ایک عہد خامو ش ہو گیا------- ڈاکٹر وزیر آغا گزر گئے

خاورچودھری

محفلین
السلام علیکم
ابھی چند منٹ پہلے اردو کے نام ور افسانہ نگار جناب محمد حامد سراج صاحب کا ایس ایم ایس آیا ہے کہ ارود کے ممتاز شاعر،نقاد اور محقق ڈاکٹر وزیر آغا اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم کے چلے جانے سے اردو ادب کی موجود فضا یقینا اداس ہے ہی مگر اب ان کا بدل شاید ہی پیدا ہو۔ وہ جہاں تنقید میں بہت نمایاں تھے وہاں ان کی انشائیہ نگاری کے چرچے بھی ہر سو تھے۔ وہ نہ صرف پاکستان ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی ادبی خدمات کی وجہ سے مشہور تھے۔
ہم ان کے لیے غم زدہ ہیں اور ان کے صاحبزادے سلیم آغا قزلباش سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُن کے درجات بلند فرمائے (آمین)

یہ واقعتا اردو ادب کا بڑا خسارہ ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اردو کے عظیم دانشور اور شاعر وادیب ڈاکٹروزیر آغا۸؍ستمبر۲۰۱۰ء کو رات ایک بجے کے قریب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔اناللہ و انا الیہ راجعون
وزیرآغاکی عمر۸۸ برس تھی۔ان کی وفات سے محض الفاظ کی رسمی حد تک نہیں بلکہ حقیقت میں اردو دنیا ایک بہت بڑے تخلیق کار اور ایک بہت بڑے دانشورسے محروم ہو گئی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا۱۸ مئی ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے تھے۔۱۹۴۳ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج سے معاشیات میں ایم اے کیا۔۱۹۵۶ء میں پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کیا۔۱۹۶۰ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی جریدہ ’’ادبی دنیا‘‘ کے جائنٹ ایڈیٹربنے اور مولانا کی وفات تک ادبی دنیا کے ساتھ منسلک رہے۔ان کی وفات کے بعد۱۹۶۵ء میں تاریخ ساز ادبی جریدہ اوراق کا اجرا کیا۔
ڈاکٹر وزیر آغا کثیرالجہت شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ مفکر دانشور بھی تھے۔اردو ادب میں میڈیاکر دانشوروں کی تو ہمیشہ بہتات رہی ہے لیکن علم و معرفت کے لحاظ سے ڈاکٹر وزیر آغا کے پائے کا مفکر دانشور اب دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔اردو انشائیہ کے بانی کی حیثیت سے انہوں نے ایک بڑا ادبی کام کیا۔ اردوانشائیہ کے خدو خال کو نمایاں کرنے میں بہت زیادہ محنت سے کام لیا اور اس نئی صنف کی شدید ترین بلکہ اخلاقی لحاظ سے بد ترین مخالفت کے باوجوداسے اردو میں رائج کر دکھایا ۔شاعری میں غزل اور نظم دونوں اصناف میں ان کا انتہائی گراں قدرحصہ ہے۔جدید نظم کے سلسلہ میں تو ان کا کام اتنا اہم ہے کہ ان کے مقام کا تعین کرنے کے لیے جدید نظم کے پورے سلسلے کا از سرنو مطالعہ کرنا پڑے گا۔ان کی دو طویل نظمیں’’آدھی صدی کے بعد‘‘ اور’’اک کتھا انوکھی‘‘اردو کی شاہکارجدید نظمیں ہیں۔
وزیر آغا نے’’مسرت کی تلاش‘‘سے اپناعلمی و تنقیدی سفر شروع کیا۔طنزومزاح اور حقیقی مسرت کے فرق کی جستجو میں وہ تخلیقی اسرار اور خود کو جاننے کی لذت سے آشنا ہوئے۔کائنات کے اسرار و رموز کی جستجوانہیں بیک وقت سائنس ،فلسفہ اور الہٰیات کی دنیاؤں میں لیے لیے پھری۔انہوں نے مغربی علوم کا بھر پور مطالعہ کیا لیکن مشرقی علوم کے روبرو لا کر پھر اس مطالعہ سے اپنے نتائج خود اخذ کیے۔امتزاجی تنقیدکے اصول کو علمی سطح پر بھی اور عملی سطح پر رائج کیا۔مجموعی طور پر وزیر آغا نے ساٹھ سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ان میں بعض ضخیم کتابیں بھی شامل ہیں۔ان کی مرتب کردہ یا تالیف و تدوین کردہ کتب کی الگ سے فہرست ہے۔ان کی تخلیقی کتابیں تو تمام کی تمام اپنی جگہ مطالعہ کا تقاضا کرتی ہیں جبکہ علمی و تنقیدی کتابوں میں سے ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘،’’تخلیقی عمل‘‘،’’دستک اس دروازے پر‘‘ منفرد اور امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغاکی بعض کتب اور تخلیقات کے انگریزی ،ڈینش،یونانی،سویڈش،جرمن، ہسپانوی،مالٹیز، جاپانی،ہندی، بنگالی، مراٹھی، پنجابی، سرائیکی اور دوسری زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔وزیر آغا کے فن کی مختلف جہات پر تیرہ کے لگ بھگ رسائل کے مرتب کردہ خصوصی نمبرز یا کتابیں چھپ چکی ہیں۔انڈوپاک کی یونیورسٹیوں میں ان پرایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ۱۰ سے زائد مقالات لکھے جا چکے ہیں۔
اردو کی علمی و ادبی دنیا کے وہ تمام لوگ جو میڈیائی شہرت کے پیچھے بھاگنے سے زیادہ ادب کو معرفتِ ذات و کائنات کاایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں،ڈاکٹر وزیر آغا کی وفات پر سوگوار اور غم زدہ ہیں ۔
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیات
لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا مجھے

اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہی جانے والا (وزیر آغا)

حیدر قریشی(جرمنی سے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
خدا ان کی مغفرت کرے۔ جن دو لوگوں یعنی ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی میں ادبی چشمک تھی وہ دونوں ہی اب اس دنیا سے اٹھ چکے ہیں۔
 
انا للہ و انا الیہ راجعون

دوستوں نے بجا کہا کہ زمین بڑے لوگوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ اعجاز عبید صاحب نے مختصر الفاظ میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کے بارے میں بہت کچھ تازہ کر دیا۔

کئی سال پہلے مجھے ڈاکٹر صاحب مرحوم سے تفصیلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان کے پورے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت اور بات بات پر مسکرانا ابھی تک نظروں کے سامنے ہے۔ میرے ساتھ جامعہ ہندسیہ ٹیکسلا کے اس وقت کے ایک طالب علم شفقات احمد چوہدری تھے۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے گاؤں وزیر پور ان سے ملنے گئے تھے، کوئی چار گھنٹے کی ملاقات یوں کہئے ایک بزرگ اور دو بچوں کی نشست تھی۔

ان کا مطالعے کا کمرہ پورا دالان تھا، جس میں یہاں وہاں کتابوں کے ڈھیر لگے تھے، میں تو کچھ نہیں بولا، شفقات نے کہا سر اجازت ہو تو ان کتابوں کو کسی ترتیب میں لگا دوں؟ کہنے لگے نہیں یار، میرا کچھ پتہ نہیں ہوتا کس وقت کون سی کتاب کی طرف مائل ہو جاؤں۔ اور یہ ڈھیر مجھے زبانی یاد ہیں، میں نے کہہ رکھا ہے سب کو کہ کوئی ان کتابوں کو ادھر ادھر نہ کرے۔

اور بھی بہت باتیں ہوئیں، ادب پر بھی اور دیگر علوم و فنون پر بھی! اس وقت اتنا شعور نہیں تھا کہ یاد داشت کے طور پر لکھ لیتا۔ اب احساس ہوتا ہے کہ میں حکمت کا کتنا بڑا خزانہ محفوظ کرنے سے محروم رہ گیا۔

انا للہ و انا الیہ راجعون
 

علی فاروقی

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
خدا ان کی مغفرت کرے۔ جن دو لوگوں یعنی ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی میں ادبی چشمک تھی وہ دونوں ہی اب اس دنیا سے اٹھ چکے ہیں۔

بہت افسوسناک خبر ہے، جو سورج اُٹھتے جارہے ہیں، اُن کی جگہ لینے کے لیے کوی ستارہ بھی تو نہیں۔
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرماے۔
 
Top