ایک غزل برائے تنقید، اصلاح، تبصرہ،'' حسن اُس کا کمال، شب، توبہ''

حسن اُس کا کمال، شب، توبہ
وصل، عشوہ، وصال، سب توبہ
زلف کھولی، نہا کے جب نکلے
توبہ توبہ، ہوا غضب، توبہ
ناز، چتوں ، جمال چہرے کا
تھے بہکنے کے سب سبب، توبہ
بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں
آخری بار کی تھی کب توبہ
سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے
تب کروں گا، کروں گا اب توبہ
میں نے اک بار پھر گناہ کیا
کر چکا تھا ہزار جب توبہ
فرصتیں دور سے گزرتی ہیں
اے خدایا کروں میں کب توبہ
بخش، اظہر گناہ گار سہی
کر رہا ہے وہ آج رب، توبہ
اور ایک مطلع اور بھی
مانتے ہیں کہ تھی عجب توبہ
ہم نے کی باعث ادب، توبہ
 

احسن مرزا

محفلین
ہم سے بھی خوب توبہ، توبہ کروالی آپ نے۔ بہت خوبصورت غزل کہی۔ غلطیوں کی نشاندہی تو بہرحال اساتذہ کا کام ہے۔ ڈھیر ساری داد حاضر ہے!
 

الف عین

لائبریرین
کاپی کر لوں یا مزید کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں۔ تبدیل کرو تو پہلے مطلع کا پہلا مصرع بھی دیکھ لو، ’شب توبہ‘، اور دوسرے میں بھی کیا وصل اور وصال میں کچھ امتیاز بھی ہے؟ مجھے دوسرا مطلع ہی زیادہ پسند آیا ہے۔
یہ مصرعے سمجھ میں نہیں آئے
بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں
سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے
 

الف عین

لائبریرین
کاپی کر لوں یا مزید کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں۔ تبدیل کرو تو پہلے مطلع کا پہلا مصرع بھی دیکھ لو، ’شب توبہ‘، اور دوسرے میں بھی کیا وصل اور وصال میں کچھ امتیاز بھی ہے؟ مجھے دوسرا مطلع ہی زیادہ پسند آیا ہے۔
یہ مصرعے سمجھ میں نہیں آئے
بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں
سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے
 
کاپی کر لوں یا مزید کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں۔ تبدیل کرو تو پہلے مطلع کا پہلا مصرع بھی دیکھ لو، ’شب توبہ‘، اور دوسرے میں بھی کیا وصل اور وصال میں کچھ امتیاز بھی ہے؟ مجھے دوسرا مطلع ہی زیادہ پسند آیا ہے۔
یہ مصرعے سمجھ میں نہیں آئے
بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں
سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے
اُستاد محترم،
بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں
گویا کہ میں بھول جاتا ہوں لیکن اس پر تعنہ مارنے کی ضرورت نہیں
سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے
سوچتے سوچتے یہ عمر گزر جاٴے گی
’شب توبہ‘، اصل میں﴿ شب، توبہ ﴾ہے
 

الف عین

لائبریرین
اُستاد محترم،
بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں
گویا کہ میں بھول جاتا ہوں لیکن اس پر تعنہ مارنے کی ضرورت نہیں
سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے
سوچتے سوچتے یہ عمر گزر جاٴے گی
’شب توبہ‘، اصل میں﴿ شب، توبہ ﴾ہے
اچھا تو ’تعنت‘ وہ نیا لفظ بنایا گیا ہے جس کا مطلب طعن و تشنیع ہوتا ہے!!!
عمر گزرے والی بات بھی اس مرع سے واضح نہیں ہوتی۔
 
اچھا تو ’تعنت‘ وہ نیا لفظ بنایا گیا ہے جس کا مطلب طعن و تشنیع ہوتا ہے!!!
عمر گزرے والی بات بھی اس مرع سے واضح نہیں ہوتی۔
جی فیروزالغات میں بھی دیکھا ہے ت عنُ نت تعنُت ن پر تشدید کے سات بمعنی عیب جوئی، نکتہ چینی اور بدگوئی ہے، نیا لفظ تو نہیں لگتا جناب
 
