محمد علم اللہ
محفلین
(تحریر۔فیاض الدین صائب)
آداب عرض ہے فرسودہ صاحب۔
جیتے رہو میاں ،،،،، فعولو فعلن مفائلاتن"۔
جی میں سمجھا نہیں۔ میاں تم سمجھ بھی کیسے سکتے ہو۔ یہ تو بڑے بڑے تیس مار خاں نہیں سمجھ سکے تو تم کس کھیت کی مولی ہو۔ شعر کہنے کے لئے علمِ عروض جاننا بیت ضروری ہے بلکہ علمِ عروض ہی جاننا ضروری ہے۔
مگر ہم نے تو سنا ہے شاعری خیال کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ میاں گھاس کھا گئے ہو کیا، یہ خیال کہاں سے آگیا شاعری میں۔ خیال تو پڑھنے والے کے دماغ میں ہوتا ہے وہ جس معنی میں چاہے شعر کو ڈھال لے۔ اب تم اُستاد ذوق ہی کو لے لو، میاں کمال شاعر تھے۔ شاہ ظفر نے اُنھیں ایسے ہی اُستاد نہیں مانا۔ اور اُدھر غالب زور مارتے رہے مگر کچھ نہیں بن پڑا۔ بلکہ غالب نے تو یہاں تک کہہ دیا۔ " گر نہ ہوں معنی مرے اشعار میں"۔ یعنی غالب اس بات سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اُن کے اشعار میں معنی نہیں ہیں اور وہ ایک زبردست عروضییے ہیں۔ مگر حقیقت سب جانتے تھے کہ غالب کی شاعری میں معنوی عیب ہے، یعنی اُن کی شاعری خیال آفرینی جیسے عیب سے بھری پڑی تھی۔ اور جب غالب نے یہ دیکھا کہ وہ اپنی شاعری کو اس عیب سے پاک نہیں کرسکتے تو اُنھوں نے جھلا کر کہہ دیا کہ، ع۔۔گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل۔۔
اور جب غالب کو یہ اندازہ ہوگیا کہ کہ شاعری اُن کے بس کا روگ نہیں تو بلآخر اُنھوں نے ہتھیار ڈال ہی دییے اور یہ کہنے پہ مجبور ہو گئے کہ ع۔۔۔میں کہاں اور یہ وبال کہاں۔۔۔
میاں تم نے محمد حسین آزاد کی "آبِ حیات" تو پڑھی ہو گی۔ خیر رہنے دو، آجکل کے نوجوانوں کو پڑھنے لکھنے سے کیا تعلق۔ اُنھیں تو "فیس بُک" جیسی لغویات سے ہی فرصت نہیں۔
تو میں کہ رہا تھا کہ "آبِ حیات" میں اُستاد ذوق اور غالب کی شاعری کے بارے میں پڑھ لیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاوے گا۔
تو میاں اگر شاعری کرنا چاہتے ہو تو خیال آفرینی کے عیب کو ختم کرنا بہت ضروری ہے اور علمِ عروض پر مضبوط گرفت ہونی چاہیے۔
اب ذرا میرا ایک شعر سنو۔
اک کبوتر سردیوں کی شام میں
دل نہیں لگتا کسی بھی کام میں۔
کیا مترنم بحر ہےاور کیا خوبصورت قافییے ہیں۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مائی کا لال اگر اس میں معنی اور خیال آفرینی جیسے عیب نکال دے تو میں شاعری چھوڑ کر پلمبری کا کام کرنے لگوں گا۔ کمال دیکھیے کہ دونوں مصرعے ایک شعر میں ہونے کے باوجود دو لخت ہیں جس سے شعر پڑھنے والے کے لیے آسانی پیدا ہو جاتی کہ وہ اپنی عقل کے مطابق جس معنی میں چاہے شعر کو ڈھال لے۔
فرسودہ صاحب، آزاد شاعری اور نثری نظم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔۔۔۔۔۔لا حول ولا قوة، میاں اگر یہ مکان کرائے کا نہ ہوتا تو میں تمھیں کھڑے کھڑے نکال دیتا۔ میں اس قسم کی لغویات کو شاعری ہی نہیں سمجھتا۔ آدمی تو مادر پدر آزاد ہو سکتا ہے لیکن شاعری نہیں۔ دوسرا اس میں قافیہ تو سرے سے ہوتا ہی نہیں تو شاعر قافیہ پیمائی کا شوق بھلا کیسے پورا کرے اور نہ ہی آپ فعلن فعلن کی گردان کرسکتے ہیں۔ میاں لعنت بھیجئے اس قسم کی چیزوں پر جنھیں شاعری کی پڑیا میں باندھ کر بیچا جارہا ہے۔
