ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور اصلاح کیلیے،'' اک تمنا کی جستجو ہاری ''

اک تمنا کی جستجو ہاری
میں نے اپنے ہی روبرو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
قریہ قریہ میں کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ ایسے
لفظ ہارے تھے، گفتگو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کیا وجہ ہے کہ آرزو ہاری
کچھ بتاٗو تو حضرت اظہر
کیا تقاضا تھا، آبرو ہاری
 

احمد بلال

محفلین
بہت عمدہ۔ زبردست۔
اصلاح تو اساتذہ کریں گے۔ البتہ مشورہ دے سکتا ہوں
اب کے بگڑا معاملہ ایسا
یا سب جمع کے صیغے لے آئیں "اب کے بگڑے معاملے ایسے"
کیا وجہ ہے کہ آرزو ہاری
وجہ بروزن فاع ہوتا ہے جبکہ یہاں بروزن فعو آ رہا ہے۔ صیغوں کی غیر مطابقت بھی معلوم ہو رہی ہے۔ اس کو یوں کر دیں
وجہ کیا تھی وہ آرزو ہاری
 
بہت عمدہ۔ زبردست۔
اصلاح تو اساتذہ کریں گے۔ البتہ مشورہ دے سکتا ہوں
اب کے بگڑا معاملہ ایسا
یا سب جمع کے صیغے لے آئیں "اب کے بگڑے معاملے ایسے"
کیا وجہ ہے کہ آرزو ہاری
وجہ بروزن فاع ہوتا ہے جبکہ یہاں بروزن فعو آ رہا ہے۔ صیغوں کی غیر مطابقت بھی معلوم ہو رہی ہے۔ اس کو یوں کر دیں
وجہ کیا تھی وہ آرزو ہاری

جی درست فرمایا
 
اک تمنا تھی،جستجو ہاری
حیف صد حیف، روبرو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
قریہ قریہ میں کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ ایسا
لفظ ہارے تھے، گفتگو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
وجہ کیا تھی کہ آرزو ہاری
کچھ بتاٗو تو حضرت اظہر
کیا تقاضا تھا، آبرو ہاری
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جو تھی ناقابل شکست اب تک۔۔ وجہ کیا تھی کہ آرزو ہاری۔۔۔ مصرعوں کا تطابق درست نہیں لگتا۔۔۔
جب جو کا استعمال کیا ہے تو وہ کو بھی لانا پڑے گا تاکہ بات پوری ہوسکے۔۔۔ (یہ میری رائے ہے جو استاد کی نہیں کہی جاسکتی، بہتر لگے تو اپنائیے گا)
جو تھی ناقابل شکست اب تک۔۔۔ کیا سبب تھا وہ آرزو ہاری؟؟
مطلع ہے۔۔
اک تمنا تھی جستجو ہاری
حیف صد حیف روبرو ہاری
چلیے جستجو تو ہار گئی اور وہ روبرو ہاری اور اس پر بہت افسوس ہوا۔۔۔ لیکن تمنا کیا تھی؟؟؟
تھی کی جگہ شاید کی ہی بہتر ہو۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ بلال اورر شاہد۔ دوسرے مشورے دے دیں اور اظہر ان کے مطابق تصحیحات کر لیں تو میں فائنل شکل پر اپنی رائے کا اظہار کروں۔ بزرگ ہونے کا نا جائز فائدہ!!!
 
اک تمنا کی،جستجو ہاری
حیف صد حیف، روبرو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
قریہ قریہ میں کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ ایسا
لفظ ہارے تھے، گفتگو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کیا سبب تھا کہ آرزو ہاری
کچھ بتاو تو حضرت اظہر
کیا تقاضا تھا، آبرو ہاری
 
کچھ تبدیلیاں سوجھی ہیں ، امید ہے کہ حتمی ہوں گی :battingeyelashes:

