محمد بلال اعظم
لائبریرین
پتہ نہیں اس بات کے لئے یہ صحیح دھاگہ ہے یا نہیں لیکن پھر بھی میں اپنی بات جاری رکھتا ہوں:
کل ایک فورم پہ ایک ممبر اپنے استاد کو اقبال اور حالی سے بھی بڑے شاعر کہہ رہے تھے، شاید جوشِ خطابت میں وہ کچھ زیادہی دور تک نکل گئے، اقبال سا نابغہ روزگار شاعر، فلسفی اور ولی صدیوں بعد پیداہوتا ہے اور اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ آپس کی بات ہے کہ مجھ سے کم فہم کو بھی ان کی شاعری اکثر جگہوں سے بے وزن لگی۔ استاد کا ادب اپنی جگہ مگر اتنی زیادہ غیر معقول بات میرے خیال میں کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔وہ صاحب ابھی بھی اپنی اس بات پہ اڑے ہوئے ہیں اور ذرا بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے استاد علامہ اقبال سے بہت پیچھے ہیں۔ آپ سب بھی ان کی شاعری دیکھیے اور خود ہی انصاف کیجیے۔
کل ایک فورم پہ ایک ممبر اپنے استاد کو اقبال اور حالی سے بھی بڑے شاعر کہہ رہے تھے، شاید جوشِ خطابت میں وہ کچھ زیادہی دور تک نکل گئے، اقبال سا نابغہ روزگار شاعر، فلسفی اور ولی صدیوں بعد پیداہوتا ہے اور اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ آپس کی بات ہے کہ مجھ سے کم فہم کو بھی ان کی شاعری اکثر جگہوں سے بے وزن لگی۔ استاد کا ادب اپنی جگہ مگر اتنی زیادہ غیر معقول بات میرے خیال میں کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔وہ صاحب ابھی بھی اپنی اس بات پہ اڑے ہوئے ہیں اور ذرا بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے استاد علامہ اقبال سے بہت پیچھے ہیں۔ آپ سب بھی ان کی شاعری دیکھیے اور خود ہی انصاف کیجیے۔
رہتی دنیا تک ہیں آباد پیغام حی علی الصلواة
گونج کون و مَکاں بالِیدَگی حی علی الفلاح
قوم وطن سے تو ملت اسلامیہ سے عَلم بلند
وعدہ اس کا سچا ِذَا جَاء َ نَصر± للَِّ وَلفَتح
انتشارِ ملت میں پوشیدہ زوال قوم کی تقدیرِ ا±منگ
دن پہ جن کے ہو طاری رات کی سپیدءسحر صبح
گرہن آفتاب سے چھپتے ہلال پہ زور جبر ایام
ہوئے خود سے جدا چاہتے مقام مبلغ مصباح
انجم خود محتاج انتظار اطہر نور دل فگار
روح قرآن سینوں میں جن کے ڈھلا وہ قد افلح
پروانہ شمع سے جلے الزام تمازت آفتاب پہ ہو
عشق وفا کہاںجوچاہت محبوب وصل بیتاب پہ ہو
زندگی کو تماشا نہ بناو¿ تماشا خود زندگی ہو جائے
درد کا چیخ مسکن خوشی القاب پہ ہو
تخت عرش کودوام رہتا جو ہوا میں ہے
فرش محل نہیں پائیدار قائم جو بنیاد آب پہ ہو
گل گلزار سے تو مہک بہار سے ہے وابستہ
اگتا ہے صرف خار ہی بستا جو سراب پہ ھو
شاہ زماں سے دل گرفتہ رہتے جو معظم ہمراز
دلگیرءفقیر میں سدا رنگ تابانءمہتاب پہ ہو
لہو¿ مسلمان کی اس قدر ارزانِی پہلے تو نہ تھی
دین میں دی جاتی تعلیم نادانِی پہلے تو نہ تھی
خدا کے سامنے سر تو نہتے پہ تلوار نہ ا±ٹھتی
اسلام سرگزشتہ میں ایسی مسلمانی پہلے تو نہ تھی
اپنے ہاتھوں کو اپنا سر ہی درکار رہ گیا
قلب قوم میں ایسی ہوس فراوانی پہلے تو نہ تھی
ہاتھوں کی بنے زنجیر اب اس قوم کی پکا ر ہے
غفلت صبح میں ڈوبی قوم سلطانی پہلے تو نہ تھی
قلب ترازو میں پلڑا عشق اللہ و رسول کیا ہوا
چاہ طلب دنیا کا بھاری پلڑا انسانی پہلے تو نہ تھی
ربط یہ رہا۔