فرسودہ صاحب، آپ کا نوجوان شعرا کی شاعری کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میاں ان میں سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ یہ سب سرقے باز ہیں۔ ہمارے پرانے شعرا کی شاعری میں ایک یہ بھی عیب تھا کہ وہ سرقے کے فن سے نا آشنا تھے۔ جبکہ ہمارے نوجوان اس ہنر سے مالا مال ہیں۔ ادھر کسی کی کوئی نظم یا غزل سامنے آئی اُدھر انھوں نے کمال مہارت سے اس پر ہاتھ صاف کردیا۔ اب مثال کے طور پر مجید امجد ہی کی نظم کو لے لو، حالاںکہ میں نظم کے سخت خلاف ہوں، " کاش میں تیرے بُنِ گوش کا بندہ ہوتا" میاں یہ بھی کوئی مصرع ہے۔ اور "بُنِ گوش" سے تو بہتر تھا کہ وہ "بھنے گوشت کا تکّہ" لکھ دیتے کم از کم پڑھنے میں مزہ تو آتا۔ اب اسی نظم کو ہمارے ایک نوجوان شاعر نے یوں درست کیا ہے۔ "کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا" بھئی مزہ آگیا۔ سرقے کے فن کا کیا خوب استعمال کیا ہے۔ اب کنگن میں جو بات ہے وہ بندے میں کہاں۔ دوسرے یہ کہ کنگن کے ساتھ "بھنگن" کا قافیہ کیا خوب جچتا ہے۔ اب ذرا میرے یہ مصرعے دیکھو۔ "کاش میں تیرے حسیں شہر کی بھنگن ہوتی۔۔۔۔کتنے ارمان سے گلیوں میں لگاتی جھاڑو"
تو میاں میں کہہ رہا تھا کہ جہاں نوجوان شعرا میں سرقے کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے وہاں ان کی شاعری میں کچھ عیب بھی ہیں، جیسے کہ خیال آفرینی ہے یا پھر یہ شعرا قافیہ پیمائی جیسی صلاحیت سے بالکل محروم ہیں۔ نیز ان کو علمِ عروض سے بھی کوئی غرض نہیں صرف اپنے وجدان کی بدولت دو چار شعر کہہ لیتے ہیں۔ اب میاں وجدان تو کسی بھی وقت انٹا غفیل ہوسکتا ہے۔
جی "انٹا غفیل"، میں کچھ سمجھا نہیں۔ ۔۔۔۔اماں تم نے یہ کب سے سمجھ لیا کہ تم سمجھ دار بھی ہو۔ انٹا غفیل کا مطلب ہوتا ہے "مدحوش یا دھت ہونا"۔ جب آدمی دھت ہوتا ہے تو اُسے پولس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، وجدان کیا خاک نظر آئے گا۔
فرسودہ صاحب، ہم نے سنا ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو لکھ کر بھی دیتے ہیں، خاص طور پر ایسی خواتین کو جنھیں حکیم نے نسخے میں لکھ کر دیا ہو کہ وہ شاعر بنیں۔
چل نکل یہاں سے نہیں تو مغلظات سنے گا۔ فرسودہ صاحب، ہم نے ایسی کون سی بات کہہ دی جس سے آپ کا پارہ ساتویں آسمان تک پنہچ گیا۔ صرف یہی تو پوچھا ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو لکھ کر دیتے ہیں؟ ابے اس گھر کا کرایہ تیرا باپ دے گا۔ چل نکل یہاں سے۔ بڑا آیا لکھ کر دیتے ہیں۔
ماخوز از :بزم اردو ڈاٹ نیٹ جناب سیف قاضی صاحب کے شکریے کے ساتھ۔
عبدالروف اعوان
انجم خان
الف عین محمد یعقوب آسی امجد میانداد باباجی ذوالقرنین سید زبیر سید شہزاد ناصر شوکت پرویز شیزان عمراعظم متلاشی محسن وقار علی محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد خلیل الرحمٰن محمداحمد مزمل شیخ بسمل مقدس مہ جبین نایاب نیرنگ خیال نیلم یوسف-2 محمد وارث افلاطون فارقلیط رحمانی شہزاد احمد عینی شاہ نگار ف ساجد
