ایک غزل آپ کے مشوروں اور اصلاح کے لیے،'' ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے ''

ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا لیا تھا مشکلوں سےجو بھی، کیا کھونے کو ہے
زندگی بھر اک لگا ہے وہ بھی دھُل جائے کہیں
بدنُما سا لگ رہا وہ داغ بس دھونے کو ہے
کاٹ لے گا تُو محبت کس طرح پھر کھیت سے
بیج نفرت کا ہی تیرے پاس جب بونے کو ہے
تُم چراغو شور شعلوں کا تو اب مدھم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کانپتے ہونٹوں کی لرزاہٹ، چھپا سکتی نہیں
پھٹ پرے گا جیسے اظہر اور بس رونے کو ہے
۱۸ْ۔ ۱۲۔۲۰۱۲
اظہرم ۔بمقام دوحہ
محمد یعقوب آسی صاحب
شاہد شاہنواز صاحب
الف عین صاحب
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اصلاح تو اساتذہ کا کام ہے لیکن ایک مشورہ ہے کہ مطلع کا دوسرا مصرعہ کچھ یوں کر دیا جائے ۔۔۔۔
جو کہ پایا مشکلوں سے ہم نے ، کیا کھونے کو ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
کاپی کر لی ہے، البتہ دو باتیں۔ ایک تو آج کل تم ’دھلائی‘ بہت کر رہے ہو۔ یہاں بھی دھوننے کو کا محل نہیں، ’دھلنے کو‘ کا محل ہے۔
دوسرے لرزاہٹ کو میں غلط سمجھتا ہوں، یہ لفظ یا تو فارسی کا ہی رہنے دو، لرزیدن سے لرزش اسم بنتا ہے۔ لرزاہٹ نہیں، ہاں لنگڑاہٹ بن سکتا ہے!!!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا لیا تھا مشکلوں سےجو بھی، کیا کھونے کو ہے
۔۔۔واقعی دوسرا مصرع کمزور ہے ۔۔بقول شہزاد احمد: جو کہ پایا مشکلوں سے ہم نے ، کیا کھونے کو ہے؟ ، کیاجائے تب بھی میں مطمئن نہیں ۔۔ کوئی اور حل سوچنا چاہئے ۔۔
زندگی بھر اک لگا ہے وہ بھی دھُل جائے کہیں
بدنُما سا لگ رہا وہ داغ بس دھونے کو ہے
۔۔۔ اوپر بھی دھل جائے اور نیچے بھی دھونے کو ہے۔۔۔ دونوں ہی مصرعے اصلاح کے طالب ہیں۔۔۔
کاٹ لے گا تُو محبت کس طرح پھر کھیت سے
بیج نفرت کا ہی تیرے پاس جب بونے کو ہے
۔۔۔ کھیت کو غائب کرنا ضروری ہے میرے خیال میں ۔۔ یا تو محبت کو فصل بنایا جاتا۔۔۔
تُم چراغو شور شعلوں کا تو اب مدھم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
۔۔۔ تم چراغو سے اے چراغو بہتر لگتا ہے۔۔۔ چراغوں کے جلنے سے عموما اتنا شور ہوا نہیں کرتا کہ کوئی پریشان ہو۔۔۔ جہاں تک میرا خیال ہے۔۔۔
کانپتے ہونٹوں کی لرزاہٹ، چھپا سکتی نہیں
پھٹ پرے گا جیسے اظہر اور بس رونے کو ہے
۔۔۔ جیسے اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے، زیادہ بہتر لگتا ہے۔۔۔ اور لرزاہٹ پر تو اعتراض ہو ہی چکا ہے ۔۔۔
۱۸ْ۔ ۱۲۔۲۰۱۲
اظہرم ۔بمقام دوحہ
۔۔اظہرم ۔۔کا مطلب تو ہوا میرا اظہر جیسے برادرم ہوتا ہے۔۔۔ (یہ زبان مجھے آتی نہیں ۔۔ بہرحال)
محمد یعقوب آسی صاحب
شاہد شاہنواز صاحب
الف عین صاحب
 