تبدیلیاں

موسم گُل، جمال شب، توبہ
خلوتون میں رسیلے لب، توبہ
رغبت وصل حسن کافر کا
نازُ انداز، چال، سب توبہ
ہر گھڑی سوچتا ہی رہتا ہوں
تب کروں گا، کروں گا اب توبہ
میں نے اک بار پھر گناہ کیا
کر چکا تھا ہزار جب توبہ
فرصتیں دور سے گزرتی ہیں
اے خدایا کروں میں کب توبہ
شیخ نے آ لیا تھا رستے میں
میں نے کی باعث ادب، توبہ
کیوں گناہوں کا انتظار کریں
آو کرتے ہیں بےسبب توبہ
حسب معمول کچھ اثر ہو گا
یہ جو کر لی ہے آج، اب توبہ
اے خدا تُو ہی دینے والا ہے
اور کس سے کروں طلب توبہ
بیچ میں ہیں گناہ اظہر کے
آگے توبہ ہے، اور عقب توبہ
 

الف عین

لائبریرین
تحقیق کی تو پتہ چلا کہ عربی کا لفظ ہے تعنُّت۔ لیکن اردو میں مستعمل نہیں، اس سے بچنا ہی بہتر ہے، یہ کیا کہ لوگ لغت ڈھونڈھتے پھریں، یہ لفظ جب تمہارے نام نہاد خود ساختہ استاذ کو معلوم نہیں تو ایروں غیروں کو کیا معلوم ہوگا؟۔ بہر حال کاپی کر رہا ہوں تبدیل شدہ صورت۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تحقیق کی تو پتہ چلا کہ عربی کا لفظ ہے تعنُّت۔ لیکن اردو میں مستعمل نہیں، اس سے بچنا ہی بہتر ہے، یہ کیا کہ لوگ لغت ڈھونڈھتے پھریں، یہ لفظ جب تمہارے نام نہاد کود ساختہ استاذ کو معلوم نہیں تو ایروں غیروں کو کیا معلوم ہوگا؟۔ بہر حال کاپی کر رہا ہوں تبدیل شدہ صورت۔
ان ایروں غیروں میں ، میں بھی شامل ہوں ۔۔۔
 
تبدیلیاں
موسم گُل، جمال شب، توبہ​
خلوتون میں رسیلے لب، توبہ​
رغبت وصل حسن کافر کا​
نازُ انداز، چال، سب توبہ​
ہر گھڑی سوچتا ہی رہتا ہوں​
تب کروں گا، کروں گا اب توبہ​
میں نے اک بار پھر گناہ کیا​
کر چکا تھا ہزار جب توبہ​
فرصتیں دور سے گزرتی ہیں​
اے خدایا کروں میں کب توبہ​
شیخ نے آ لیا تھا رستے میں​
میں نے کی باعث ادب، توبہ​
کیوں گناہوں کا انتظار کریں​
آو کرتے ہیں بےسبب توبہ​
حسب معمول کچھ اثر ہو گا​
یہ جو کر لی ہے آج، اب توبہ​
اے خدا تُو ہی دینے والا ہے​
اور کس سے کروں طلب توبہ​
بیچ میں ہیں گناہ اظہر کے​
آگے توبہ ہے، اور عقب توبہ​

اسی سلسلے کی دوسری غزل

کیا میں سمجھا ہوں، کیا ہے رب، توبہ؟​
مغفرت کا ہے اک سبب توبہ​
یہ بھی بخشش کا اک وسیلہ ہے​
رب مسبب ہے اور سبب، توبہ​
رحمتیں انتظار میں پیچھے​
کھول دے گی وہ باب سب، توبہ​
توبہ کرنے کا کچھ سلیقہ ہے​
کس طرح، کیسے، کی تھی کب، توبہ​
توبہ اچھی، شباب کے رہتے​
فاٗیدہ کیا ہو ، جاں بلب توبہ​
جس کو چاہے، عطا کرے اظہر​
رب یہ توفیق ، روزُ شب، توبہ​
 

الف عین

لائبریرین
دو غزلہ کاپی کر لیا ہے۔ اب تفصیل سے دیکھتا ہوں۔ ویسے کچھ ردیف کا استعمال درست نہیں لگ رہا ہے۔
 
Top