آداب عرض ہے فرسودہ صاحب۔
جیتے رہو میاں ،،،،، فعولو فعلن مفائلاتن"۔
جی میں سمجھا نہیں۔ میاں تم سمجھ بھی کیسے سکتے ہو۔ یہ تو بڑے بڑے تیس مار خاں نہیں سمجھ سکے تو تم کس کھیت کی مولی ہو۔ شعر کہنے کے لئے علمِ عروض جاننا بیت ضروری ہے بلکہ علمِ عروض ہی جاننا ضروری ہے۔
مگر ہم نے تو سنا ہے شاعری خیال کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ میاں گھاس کھا گئے ہو کیا، یہ خیال کہاں سے آگیا شاعری میں۔ خیال تو پڑھنے والے کے دماغ میں ہوتا ہے وہ جس معنی میں چاہے شعر کو ڈھال لے۔ اب تم اُستاد ذوق ہی کو لے لو، میاں کمال شاعر تھے۔ شاہ ظفر نے اُنھیں ایسے ہی اُستاد نہیں مانا۔ اور اُدھر غالب زور مارتے رہے مگر کچھ نہیں بن پڑا۔ بلکہ غالب نے تو یہاں تک کہہ دیا۔ " گر نہ ہوں معنی مرے اشعار میں"۔ یعنی غالب اس بات سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اُن کے اشعار میں معنی نہیں ہیں اور وہ ایک زبردست عروضییے ہیں۔ مگر حقیقت سب جانتے تھے کہ غالب کی شاعری میں معنوی عیب ہے، یعنی اُن کی شاعری خیال آفرینی جیسے عیب سے بھری پڑی تھی۔ اور جب غالب نے یہ دیکھا کہ وہ اپنی شاعری کو اس عیب سے پاک نہیں کرسکتے تو اُنھوں نے جھلا کر کہہ دیا کہ، ع۔۔گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل۔۔
اور جب غالب کو یہ اندازہ ہوگیا کہ کہ شاعری اُن کے بس کا روگ نہیں تو بلآخر اُنھوں نے ہتھیار ڈال ہی دییے اور یہ کہنے پہ مجبور ہو گئے کہ ع۔۔۔میں کہاں اور یہ وبال کہاں۔۔۔
میاں تم نے محمد حسین آزاد کی "آبِ حیات" تو پڑھی ہو گی۔ خیر رہنے دو، آجکل کے نوجوانوں کو پڑھنے لکھنے سے کیا تعلق۔ اُنھیں تو "فیس بُک" جیسی لغویات سے ہی فرصت نہیں۔
تو میں کہ رہا تھا کہ "آبِ حیات" میں اُستاد ذوق اور غالب کی شاعری کے بارے میں پڑھ لیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاوے گا۔
تو میاں اگر شاعری کرنا چاہتے ہو تو خیال آفرینی کے عیب کو ختم کرنا بہت ضروری ہے اور علمِ عروض پر مضبوط گرفت ہونی چاہیے۔
اب ذرا میرا ایک شعر سنو۔
اک کبوتر سردیوں کی شام میں
دل نہیں لگتا کسی بھی کام میں۔
کیا مترنم بحر ہےاور کیا خوبصورت قافییے ہیں۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مائی کا لال اگر اس میں معنی اور خیال آفرینی جیسے عیب نکال دے تو میں شاعری چھوڑ کر پلمبری کا کام کرنے لگوں گا۔ کمال دیکھیے کہ دونوں مصرعے ایک شعر میں ہونے کے باوجود دو لخت ہیں جس سے شعر پڑھنے والے کے لیے آسانی پیدا ہو جاتی کہ وہ اپنی عقل کے مطابق جس معنی میں چاہے شعر کو ڈھال لے۔
فرسودہ صاحب، آزاد شاعری اور نثری نظم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔۔۔۔۔۔لا حول ولا قوة، میاں اگر یہ مکان کرائے کا نہ ہوتا تو میں تمھیں کھڑے کھڑے نکال دیتا۔ میں اس قسم کی لغویات کو شاعری ہی نہیں سمجھتا۔ آدمی تو مادر پدر آزاد ہو سکتا ہے لیکن شاعری نہیں۔ دوسرا اس میں قافیہ تو سرے سے ہوتا ہی نہیں تو شاعر قافیہ پیمائی کا شوق بھلا کیسے پورا کرے اور نہ ہی آپ فعلن فعلن کی گردان کرسکتے ہیں۔ میاں لعنت بھیجئے اس قسم کی چیزوں پر جنھیں شاعری کی پڑیا میں باندھ کر بیچا جارہا ہے۔