رنگ ہارے تھے، گُل نے بُو ہاری
زندگی میرے روبرو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
قریہ قریہ بھی کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ ایسے
لفظ روئے تھے، گفتگو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ وجہ ہے کہ آرزو ہاری
محو حیرت ہوں میں، مری قسمت
بیٹھ میرے ہی، روبرو ہاری
کچھ بتاٗو تو حضرت اظہر
کیا تقاضا تھا، آبرو ہاری
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
رنگ ہارے تھے، گُل نے بُو ہاری
زندگی میرے روبرو ہاری
÷÷پہلا مصرع قابل غور ہے۔۔ بو کا مطلب الٹ لیاجاسکتا ہے۔۔۔
عزت نفس ہار کر اک بار
قریہ قریہ بھی کوبکو ہاری
÷÷÷قریہ قریہ بھی کوبہ کو بھی ہاری ہونا چاہئے جملے کے حساب سے، جو نہیں ہوسکتا۔۔۔
اب کے بگڑا معاملہ ایسے
لفظ روئے تھے، گفتگو ہاری
÷÷ درست، حالانکہ اب کے بگڑا معاملہ کچھ یوں مجھے زیادہ بہتر لگتا ہے، لیکن ضروری نہیں
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ وجہ ہے کہ آرزو ہاری
÷÷وجہ کو سبب کریں گے تو اچھا لگے گا۔۔۔ یہاں وجہ کو وجا پڑھا جائے گا، یہ درست ہے یا نہیں، میں فی الحال نہیں جانتا۔۔
محو حیرت ہوں میں، مری قسمت
بیٹھ میرے ہی، روبرو ہاری
÷÷ محو حیرت ہوں میں، مری قسمت۔۔۔ آکے میرے ہی روبرو ہاری۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔۔ جبکہ بیٹھ پرانا لگتا ہے اور اس میں کر کا لفظ بھی حذف ہوچکا ہے جملے کے اعتبار سے۔۔
کچھ بتاٗو تو حضرت اظہر
کیا تقاضا تھا، آبرو ہاری
÷÷ دیکھنے سے غلط نہیں لگتا، لیکن مقطع ہے، مقطعے کا حق ادا نہیں ہوا شاید۔۔
اس میں کچھ اور قافیے تھے جو آپ استعمال کرسکتے تھے جن میں سے دو میں بتا دیتا ہوں
سو (س پر پیش) ، اسے چار سو کے طور پرلیا جاسکتا ہے یعنی چاروں طرف۔۔
جو یا آب جو۔۔۔ عدیم ہاشمی کو دیکھئے:
کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی، جانے کدھر بھنور گئے
عدوبمعنی دشمن۔۔۔لیکن عدو مذکر ہے، مؤنث نہیں تو اس کا استعمال کوئی ترکیب یا ترتیب بنا کر کرنا پڑے گا۔۔
اور آپ
بو کا استعمال جو آپ نے کیا ہے اس کے ساتھ رنگ ہوتا تو غلط مطلب نکلنے کا سوال ہی نہیں تھا۔۔ یعنی رنگ و بو کا استعمال درست ہے۔
 
شاہد شاہنواز یوں دیکھیے تو


گُل یہ چیخے کہ رنگُ بو ہاری
اور (یا وہ بھی) گلشن کے روبرو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
دل شکستہ سی کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ کچھ یوں
لفظ ہارے تھے، گفتگو ہاری
ہارنے پر جو آ گئی اک بار
میری قسمت بھی چار سُو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ سبب تھا کہ آرزو ہاری
کچھ بتاو تو حضرت اظہر
کن تقاضوں پہ آبرو ہاری
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گُل یہ چیخے کہ رنگُ بو ہاری
اور (یا وہ بھی) گلشن کے روبرو ہاری
÷÷÷اور بہتر ہے
عزت نفس ہار کر اک بار
دل شکستہ سی کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ کچھ یوں
لفظ ہارے تھے، گفتگو ہاری
÷÷÷ٹھیک ہے
ہارنے پر جو آ گئی اک بار
میری قسمت بھی چار سُو ہاری
÷÷درست
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ سبب تھا کہ آرزو ہاری
÷÷کہ کی جگہ دوسرے مصرعے میں وہ لگا دیجئے تاکہ جو جو مصرع اولیٰ میں آیا ہے، اس کا مقصد پورا ہو۔
کچھ بتاو تو حضرت اظہر
کن تقاضوں پہ آبرو ہاری
÷÷درست
ایک بات جو وجہ کے لفظ کے حوالے سے میں نے کہی، غلط نہ تھی کہ مجھے علم نہیں تھا وجہ کا استعمال بطور وجا درست ہے یا غلط اور یہی میں نے کہا کہ مجھے علم نہیں۔۔۔ تاہم اب علم ہے کہ یہ استعمال درست ہے کیونکہ میری غزل پر لفظ وجہ کو جو بطور قافیہ باندھا گیا تھا، اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے دیکھا نہیں تھا، اور استاد محترم نے بھی شاید حتمی رائے لفظ وجہ کے حوالے سے نہیں دی۔۔۔ اس سے پہلے ۔۔۔
احمد بلال نے لکھا
کیا وجہ ہے کہ آرزو ہاری​
وجہ بروزن فاع ہوتا ہے جبکہ یہاں بروزن فعو آ رہا ہے۔ صیغوں کی غیر مطابقت بھی معلوم ہو رہی ہے۔ اس کو یوں کر دیں​
وجہ کیا تھی وہ آرزو ہاری​

یعنی بقول احمد بلال، وجہ کو وجا کہنا درست نہیں، بلکہ وجہا کہنا ٹھیک ہے ۔۔۔ لہذا لفظ وجہ کے استعمال پر میرا اعتراض درست اور میرا استعمال جو میں نے اپنے مطلعے میں کیا ہے، وہ غلط ہے۔۔۔ بقول احمد بلال۔۔۔ میں احمد بلال سے متفق ہوں لیکن استاد محترم کی رائے کا انتظار کرنا زیادہ بہتر ہے۔۔۔​
 

