ایک غزل آپ کے مشوروں اور اصلاح کے لیے،'' ہر گھڑی دھڑکا ہے کیسا، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے ''

الف عین

لائبریرین
داغ تھا ترک تعلق، پر مجھے امید ہے
وقت کا بہتا یہ پانی اب اُسے دھونے کو ہے
پہلا مصرع نا مکمل ہے مطلب نکلنے میں۔ دوسرا مصرع ’وقت کا یہ بہتا پانی‘ کرنے سے رواں محسوس ہوتا ہے۔
باقی دونوں تبدیلیاں درست ہیں۔ لیکن ‘ٹمٹمانا بند کر‘ کا ٹکڑا پسند نہیں آیا۔ ’دے رہی ہے اس کا ساتھ‘ کر دو تو۔۔۔؟
 
داغ تھا ترک تعلق، پر مجھے امید ہے
وقت کا بہتا یہ پانی اب اُسے دھونے کو ہے
پہلا مصرع نا مکمل ہے مطلب نکلنے میں۔ دوسرا مصرع ’وقت کا یہ بہتا پانی‘ کرنے سے رواں محسوس ہوتا ہے۔
باقی دونوں تبدیلیاں درست ہیں۔ لیکن ‘ٹمٹمانا بند کر‘ کا ٹکڑا پسند نہیں آیا۔ ’دے رہی ہے اس کا ساتھ‘ کر دو تو۔۔۔ ؟
جی یوں دیکھ لیجیے جناب

ہر گھڑی دھڑکا ہے جیسے کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں پھرکیا ہے جوکھونے کو ہے
داغ اک ترک تعلق کا جبیں پر تھا لگا
وقت کا یہ بہتا پانی اب اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹنے کی کیا توقع میں کروں
بیج نفرت کا ہی میرے پاس جب بونے کو ہے
یاد کے غمناک شعلو، آنچ کچھ مدہم کرو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کیا ہے اظہر سے تعلق؟ دے رہی ہے اُس کا ساتھ
اے شب غم، کیوں ہے لرزاں، تو بھی کیارونے کو ہے
 
’جبیں پر تھا لگا‘ پر اب بھی ’ص‘ نہیں لگا پا رہا!!
اگر یوں کہوں تو جناب اُستاد
ہر گھڑی دھڑکا ہے جیسے کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں پھرکیا ہے جوکھونے کو ہے
داغ اک ترک تعلق کا مرے دامن پہ ہے
وقت کا یہ بہتا پانی اب اُسے دھونے کو ہے
فصل الفت کاٹنے کی کیا توقع میں کروں
بیج نفرت کا ہی میرے پاس جب بونے کو ہے
اے چراغ آرزو، مدھم کرو کچھ اپنی لو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
کیا ہے اظہر سے تعلق؟ دے رہی ہے اُس کا ساتھ
اے شب غم، کیوں ہے لرزاں، تو بھی کیارونے کو ہے
 
کچھ تبدیلیاں

ہر گھڑی دھڑکا ہے جیسے کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے
پا س ہی جب کچھ نہیں پھرکیا ہے جوکھونے کو ہے
داغ اک ترک تعلق کا مرے دامن پہ ہے
وقت کے اے بہتے دھارے، وہ ترے دھونے کو ہے
اے چراغ آرزو، مدھم کرو کچھ اپنی لو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
وقت رہتے کاش کہ سنبھال لیں ہم کھیتیاں
تُخم نفرت ہاتھ میں لے کر عدو بونے کو ہے
کیا ہے اظہر سے تعلق؟ دے رہی ہے اُس کا ساتھ
اے شب غم، کیوں ہے لرزاں، تو بھی کیارونے کو ہے
 

الف عین

لائبریرین
ان دونوں نئے اشعار سے بہتر تو وہی پرانی شکلیں تھیں!!
داغ اک ترک تعلق کا مرے دامن پہ ہے
وقت کا یہ بہتا پانی اب اُسے دھونے کو ہے
اور
فصل الفت کاٹنے کی کیا توقع میں کروں
بیج نفرت کا ہی میرے پاس جب بونے کو ہے
اے چراغ آرزو، مدھم کرو کچھ اپنی لو
رات برپا ہو گئی، ہر شحص اب سونے کو ہے
 
Top