ایک غزل،'' وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا'' از: محمد اظہر نذیر

دوبارہ کمپوز کی ہے کیا اظہر۔ اس میں تم نے درست ’ئ‘ استعمال کی ہے۔ پہلے بلکہ اکثر اوپر والی ہمزہ کرتے تھے۔ ’ئے‘ کے لئے بھی ’ےْ‘۔ یہاں شاید پتہ نہ لگے لیکن میرا ورڈ فوراً غلطی کی نشان دہی کر دیتا ہے۔
جی اُستاد محترم دوبارہ جمیل نوری فونٹ مین کمپوز کی ہے، م م مغل صاحب کی ہدایت پر
 

الف عین

لائبریرین
وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا کے گیا، ایسے لپٹنے آیا

// یوں کہو تو
وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا ہی گیا، ایسے لپٹنے آیا


ابر تھا، رعد نہ طوفاں، نہ کہیں تھی ہلچل
جانے پھر کیا تھا کہ یکدم ہی چمٹنے آیا

// چمٹنے یا لپٹنے ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس شعر میں اور مطلع میں ذرا فاصلہ کر دو، اسے تیسرا چوتھا شعر بنا دو۔
اصلاح اس طرح ممکن ہے، کچھ رواں کرنے کی کوشش کی ہے۔
ابر تھا، رعد تھی، طوفاں تھا ، نہ کچھ تھی ہلچل
کیا ہوا تھا اسے، بے وجہ چمٹنے آیا

میں نے تنہائی کی برسوں سے بچھائی تھی بساط
وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ اُلٹنے آیا

// اچھا شعر ہے، پہلا مصرع پسند آیا۔ سوائے ’میں‘ کے۔ لیکن ’لگے ہاتھ‘ کیوں، لگے ہاتھ محاورے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اور کام کرنے گیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ کام بھی کر آیا۔ ایسا کام ’پل میں‘ کیوں؟ اس کو یوں کر دیا جائے
میں نے تنہائی کی برسوں میں بچھائی تھی بساط (اس تبدیلی پر غور کرو)
وہ اُسے ایک ہی لحظے میں اُلٹنے آیا

اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی
وہ بھی مستی میں تھا سرشار، رپٹنے آیا

// پھسلا کا کیا محل ہے۔
اُس کی قربت کا وہ نشہ تھا کہ بہکا میں بھی
وہ بھی مستی میں تھا سرشار، رپٹنے آیا

یوں لگا یار ہے، یاری کو نبھانا چاہے
اور لگا یوں بھی کہ، دشمن ہے، نبٹنے آیا
// کبھی لگتا ہے وہ ہے یار ، نبھائے یاری
اور کبھی یوں لگاے، دشمن ہے، نبٹنے آیا

کر دیا وصل کی لذت سے شناسا اظہر
اور بساط شب ہجراں کو پلٹنے آیا
// ’اور‘ کیوں
کر دیا وصل کی لذت سے شناسا اس نے، مقطع کچھ اور کہو، ویسے ضروری تو نہیں، یہاں ’اس نے‘ کچھ ضروری محسوس ہو رہا ہے۔
وہ بساط شب ہجراں کو پلٹنے آیا
 
وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا​
مجھ کو تڑپا ہی گیا، ایسے لپٹنے آیا​
میں نے تنہائی کی برسوںمیںبچھائی تھی بساط​
وہ اُسے ایک ہی لحظے میں اُلٹنے آیا​
ابر تھا، رعد تھی، طوفاں تھا ، نہ کچھ تھی ہلچل​
کیا ہوا تھا اسے، بے وجہ چمٹنے آیا​
اُس کی قربت کا نشہ وہ تھا کہ بہکا میں بھی​
وہ بھی مستی میں تھا سرشار، رپٹنے آیا​
لذت وصل کی امید بندھائی اُس نے​
اور بساط شب ہجراں کو پلٹنے آیا​
اختلافات مٹانے کی تمنا لے کر​
تجھ سے اظہر وہ تھا شائد کہ نبٹنے آیا​
 
Top