محمد اظہر نذیر
محفلین
ہنگامہء محشر ہے، میداں میں کھڑا ہوں میں
کر دے گا شفاعت وہ، جس در پہ پڑا ہوں میں
اتنی تھی خطا میری، ہم زانو تھے بوسیدہ
اور ساتھ نبھانا تھا، اس کار سڑا ہوں میں
رغبت اُسے نظموں سے، غزلوں سے محبت ہے
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں
ہر بار کے ذلت تھی، ہر بار تری خاطر
خود ہی کو منایا ہے، خود ہی سے لڑا ہوں میں
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی
بولا تھا مجھے یہ کیوں؟ پاؤں پہ کھڑا ہوں میں
سوہنی کو ڈبو بیٹھا، پھر دریا کنارے پر
یہ مجھ سے کہا اظہر، بے کار گھڑا ہوں میں