الف عین
لائبریرین
موسم گُل، جمال شب، توبہ
خلوتون میں رسیلے لب، توبہ
//شعر دو لخت ہے، موسم گُل اور جمالِ شب کا آپسی تعلق اور خلوتوں، جمع میں واحد لب؟
رغبت وصل حسن کافر کا
نازُ انداز، چال، سب توبہ
//ایک املا کی غلطی کی طرف پہلے نشان دہی کر دوں۔ یہ تم ’واؤ‘ کی جگہ پیش کا استعمال کیوں کرتے ہو۔ پہلے بھی کئی بار مشاہدہ کیا تھا۔ یہاں ’ناز و انداز‘ کا محل ہے۔
پہلا مصرع کچھ غیر ضروری الفاظ سے بوجھل لگ رہا ہے۔ دوسرے مصرع میں ’چال‘ غیر متعلق لفظ ہے، ناز اور انداز کی قبیل کا نہیں۔ کچھ اس قسم کا ہونا چاہئے
کیوں نہ ہو اس سے وصل کی خواہش
ناز و انداز اس کے، سب توبہ
ہر گھڑی سوچتا ہی رہتا ہوں
تب کروں گا، کروں گا اب توبہ
//یوں بہتر ہو
اب کروں گا، کروں گا تب توبہ
کہ محاورہ اب تب کرنا ہے
میں نے اک بار پھر گناہ کیا
کر چکا تھا ہزار جب توبہ
//درست
فرصتیں دور سے گزرتی ہیں
اے خدایا کروں میں کب توبہ
//درست
شیخ نے آ لیا تھا رستے میں
میں نے کی باعث ادب، توبہ
//پہلا مصرع کچھ مناسب نہیں لگ رہا، روانی کے لحاظ سے بھی، اور مفہوم کے اعتبار سے بھی۔ وہ یہ کہ جب باعثِ ادب توبہ کی تھی تو پہلے مصرع میں کم از کم ’شیخ صاحب‘ ہوتا۔
جیسے
شیخ صاحب نے رہ میں گھیر لیا
لیکن یہ اظہار بھی کچھ طنزیہ ہی لگتا ہے، جو دوسرے مصرع سے مطابقت نہیں رکھتا۔
کیوں گناہوں کا انتظار کریں
آو کرتے ہیں بےسبب توبہ
//درست
حسب معمول کچھ اثر ہو گا
یہ جو کر لی ہے آج، اب توبہ
//آج اب اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ اس کی بجائے یوں کہو
میں نے کر لی ہے یہ جو اب توبہ
اے خدا تُو ہی دینے والا ہے
اور کس سے کروں طلب توبہ
//توبہ کا لفظی مطلب ہے لوٹنا، رجوع کرنا۔ گویا کہ توبہ مانگی نہیں جاتی، محض کی جاتی ہے، یعنی گناہوں سے معافی مانگ کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر کے اللہ کی طرف دوبارہ رجوع کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ معنوی طور سے شعر ہی غلط ہے۔
بیچ میں ہیں گناہ اظہر کے
آگے توبہ ہے، اور عقب توبہ
//اس میں معنوی اعتبار سے جھول ہے، لیکن اتنا فاش نہیں۔ اس لئے درست مانا جا سکتا ہے۔
اسی سلسلے کی دوسری غزل
کیا میں سمجھا ہوں، کیا ہے رب، توبہ؟
مغفرت کا ہے اک سبب توبہ
// ‘کیا ہے رب‘ سے مطلب فوت ہو جاتا ہے، کہ کوئی رب کی تعریف پوچھ رہا ہے۔ درست یوں ہو گا۔
میں یہ سمجھا ہوں میرے رب، توبہ
یہ بھی بخشش کا اک وسیلہ ہے
رب مسبب ہے اور سبب، توبہ
//درست
رحمتیں انتظار میں پیچھے
کھول دے گی وہ باب سب، توبہ
//’پیچھے‘؟ اور یہاں ردیف کا استعمال؟
توبہ کرنے کا کچھ سلیقہ ہے
کس طرح، کیسے، کی تھی کب، توبہ
//درست۔
توبہ اچھی، شباب کے رہتے
فاٗیدہ کیا ہو ، جاں بلب توبہ
//یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ جاں بلب کا قافیہ کس طرح آ سکتا ہے یہاں؟
جس کو چاہے، عطا کرے اظہر
رب یہ توفیق ، روزُ شب، توبہ
//جس کو چاہے اسے وہ دے توفیق
کرتے اظہر ہیں روز و شب توبہ
اگرچہ دوسرا مصرع اب بھی مجھے رواں نہیں لگ رہا۔