اب دیکھیے تو؟

ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں تو کیا ہے جو کھونے کو ہے
بدنُما اک داغ الفت زندگی پر تھا لگا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹ لے گا کس طرح بتلا سہی
بیج نفرت کا ہی تیرے پاس جب بونے کو ہے
اے چراغو شور شعلوں کا ذرا مدھم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
جیسے اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے
۱۸ْ۔ ۱۲۔۲۰۱۲
اظہرم ۔بمقام دوحہ
م کا اپنا ہی مقام ہے نا جی :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اب دیکھیے تو؟

ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں تو کیا ہے جو کھونے کو ہے
۔۔۔ پاس ہی جب کچھ نہیں ہے پھر یہ کیا کھونے کو ہے ۔۔۔ شاید بہتر ہو۔۔ کیونکہ جس مقام پر آپ نے تو لگایا ہے، وہ مجھے کھٹک رہا ہے۔۔۔بہرحال میرا مصرع لگا کر بھی مطلع مشکل سےقابل قبول ہی ہوا ہوگا، اگر ہوا ہوگا۔۔۔
بدنُما اک داغ الفت زندگی پر تھا لگا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
۔۔ مصرع اول، تھا لگا کی جگہ لگ گیا بہتر ہے۔۔۔
فصل الفت کاٹ لے گا کس طرح بتلا سہی
بیج نفرت کا ہی تیرے پاس جب بونے کو ہے
۔۔۔بتلا سہی کی جگہ بتلاؤ تو ہوسکتا ہے۔۔۔ اسی طرح دوسرے مصرعے میں ’ہی تیرے‘ کی جگہ تمہارے ۔۔
اے چراغو شور شعلوں کا ذرا مدھم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
÷÷ چراغ اپنے شعلوں کا شور مدھم کریں یا کسی اور چیز کے شعلوں کا؟ ویسے یہ میں کہہ چکا کہ شعلوں کے شور سے تو کوئی اٹھنے کا نہیں۔۔ اب یہ بتانا باقی ہے کہ ہاں، روشنی ان کو جگانے کا سبب ہوسکتی ہے۔۔۔
کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
جیسے اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے
÷÷÷دوسرے مصرعے میں جیسے کی جگہ شاید ۔۔ اب تو ۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔یہ پہلے مصرعے کی مناسبت سے ہے۔۔ حالانکہ اس کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا۔۔۔
۱۸ْ۔ ۱۲۔۲۰۱۲
اظہرم ۔بمقام دوحہ
 
ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں تو پھر یہ کیاکھونے کو ہے
بدنُما اک داغ الفت زندگی پر لگ گیا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹ لے گا کس طرح بتلاو تو
بیج نفرت کا تُمہارے پاس جب بونے کو ہے
اے چراغو شور شعلوں کا ہی تُم مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
اب پھٹا دیکھو کہ اظہر اور بس رونے کو ہے
۱۸ْ۔ ۱۲۔۲۰۱۲
اظہرم ۔بمقام دوحہ
یہاں پر شعلوں کا شور استعاراتی ہے اور مجھے تو خوب بھلا لگ رہا ہے :) نئیں کیا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں تو پھر یہ کیاکھونے کو ہے
بدنُما اک داغ الفت زندگی پر لگ گیا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹ لے گا کس طرح بتلاو تو
بیج نفرت کا تُمہارے پاس جب بونے کو ہے
÷÷بتلاؤ تو کے ساتھ کاٹ لے گا تو چلنے سے رہا ۔۔۔ کاٹ لوگے ہی آئے گا۔۔۔۔
اے چراغو شور شعلوں کا ہی تُم مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
اب پھٹا دیکھو کہ اظہر اور بس رونے کو ہے
۔۔۔ اب تو اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے ۔۔۔ یہ کہا تھا میں نے ۔۔۔ آپ نے ’’پھٹا دیکھو‘‘ کرکے میرے خیال میں تو حلیہ ہی بگاڑ دیا۔۔۔ پھٹ پڑنا محاورہ ہے۔ اس سے پھٹنا مراد لے ہی نہیں سکتے۔ پھٹا دیکھو تو غلط ہے۔۔۔
۱۸ْ۔ ۱۲۔۲۰۱۲
اظہرم ۔بمقام دوحہ
یہاں پر شعلوں کا شور استعاراتی ہے اور مجھے تو خوب بھلا لگ رہا ہے :) نئیں کیا؟
ضرور لکھئے۔۔۔میں اپنی رائے دے چکا، لیکن استاد محترم باقی ہیں۔۔۔

