سید عاطف علی
لائبریرین
اک نقشِ سطحِ آبِ رواں ہے یہ زندگی
اے موج ِتیز گام! کہاں ہے یہ زندگی
کل تک تھی اپنے آپ پہ نازاں یہ زندگی
کیوں آج خود پہ نوحہ کناں ہے یہ زندگی
شعلے میں شمع کے جو مسلسل تھی اک صدا
پروانے کہہ رہے تھے یہاں ہے یہ زندگی
جن کے بیاں کو قفل پڑے ہیں زبان پہ
ان کہنہ حسرتوں کا نشاں ہے یہ زندگی
کروبیءاجل کو ذرا دے کوئی صدا
شانوں پہ اب تو بار گراں ہے یہ زندگی
دو بھی قدم ٹھہرنا جہاں پر محال ہے
ایک ایسا کاروانِ رواں ہے یہ زندگی
مشہود میں ہو فرق نہ شاہد سے کچھ جہاں
ایسے مشاہدے میں نہاں ہے یہ زندگی
ہے پائمال ِکوشش ِ روزینہءِ بقا
کاندھے پہ ایک سنگ گراں ہے یہ زندگی
عاطف تجھے گماں تھا یقیں زندگی میں ہو
آخر ہوا یقیں کہ گماں ہے یہ زندگی
سید عاطف علی
13 جولائی 2020
اے موج ِتیز گام! کہاں ہے یہ زندگی
کل تک تھی اپنے آپ پہ نازاں یہ زندگی
کیوں آج خود پہ نوحہ کناں ہے یہ زندگی
شعلے میں شمع کے جو مسلسل تھی اک صدا
پروانے کہہ رہے تھے یہاں ہے یہ زندگی
جن کے بیاں کو قفل پڑے ہیں زبان پہ
ان کہنہ حسرتوں کا نشاں ہے یہ زندگی
کروبیءاجل کو ذرا دے کوئی صدا
شانوں پہ اب تو بار گراں ہے یہ زندگی
دو بھی قدم ٹھہرنا جہاں پر محال ہے
ایک ایسا کاروانِ رواں ہے یہ زندگی
مشہود میں ہو فرق نہ شاہد سے کچھ جہاں
ایسے مشاہدے میں نہاں ہے یہ زندگی
ہے پائمال ِکوشش ِ روزینہءِ بقا
کاندھے پہ ایک سنگ گراں ہے یہ زندگی
عاطف تجھے گماں تھا یقیں زندگی میں ہو
آخر ہوا یقیں کہ گماں ہے یہ زندگی
سید عاطف علی
13 جولائی 2020
آخری تدوین: