احسن عثمانی
محفلین
تمام احباب کا فرداٌ فرداً شکر گذار ہوں
1. جی بلکل۔
2۔ علم کب قدروقیمت کا احساس شوق اور ذوق سے ہوتا ہے۔ شوق سے مراد وہ طلب جو اسکو دیکھ کر پیدا ہو۔ اور ذائقہ دراصل ذوق سے مشتق یعنی وہ طلب جو چکھ کر پیدا ہو۔ شوق اور ذوق کے درمیان بہت مبہم فاصلہ ہے۔
ایک مثال ہے شاعری کی جس کے ساتھ ذوق کا لفظ رائج ہے۔
3۔ علم کو تولا نہیں جاسکتا۔
وہ لطیفہ تو شاید آپ نے پڑھا ہوگا جس میں ایک عالم ایک ملاح کی کشتی میں سفر کرتا ہے اس دوران وہ ملاح پر اپنی علمیت جھاڑتے ہوئے پوچھتا ہے تم نے فلسفہ اور فلاں فلاں علم حاصل کیا ہے اور کہتا ہے تو نے اتنی اتنی عمر گنوا دی۔ اس دوران طوفان آجاتا ہے اور عالم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس ضمن میں نیوٹن کی بلیوں اور بڑھئی والا واقعہ بھی دلچسپ ہے۔
4۔ حواس کے حامل تمام افراد قاری کے زمرے میں آئینگے۔ لیکن چونکہ قوتِ باصرہ و قوتِ ناطقہ علم کی ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور قوت تحریر کو استعمال میں لاتے ہوئے ہم علم کو محفوظ بھی کرسکتے ہیں۔ لہذا قاری سے کتاب پڑھنے والا مراذ لیا جاتا ہے۔
5۔ وہبی علم۔۔۔۔ اللہ کا ایک صفاتی نام ھے الوہاب بہ معنیٰ عطا کرنے والے کہ یہ دراصل علم نہیں ذہانت اور قوتِ احساس کی ایک قسم ہے۔ اور اکتسابی علم وہ ہے جو دوسروں سے حاصل کیا جائے جیسے کچھ شعرا طبعِ موزوں قدرتی رکھتے اور کچھ محنت کے ذریعہ طبیعت کو موزوں کرتے ہیں۔
6۔ بھائی حکمأ کا قول ہے۔۔۔۔ علم نافع وہ ہے جو قبر کے تین سوال حل کردے۔ باقی رزق حاصل کرنے کے وسیلے ہیں۔