گئیں۔
لیگو منصوبے کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ ریتزی نے جمعرات کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی کر لی ہے۔‘
کشش ثقل کی لہریں ہم مرکز دائروں کی شکل میں زمان و مکان کی چادر کو سکوڑتی اور پھیلاتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں مادے کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔
آج کے دور کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لہروں کی جھلک دیکھنے کے لیے ایسی لہروں کا ملنا ضروری تھا جو کائنات میں دھماکوں یا ستاروں اور بلیک ہولز کے تصادم جیسے واقعات کے نتیجے میں خارج ہوتی رہتی ہیں۔
ایسی لہریں چونکہ مادے میں سے سیدھی گزر جاتی ہیں اس لیے ان کے منبع کو چھپایا نہیں جا سکتا اور وہ بلیک ہولز جیسے اجسام کا بےمثال نظارہ فراہم کر سکتی ہیں جو روشنی خارج نہیں کرتیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا سے تعلق رکھنے والے ٹک سٹیبنز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتدا کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم ان لہروں کو دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصے کا حال جان سکتے ہیں۔
لنک
 

arifkarim

معطل
اور اس ہم سائنسی دریافت پر مقامی سائنسدانوں کا ایک تبصرہ:
البرٹ آئن سٹائن سے چھ سو سال قبل الاندرونی نے کشش ثقل کی لہریں دریافت کرلیں تھیں

بغداد کی تاریخی لائبرری سے برامد ہونے والے نادر مخطوطات کے مطابق مشہور مسلمان سائنسدان الاندرونی نے کشش ثقل کی لہریں،البرٹ آئن سٹائن سے چھ سو سال پہلے دریافت کرلیں تھیں،۔ مغربی سائنسدانوں نے ہمیشہ کی طرح الاندرونی کی اس عظیم الشان دریافت کو ایک مغربی یہودی سائنسدان کے سر ڈال دیا جو کہ ایک بین الاقوامی سازش ہے۔
andruni2.jpg

سو برس قبل مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے ’عمومی اضافیت‘ کے نظریے میں ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی، تاہم کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تلاش کے باوجود ایسی لہروں کی نشاندہی نہیں ہو سکی تھی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ تاتاریوں نے بغداد کی لاکھوں جلدوں پر مشتمل عظیم الشان لائبریری کو جلاکر راکھ کردیا تھا اور الاندرونی کی کتب کا نام و نشان نا رہا۔
andruni-300x211.jpg

اس زمن میں نوسٹیلجیا المعروفالتوق إلي الماضي کی کمیٹی نے اقوام متحدہ کے سائنس کمیشن کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ تمام محب سائنس حضرات سے شرکت کی اپیل ہے۔
لنک
 

arifkarim

معطل
ایک صدی بعد آئن اسٹائن کا خیال درست ثابت ہوگیا
سائنسدانوں نے رواں صدی کی اب تک کی سب سے بڑی دریافت کی ہے اور وہ ہے اسپیس ٹائم (زمان و مکاں) میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی۔
یہ وہ خیال ہے جو ایک صدی قبل یعنی 1915 میں معروف سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن نے پیش کیا تھا اور آج ایک سو سال بعد اس کی تصدیق ہوگئی ہے۔
اپنے نظریہ عمومی اضافیت میں البرٹ آئن اسٹائن نے پیشگوئی کی تھی کہ کائنات میں ہونے والے بڑے واقعات جیسے ستاروں کے ٹکراﺅ کے نتیجے میں کششِ ثقل کی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور انتہائی دور تک توانائی کو منتقل کرتی ہیں۔
11 فروری 2016 کو خلاء میں کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانے کی کئی دہائیوں کی کوششوں کے بعد سائنسدانوں نے اس کی موجودگی کا اعلان کیا ہے۔
کشش ثقل کی یہ لہریں 750 ملین سے 1.86 ارب نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ایک اور کہکشاں سے اس وقت آئیں جب اتنے ہی سال قبل 2 بلیک ہولز ایک دوسرے سے ٹکرا گئے جس سے اسپیس ٹائم ہل کر رہ گیا۔
اس سے پیدا ہونے والی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئیں ستمبر 2015 میں کرہ ارض کے پاس سے گزریں، جنہیں سائنسدانوں نے دریافت کیا.
اس دریافت کا اعلان Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory (لیگو) نے کیا جس میں پندرہ ممالک کے 900 سائنسدان 2002 سے ان لہروں کی تلاش کا کام کررہے تھے۔
دریافت اور اعلان کے درمیان کے عرصے میں نتائج متعدد بار ٹیسٹ کیے گئے، اور ہر بار ایک ہی نتیجہ ملنے پر سائنسدانوں نے دریافت میں کامیابی کا اعلان کیا.
لیگو نے ان لہروں کے لیے ایک خصوصی آئینہ استعمال کیا جو لیزر لائٹ کی شعاع کو تقسیم کرتا، اور ہر شعاع کو 2 چار کلومیٹر لمبی ٹیوبز میں منتقل کرتا اور روشنی ہر سرنگ میں 400 بار آگے پیچھے ہوکر ڈیٹکٹر تک پہنچتی۔
اس طرح ہر شعاع کا سفر 1600 کلومیٹر کا راﺅنڈ ٹرپ بن جاتا ہے جس کے بعد یہ لائٹ اپنے ذریعے کے قریب اکھٹی ہوجاتی۔
عام حالات میں روشنی کی یہ لہریں اکھٹا ہونے پر ایک دوسرے کو مکمل طور پر کاٹ دیتی ہیں اور قریبی ڈیٹکٹر میں کسی حرکت کا سگنل نہیں ملتا۔
مگر کشش ثقل کی لہر پاس سے گزرنے پر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں دو شعاعیں ایک ہی زاویے پر اکٹھی نہیں ہو پاتیں، اور ڈیٹکٹر سگنل کو پکڑ لیتا ہے۔
واشنگٹن اسٹیٹ اور لوزیانا میں واقع ان 2 ڈیٹکٹرز میں سگنل ملنے سے ہی اس بات کی تصدیق ہوتی کہ یہ کشش ثقل کی لہر خلاء سے آئی ہے جبکہ مقامی لہریں ایک ڈیٹکٹر پر ہی ظاہر ہوتیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی تلاش کے لیے جاری عالمی کوششوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کششِ ثقل کو مکمل طور پر سمجھنے کے سلسلے میں ایک چونکا دینے والی دریافت کی ہے۔
ان کے مطابق انھوں نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پر واقع دو بلیک ہولز کے تصادم کی وجہ سے ’سپیس ٹائم‘ میں بدلاؤ کا مشاہدہ کیا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کی ان لہروں کی پہلی مرتبہ نشاندہی سے علمِ فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لیگو) کی اس رپورٹ کو فزیکل ریویو لیٹرز نامی سائنسی رسالے میں اشاعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔
100 برس قبل مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے ’عمومی اضافیت‘ کے نظریے میں ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی، تاہم کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تلاش کے باوجود ایسی لہروں کی نشاندہی نہیں ہو سکی تھی۔
لیگو کے تحت دنیا بھر میں قائم تجربہ گاہوں میں ایسیلہروں کی تلاش کے لیے قائم لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری میں ایک لیزر شعاع کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انگریزی حرف ایل کی شکل کی چار کلومیٹر طویل ایک جیسی عمودی متوازی سرنگوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ منعکس ہو کر واپس آتی ہیں۔
اگر اس دوران کسی دور دراز کہکشاں میں پیدا ہونے والی کشش ثقل کی لہریں تجربہ گاہ میں سے گزریں تو یہ تجربہ گاہ کے حساس ترین آلات کو متاثر کرتی ہیں لیکن یہ فرق انتہائی کم یعنی ایک ایٹم کی چوڑائی سے بھی کہیں کم ہوتا ہے۔