 

الف عین

لائبریرین
میں شاہد سے متفق ہوں، ’پھٹ پڑنا‘ اور ’کاٹ لو گے‘ کے معاملوں میں۔
لیکن شعلوں کا شور سے میں متفق نہیں، مجھے تو بھلا نہیں لگ رہا۔ چراغو کی بجائے ’یادو‘ قسم کا کوئی لفظ ہو تو بات بن جائے گی۔
بس اس شعر کے علاوہ اب اس غزل کو اصلاح شدہ مان لو۔
 
اوہ ہو پتہ نہیں کس پینگ میں لکھ گیا ، معذرت قبول کیجیے گا
ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں پھر کیا ہے جوکھونے کو ہے
بدنُما اک داغ الفت زندگی پر لگ گیا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹ لوگےکس طرح بتلاو تو
بیج نفرت کا تُمہارے پاس جب بونے کو ہے
اے چراغو یاد کے شعلے ذرا مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
اب تو اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اوہ ہو پتہ نہیں کس پینگ میں لکھ گیا ، معذرت قبول کیجیے گا
ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہزی جب کچھ نہیں پھر کیا ہے جوکھونے کو ہے
بدنُما اک داغ الفت زندگی پر لگ گیا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹ لوگےکس طرح بتلاو تو
بیج نفرت کا تُمہارے پاس جب بونے کو ہے
اے چراغو یاد کے شعلے ذرا مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
۔۔۔۔ چراغو والے شعر پر پھر غور فرمائیے۔۔۔ میرا خیال ہے استاد محترم نے یہ نہیں کہا۔۔۔
کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
اب تو اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے
 
یوں دیکھ لیجیے جناب

ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں پھر کیا ہے جوکھونے کو ہے
بدنُما اک داغ الفت زندگی پر لگ گیا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹ لوگےکس طرح بتلاو تو
بیج نفرت کا تُمہارے پاس جب بونے کو ہے
یاد کے غمناک شعلو، آنچ کچھ مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
اب تو اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے
 

الف عین

لائبریرین
میرا مطلب تم نہیں سمجھے، یادوں کا شور ممکن ہے، لیکن شعلوں یا چراغوں کا شور نہیں۔ شور کچھ مدھم کرو تو اچھا لگا، لیکن شعلے نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں تو کیا ہے جو کھونے کو ہے
//پہلے مصرع کے دونوں ٹکڑوں میں تعلق مبہم ہے۔ یوں کہو تو
ہر گھڑی دھڑکا ہے، جیسے کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے

بدنُما اک داغ الفت زندگی پر لگ گیا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
//’تھا لگا‘ رواں نہیں لگ رہا۔
لگ گیا تھا زندگی پر بد نما سا داغِ عشق

فصل الفت کاٹ لو گے کس طرح بتلاؤ تو
بیج نفرت کا تمہارے پاس جب بونے کو ہے
//باقی تو درست ہے، بس ذرا ’بتلا سہی‘ میں روانی کم ہے۔ ‘کیسے، یہ بتلا ذرا‘
(یہ اس صورت میں جب پرانی شکل ہی لی جائے۔ نئی شکل میں دونوں جگہ ‘’تم’ کا صیغہ ہے۔ اس صورت میں درست )