الف عین

لائبریرین
وجہ یہں بھی غلط ہے، اور ’وجہا‘ بطور فعلن بھی غلط ہے۔ درست وہی ہے جو بلال نے کہا ہے۔، یعنی ج اور ہ ساکن۔ سامنے کی مثال ہے
دہر میں نقش وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
باقی تو شاہد نے دیکھ ہی لیا ہے، اور میں متفق ہوں۔البتہ یہاں اب بھی ابلاغ نہیں ۃؤٹآ ڈڑصت
عزت نفس ہار کر اک بار
دل شکستہ سی کوبکو ہاری
 
وجہ یہں بھی غلط ہے، اور ’وجہا‘ بطور فعلن بھی غلط ہے۔ درست وہی ہے جو بلال نے کہا ہے۔، یعنی ج اور ہ ساکن۔ سامنے کی مثال ہے
دہر میں نقش وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
باقی تو شاہد نے دیکھ ہی لیا ہے، اور میں متفق ہوں۔البتہ یہاں اب بھی ابلاغ نہیں ۃؤٹآ ڈڑصت
عزت نفس ہار کر اک بار
دل شکستہ سی کوبکو ہاری
ایسے دیکھ لیجیے اُستاد محترم

گُلل نے کملا کے رنگُ بو ہاری
جس کی خاطر تھی ، روبرو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
جابجا بیچ کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ کچھ یوں
لفظ حیراں تھے، گفتگو ہاری
ہارنے پر جو آ گئی اک بار
میری قسمت بھی چار سُو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ سبب تھا کہ آرزو ہاری
کچھ بتاو تو حضرت اظہر
کن تقاضوں پہ آبرو ہاری
 
وجہ یہں بھی غلط ہے، اور ’وجہا‘ بطور فعلن بھی غلط ہے۔ درست وہی ہے جو بلال نے کہا ہے۔، یعنی ج اور ہ ساکن۔ سامنے کی مثال ہے
دہر میں نقش وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
باقی تو شاہد نے دیکھ ہی لیا ہے، اور میں متفق ہوں۔البتہ یہاں اب بھی ابلاغ نہیں ۃؤٹآ ڈڑصت
عزت نفس ہار کر اک بار
دل شکستہ سی کوبکو ہاری
بلکہ جناب اُستاد یوں دیکھیے

ہم نے ایسے نہ اپنی خو ہاری
جنگ لڑ کے ہی دوبدو ہاری
دیکھ گلشن کے تیری ہی خاطر
گُل نے کملا کے رنگ بو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
کونے کونے میں کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ کچھ یوں
لفظ ہارے تھے، گفتگو ہاری
ہارنے پر جو آ گئی اک بار
میری قسمت بھی چار سُو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ سبب تھا کہ آرزو ہاری
کچھ بتاو تو حضرت اظہر
کن تقاضوں پہ آبرو ہاری
 
وجہ یہں بھی غلط ہے، اور ’وجہا‘ بطور فعلن بھی غلط ہے۔ درست وہی ہے جو بلال نے کہا ہے۔، یعنی ج اور ہ ساکن۔ سامنے کی مثال ہے
دہر میں نقش وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
باقی تو شاہد نے دیکھ ہی لیا ہے، اور میں متفق ہوں۔البتہ یہاں اب بھی ابلاغ نہیں ۃؤٹآ ڈڑصت
عزت نفس ہار کر اک بار
دل شکستہ سی کوبکو ہاری
یہ فائنل ہی سمجھیے اُستاد محترم، دل کہیں ٹک نہیں رہا تھا نہ

موت آئی تو روبرو ہاری
زندگی دیکھ پھر بھی تُو ہاری
دیکھ گلشن کہ تیری ہی خاطر
گُل نے کُملا کے رنگُ بُو ہاری
عزت نفس ہار کر اک بار
ایسے بکھری کہ کوبکو ہاری
اب کے بگڑا معاملہ ایسا
لفظ روئے تھے، گفتگو ہاری
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ سبب تھا وہ آرزو ہاری
ہارنے پر جو آ گئی اک بار
میری قسمت بھی چار سو ہاری
کچھ بتاٗو تو حضرت اظہر
کن تقاضوں پہ آبرو ہاری
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دیکھ گلشن کے تیری ہی خاطر
گُل نے کُملا کے رنگُ بُو ہاری
÷÷ پہلے مصرعے میں کے کی جگہ کہ درست ہے۔۔۔
جو تھی ناقابل شکست اب تک
کچھ سبب تھا کہ آرزو ہاری
÷÷÷ کچھ سبب تھا وہ آرزو ہاری۔۔۔ بہتر ہے
 
Top