دو بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں امریکہ میں دو الگ الگ ’لیگو‘ تجربہ گاہوں میں محسوس کی گئیں۔
لیگو منصوبے کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ ریتزی نے جمعرات کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی کر لی ہے۔‘
کشش ثقل کی لہریں ہم مرکز دائروں کی شکل میں زمان و مکان کی چادر کو سکوڑتی اور پھیلاتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں مادے کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔
آج کے دور کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لہروں کی جھلک دیکھنے کے لیے ایسی لہروں کا ملنا ضروری تھا جو کائنات میں دھماکوں یا ستاروں اور بلیک ہولز کے تصادم جیسے واقعات کے نتیجے میں خارج ہوتی رہتی ہیں۔
ایسی لہریں چونکہ مادے میں سے سیدھی گزر جاتی ہیں اس لیے ان کے منبع کو چھپایا نہیں جا سکتا اور وہ بلیک ہولز جیسے اجسام کا بےمثال نظارہ فراہم کر سکتی ہیں جو روشنی خارج نہیں کرتیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا سے تعلق رکھنے والے ٹک سٹیبنز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتدا کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم ان لہروں کو دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصے کا حال جان سکتے ہیں۔‘

ربط

 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
شکریہ زیک ایک چیز کی سمجھ نہیں آئی کہ ان ثقلی لہروں کے ماخذ یعنی دو بلیک ہولز کا تصادم، اسکا تعین کیسا ہوتا ہے؟ کیا یہاں محض مفروضوں سے کام نہیں چلایا گیا؟

آرٹیکل
Even with such extreme sensitivity, only the most massive and violent events out there would be loud enough to make the detectors ring. LIGO was designed to catch collisions of neutron stars, which can produce the violent flashes known as gamma ray bursts.
As they got closer together, these neutron stars would swing around faster and faster, hundreds of times a second, vibrating space-time geometry with a rising tone that would be audible in LIGO’s vacuum-tube “sweet spot.”​
Black holes, the even-more-extreme remains of dead stars, could be expected to do the same, but nobody knew if they existed in pairs or how often they might collide. If they did, however, the waves from the collision would be far louder and lower pitched than those from neutron stars.
 

طالب سحر

محفلین
شکریہ زیک ایک چیز کی سمجھ نہیں آئی کہ ان ثقلی لہروں کے ماخذ یعنی دو بلیک ہولز کا تصادم، اسکا تعین کیسا ہوتا ہے؟ کیا یہاں محض مفروضوں سے کام نہیں چلایا گیا؟

تھیوریٹیکل فزکس میں تو مفروضوں اور تخیل کی بڑی اہمیت ہے- لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان "خیالی" باتوں کی rigorous جانچ پڑتال ہوتی ہے، چاہے اس کام میں دسییوں سال لگ جائیں- تقریباً اسی موضوع پرمجھ جیسے سائنس کے نالائق طالب علم کو 2013 میں چھپنے والا یہ آرٹیکل بہت اچھا لگا تھا- آپ بھی دیکھیے:
https://aeon.co/essays/the-paradoxes-that-sit-at-the-very-core-of-physics
 
Top