اے چراغو شور شعلوں کا ذرا مدھم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
//اس پر بات ہو چکی ہے، اس کی جگہ ’لو ذرا مدھم کرو‘ کیا جا سکتا ہے۔
جیسے
آرزوؤں کے دیوں کی لو ذرا مدھم کرو
یا اس قسم کا کوئی اور مصرع

کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
جیسے اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے
//درست
 
ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں تو کیا ہے جو کھونے کو ہے
//پہلے مصرع کے دونوں ٹکڑوں میں تعلق مبہم ہے۔ یوں کہو تو
ہر گھڑی دھڑکا ہے، جیسے کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے

بدنُما اک داغ الفت زندگی پر لگ گیا
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
//’تھا لگا‘ رواں نہیں لگ رہا۔
لگ گیا تھا زندگی پر بد نما سا داغِ عشق

فصل الفت کاٹ لو گے کس طرح بتلاؤ تو
بیج نفرت کا تمہارے پاس جب بونے کو ہے
//باقی تو درست ہے، بس ذرا ’بتلا سہی‘ میں روانی کم ہے۔ ‘کیسے، یہ بتلا ذرا‘
(یہ اس صورت میں جب پرانی شکل ہی لی جائے۔ نئی شکل میں دونوں جگہ ‘’تم’ کا صیغہ ہے۔ اس صورت میں درست )

اے چراغو شور شعلوں کا ذرا مدھم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
//اس پر بات ہو چکی ہے، اس کی جگہ ’لو ذرا مدھم کرو‘ کیا جا سکتا ہے۔
جیسے
آرزوؤں کے دیوں کی لو ذرا مدھم کرو
یا اس قسم کا کوئی اور مصرع

کانپتے ہونٹوں کی لرزش اب چھپائے کس طرح
جیسے اظہر پھٹ پڑے گا اور بس رونے کو ہے
//درست
جی یوں دیکھ لیجیے

ہر گھڑی دھڑکا ہے جیسے کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س میرے وہ نہیں پھرکیا ہے جوکھونے کو ہے
لگ گیا تھا زندگی پر جیسے کوئی داغ عشق
وقت کا پانی یہ لگتا ہے اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹنا ممکن نہیں ، میں کیا کروں
بیج نفرت کا ہی میرے پاس جب بونے کو ہے
آرزووں کے چراغو، لو ہی کچھ مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کانپتے ہونٹوں کی لرزش یہ چھپا سکتی نہیں
دیکھ تیرے ساتھ اظہر رات بھی رونے کو ہے
 

الف عین

لائبریرین
آپ اکثر کہتے ہیں کہ کاپی کر لی ہے۔ اگر میں دخل انداز نہیں ہو رہا تو بتائیے گا اس کا معنی کیا ہے؟
متن سلیکٹ کر کے کنٹرول سی سے کاپی، اور ورڈ میں اصلاح نامی ڈاکیومینٹ میں کنٹرول وی سے پیسٹ، اور کنٹرول ایس سے سیو، یعنی محفوظ!!
 
محترم اُستاد گُستاخی معاف کیجیے گا، اگر اجازت ہو تو کچھ تبدیلیاں کر لوں۔ آپ دیکھ لیجیے ذرا

ہر گھڑی دھڑکا ہے جیسے کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں پھرکیا ہے جوکھونے کو ہے
داغ تھا ترک تعلق، پر مجھے امید ہے
وقت کا بہتا یہ پانی اب اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹنے کی کیا توقع میں کروں
بیج نفرت کا ہی میرے پاس جب بونے کو ہے
یاد کے غمناک شعلو، آنچ کچھ مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کیا ہے اظہر سے تعلق؟ ٹمٹمانا بند کر
اے شب غم، کیوں ہے لرزاں، تو بھی کیارونے کو ہے
 
Top