محمد اظہر نذیر
محفلین
حسن اُس کا کمال، شب، توبہ
وصل، عشوہ، وصال، سب توبہ
زلف کھولی، نہا کے جب نکلے
توبہ توبہ، ہوا غضب، توبہ
ناز، چتوں ، جمال چہرے کا
تھے بہکنے کے سب سبب، توبہ
بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں
آخری بار کی تھی کب توبہ
سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے
تب کروں گا، کروں گا اب توبہ
میں نے اک بار پھر گناہ کیا
کر چکا تھا ہزار جب توبہ
فرصتیں دور سے گزرتی ہیں
اے خدایا کروں میں کب توبہ
بخش، اظہر گناہ گار سہی
کر رہا ہے وہ آج رب، توبہ
اور ایک مطلع اور بھی
مانتے ہیں کہ تھی عجب توبہ
ہم نے کی باعث ادب، توبہ