ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور اصلاح کی غرض سے،'' ہنگامہء محشر ہے؛؛

درست ہے، اگرچہ مجھے ذاتی طور پر سوہنی کا واؤ گرانا اچھا نہیں لگتا۔

پھر اگر یوں کہوں سوہنی کو چھوڑتے ہوئے اُستاد محترم تو کیسا رہے گا

اظہر میں ڈبو دوں گا، کیا میرا بھروسہ ہے
منجھدھار ہے دریا کی، بے کار گھڑا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
سوہنی کے بغیر کچا گھڑا سمجھ میں نہیں آئے گا!! میرے خیال میں سب سے بہتر یوں ہوگا
میں سوہنی کو اظہر دریا میں ڈبو دوں گا
یا
منجدھار میں چھوڑوں گا
بھی درست ہو گا۔
 
سوہنی کے بغیر کچا گھڑا سمجھ میں نہیں آئے گا!! میرے خیال میں سب سے بہتر یوں ہوگا
میں سوہنی کو اظہر دریا میں ڈبو دوں گا
یا
منجدھار میں چھوڑوں گا
بھی درست ہو گا۔

یوں دیکھ لیجئے اُستاد محترم

ہنگامہ محشر ہے، میداں میں کھڑا ہوں میں​
کر دے گا شفاعت وہ، جس در پہ پڑا ہوں میں​
بزدل سا بنایا ہے کیوں تیری محبت نے​
کیا بات ہے کیا جانوں، ویسے تو کڑا ہوں میں​
شعروں سے محبت ہے، اُسکو تو مجھے دیکھے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
ہر بار ملا تُجھ سے، ہر بار تھی رسوائی​
خود ہی کو منایا پھر، خود ہی سے لڑا ہوں میں​
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی​
تب مجھ سے کہا کیوں تھا، پاؤں پہ کھڑا ہوں میں​
میں سوہنی کو اظہر، منجدھار میں چھوڑوں گا
کچا ہی بنایا ہے ، بے کار گھڑا ہوں میں
 
سوہنی کے بغیر کچا گھڑا سمجھ میں نہیں آئے گا!! میرے خیال میں سب سے بہتر یوں ہوگا
میں سوہنی کو اظہر دریا میں ڈبو دوں گا
یا
منجدھار میں چھوڑوں گا
بھی درست ہو گا۔

ایک اور شعر پر دل بیٹھ نہیں رہا محترم اُستاد، اگر اس شعر کو یوں کہ لوں تو کیسا رہے گا آپ کے خیال میں


ہر بار ملا تُجھ سے، ہر بار تھی رسوائی​
خود ہی کو منایا پھر، خود ہی سے لڑا ہوں میں​
کی بجائے​
ہر بار ملا تُجھ سے، مغلوب زد خواہش
خود ہی کو منایا پھر، جب خود سے لڑا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
مغلوب زدہ؟ مغلوب خوف مفعولی حالت ہے۔میرے خیال میں اس کی یہ صورت بہتر ہو گی
میں جب بھی ملا تجھ سے، اکثر ملی رسوائی
 
مغلوب زدہ؟ مغلوب خوف مفعولی حالت ہے۔میرے خیال میں اس کی یہ صورت بہتر ہو گی
میں جب بھی ملا تجھ سے، اکثر ملی رسوائی

ہنگامہ محشر ہے، میداں میں کھڑا ہوں میں​
کر دے گا شفاعت وہ، جس در پہ پڑا ہوں میں​
بزدل سا بنایا ہے کیوں تیری محبت نے​
کیا بات ہے کیا جانوں، ویسے تو کڑا ہوں میں​
شعروں سے محبت ہے، اُسکو تو مجھے دیکھے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
میں جب بھی ملا تُجھ سے، اکثر ملی رُسوائی
خود ہی کو منایا پھر، جب خود سے لڑا ہوں میں
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی​
تب مجھ سے کہا کیوں تھا، پاؤں پہ کھڑا ہوں میں​
میں سوہنی کو اظہر، منجدھار میں چھوڑوں گا
کچا ہی بنایا ہے ، بے کار گھڑا ہوں میں
 
Top