خلوتون میں رسیلے لب، توبہ
//شعر دو لخت ہے، موسم گُل اور جمالِ شب کا آپسی تعلق اور خلوتوں، جمع میں واحد لب؟
رغبت وصل حسن کافر کا
نازُ انداز، چال، سب توبہ
//ایک املا کی غلطی کی طرف پہلے نشان دہی کر دوں۔ یہ تم ’واؤ‘ کی جگہ پیش کا استعمال کیوں کرتے ہو۔ پہلے بھی کئی بار مشاہدہ کیا تھا۔ یہاں ’ناز و انداز‘ کا محل ہے۔
پہلا مصرع کچھ غیر ضروری الفاظ سے بوجھل لگ رہا ہے۔ دوسرے مصرع میں ’چال‘ غیر متعلق لفظ ہے، ناز اور انداز کی قبیل کا نہیں۔ کچھ اس قسم کا ہونا چاہئے
کیوں نہ ہو اس سے وصل کی خواہش
ناز و انداز اس کے، سب توبہ
ہر گھڑی سوچتا ہی رہتا ہوں
تب کروں گا، کروں گا اب توبہ
//یوں بہتر ہو
اب کروں گا، کروں گا تب توبہ
کہ محاورہ اب تب کرنا ہے
میں نے اک بار پھر گناہ کیا
کر چکا تھا ہزار جب توبہ
//درست
فرصتیں دور سے گزرتی ہیں
اے خدایا کروں میں کب توبہ
//درست
شیخ نے آ لیا تھا رستے میں
میں نے کی باعث ادب، توبہ
//پہلا مصرع کچھ مناسب نہیں لگ رہا، روانی کے لحاظ سے بھی، اور مفہوم کے اعتبار سے بھی۔ وہ یہ کہ جب باعثِ ادب توبہ کی تھی تو پہلے مصرع میں کم از کم ’شیخ صاحب‘ ہوتا۔
جیسے
شیخ صاحب نے رہ میں گھیر لیا
لیکن یہ اظہار بھی کچھ طنزیہ ہی لگتا ہے، جو دوسرے مصرع سے مطابقت نہیں رکھتا۔
کیوں گناہوں کا انتظار کریں
آو کرتے ہیں بےسبب توبہ
//درست
حسب معمول کچھ اثر ہو گا
یہ جو کر لی ہے آج، اب توبہ
//آج اب اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ اس کی بجائے یوں کہو
میں نے کر لی ہے یہ جو اب توبہ
اے خدا تُو ہی دینے والا ہے
اور کس سے کروں طلب توبہ
//توبہ کا لفظی مطلب ہے لوٹنا، رجوع کرنا۔ گویا کہ توبہ مانگی نہیں جاتی، محض کی جاتی ہے، یعنی گناہوں سے معافی مانگ کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر کے اللہ کی طرف دوبارہ رجوع کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ معنوی طور سے شعر ہی غلط ہے۔
بیچ میں ہیں گناہ اظہر کے
آگے توبہ ہے، اور عقب توبہ
//اس میں معنوی اعتبار سے جھول ہے، لیکن اتنا فاش نہیں۔ اس لئے درست مانا جا سکتا ہے۔
اسی سلسلے کی دوسری غزل
کیا میں سمجھا ہوں، کیا ہے رب، توبہ؟
مغفرت کا ہے اک سبب توبہ
// ‘کیا ہے رب‘ سے مطلب فوت ہو جاتا ہے، کہ کوئی رب کی تعریف پوچھ رہا ہے۔ درست یوں ہو گا۔
میں یہ سمجھا ہوں میرے رب، توبہ
یہ بھی بخشش کا اک وسیلہ ہے
رب مسبب ہے اور سبب، توبہ
//درست
رحمتیں انتظار میں پیچھے
کھول دے گی وہ باب سب، توبہ
//’پیچھے‘؟ اور یہاں ردیف کا استعمال؟
توبہ کرنے کا کچھ سلیقہ ہے
کس طرح، کیسے، کی تھی کب، توبہ
//درست۔
توبہ اچھی، شباب کے رہتے
فاٗیدہ کیا ہو ، جاں بلب توبہ
//یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ جاں بلب کا قافیہ کس طرح آ سکتا ہے یہاں؟
جس کو چاہے، عطا کرے اظہر
رب یہ توفیق ، روزُ شب، توبہ
//جس کو چاہے اسے وہ دے توفیق
کرتے اظہر ہیں روز و شب توبہ
اگرچہ دوسرا مصرع اب بھی مجھے رواں نہیں لگ رہا۔