کاشف اسرار احمد
محفلین
استاد محترم جناب الف عین سر، اساتذہء کرام اور احباب محفل
السلام اعلیکم
ایک غزل اصلاح اور مشوروں کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
مطلع سے ابھی مطمئن نہیں ہوں لیکن جیسا بھی ہے پیش ہے۔
السلام اعلیکم
ایک غزل اصلاح اور مشوروں کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
مطلع سے ابھی مطمئن نہیں ہوں لیکن جیسا بھی ہے پیش ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَعلن
نہ در پہ دی کبھی دستک نہ دی صدا میں نے
یوں تجھ سے جوڑ کے ناطہ دکھا دیا میں نے
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَعلن
نہ در پہ دی کبھی دستک نہ دی صدا میں نے
یوں تجھ سے جوڑ کے ناطہ دکھا دیا میں نے
بنا کے شکل تری ایک سادہ کاغذ پر
لگا ہے کر دیے زندہ کئی خدا میں نے
تمھارے حسن کو یوں دی گئی تھی شاباشی
لکھے تھے شعر ہر اک نقش پر جدا میں نے
لگا ہے کر دیے زندہ کئی خدا میں نے
تمھارے حسن کو یوں دی گئی تھی شاباشی
لکھے تھے شعر ہر اک نقش پر جدا میں نے
بدن کی سوندھی سی مٹّی سے، اُس کی خوشبو سے
"شبِ وصال معطّر ہو"، کی دعا میں نے
"شبِ وصال معطّر ہو"، کی دعا میں نے
وہ میرے چاند کی آغوشِ خود فراموشی
میں تشنہ کام تھا بانہوں میں بھر لیا میں نے
میں تشنہ کام تھا بانہوں میں بھر لیا میں نے
وہاں ہے پیڑ گھنے سائے کا جہاں پہ کبھی
زمیں میں گاڑ دئیے تھے کئی خدا میں نے
زمیں میں گاڑ دئیے تھے کئی خدا میں نے
نہ جانے کیا تھا مری شکل ہی دکھائے گیا
رکھی جو سامنے شیشے کے اک خطا میں نے
رکھی جو سامنے شیشے کے اک خطا میں نے
جو ایک لمحہ مقیّد ہے آنکھ میں، اُس کے
فنائے عمر کی، تا عمر کی دعا میں نے
فنائے عمر کی، تا عمر کی دعا میں نے
نشانیاں تری کیں ختم گوشے گوشے سے
یوں آسمان میں بھر دی ہے اک خلا میں نے
تھی روزگار، رفاقت کی پہلی شرط اگر
تو ایسے دورِ تعارف میں کیا جیا میں نے
متاعِ حسنِ رفاقت کی پیشکش کاشف
انا میں چھوڑ کے کر دی ہے انتہا میں نے
سیّدکاشف
یوں آسمان میں بھر دی ہے اک خلا میں نے
تھی روزگار، رفاقت کی پہلی شرط اگر
تو ایسے دورِ تعارف میں کیا جیا میں نے
متاعِ حسنِ رفاقت کی پیشکش کاشف
انا میں چھوڑ کے کر دی ہے انتہا میں نے
سیّدکاشف