فرسودہ صاحب، آپ کا نوجوان شعرا کی شاعری کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میاں ان میں سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ یہ سب سرقے باز ہیں۔ ہمارے پرانے شعرا کی شاعری میں ایک یہ بھی عیب تھا کہ وہ سرقے کے فن سے نا آشنا تھے۔ جبکہ ہمارے نوجوان اس ہنر سے مالا مال ہیں۔ ادھر کسی کی کوئی نظم یا غزل سامنے آئی اُدھر انھوں نے کمال مہارت سے اس پر ہاتھ صاف کردیا۔ اب مثال کے طور پر مجید امجد ہی کی نظم کو لے لو، حالاںکہ میں نظم کے سخت خلاف ہوں، " کاش میں تیرے بُنِ گوش کا بندہ ہوتا" میاں یہ بھی کوئی مصرع ہے۔ اور "بُنِ گوش" سے تو بہتر تھا کہ وہ "بھنے گوشت کا تکّہ" لکھ دیتے کم از کم پڑھنے میں مزہ تو آتا۔ اب اسی نظم کو ہمارے ایک نوجوان شاعر نے یوں درست کیا ہے۔ "کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا" بھئی مزہ آگیا۔ سرقے کے فن کا کیا خوب استعمال کیا ہے۔ اب کنگن میں جو بات ہے وہ بندے میں کہاں۔ دوسرے یہ کہ کنگن کے ساتھ "بھنگن" کا قافیہ کیا خوب جچتا ہے۔ اب ذرا میرے یہ مصرعے دیکھو۔ "کاش میں تیرے حسیں شہر کی بھنگن ہوتی۔۔۔۔کتنے ارمان سے گلیوں میں لگاتی جھاڑو"
تو میاں میں کہہ رہا تھا کہ جہاں نوجوان شعرا میں سرقے کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے وہاں ان کی شاعری میں کچھ عیب بھی ہیں، جیسے کہ خیال آفرینی ہے یا پھر یہ شعرا قافیہ پیمائی جیسی صلاحیت سے بالکل محروم ہیں۔ نیز ان کو علمِ عروض سے بھی کوئی غرض نہیں صرف اپنے وجدان کی بدولت دو چار شعر کہہ لیتے ہیں۔ اب میاں وجدان تو کسی بھی وقت انٹا غفیل ہوسکتا ہے۔
جی "انٹا غفیل"، میں کچھ سمجھا نہیں۔ ۔۔۔۔اماں تم نے یہ کب سے سمجھ لیا کہ تم سمجھ دار بھی ہو۔ انٹا غفیل کا مطلب ہوتا ہے "مدحوش یا دھت ہونا"۔ جب آدمی دھت ہوتا ہے تو اُسے پولس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، وجدان کیا خاک نظر آئے گا۔
فرسودہ صاحب، ہم نے سنا ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو لکھ کر بھی دیتے ہیں، خاص طور پر ایسی خواتین کو جنھیں حکیم نے نسخے میں لکھ کر دیا ہو کہ وہ شاعر بنیں۔
چل نکل یہاں سے نہیں تو مغلظات سنے گا۔ فرسودہ صاحب، ہم نے ایسی کون سی بات کہہ دی جس سے آپ کا پارہ ساتویں آسمان تک پنہچ گیا۔ صرف یہی تو پوچھا ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو لکھ کر دیتے ہیں؟ ابے اس گھر کا کرایہ تیرا باپ دے گا۔ چل نکل یہاں سے۔ بڑا آیا لکھ کر دیتے ہیں۔
ماخوز از :بزم اردو ڈاٹ نیٹ جناب سیف قاضی صاحب کے شکریے کے ساتھ۔
عبدالروف اعوان
انجم خان
الف عین محمد یعقوب آسی امجد میانداد باباجی ذوالقرنین سید زبیر سید شہزاد ناصر شوکت پرویز شیزان عمراعظم متلاشی محسن وقار علی محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد خلیل الرحمٰن محمداحمد مزمل شیخ بسمل مقدس مہ جبین نایاب نیرنگ خیال نیلم یوسف-2 محمد وارث افلاطون فارقلیط رحمانی شہزاد احمد عینی شاہ نگار ف ساجد