محمل ابراہیم
لائبریرین
میری قلم سے۔۔۔۔۔
ایک مرکز پہ جو جامد ہو نظر بن جائیں
برسیں اس طرح کی ہم بار گہر بن جائیں
کو بہ کو درد ہے ماتم ہے فغاں ہے ہر سو
جو کرے دور الم ہم وہ اثر بن جائیں
منتشر نجم ہیں افلاک میں بے راہ بے نقش
اُن کو ترتیب دیں ایسے کہ مہر بن جائیں
چلو تعبیر کو دیں صورتِ تعمیر ایسی
ہم جو کنکر بھی اٹھائیں وہ گہر بن جائیں
تم نے بس آگ اگلتے ہوئے شعلے دیکھے
ہم وہ پتھر ہیں کہ پتھر پہ گریں اور شرر بن جائیں
کچھ ہی گنتی کی لکیریں ہیں شرر بار یہاں
وہی اسطرح سے پھیلیں کہ سحر بن جائیں
سحر
ایک مرکز پہ جو جامد ہو نظر بن جائیں
برسیں اس طرح کی ہم بار گہر بن جائیں
کو بہ کو درد ہے ماتم ہے فغاں ہے ہر سو
جو کرے دور الم ہم وہ اثر بن جائیں
منتشر نجم ہیں افلاک میں بے راہ بے نقش
اُن کو ترتیب دیں ایسے کہ مہر بن جائیں
چلو تعبیر کو دیں صورتِ تعمیر ایسی
ہم جو کنکر بھی اٹھائیں وہ گہر بن جائیں
تم نے بس آگ اگلتے ہوئے شعلے دیکھے
ہم وہ پتھر ہیں کہ پتھر پہ گریں اور شرر بن جائیں
کچھ ہی گنتی کی لکیریں ہیں شرر بار یہاں
وہی اسطرح سے پھیلیں کہ سحر بن جائیں
سحر