ایک غزل برائے تنقید، تبصرہ اور اصلاح ،'' اب ترے آس پاس رہنا ہے''

اب ترے آس پاس رہنا ہے
زندگی بھر اُداس رہنا ہے

وائے قسمت کنارے دریا کے
میرے ہونٹوں پہ پیاس رہنا ہے

ٹوٹ جائے دعا کرو مر کے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے

ہم فقیروں کو ڈس نہ لے ریشم
بوریا ہے، جو راس رہنا ہے

چل کبھی کہہ خدا لگی تُو بھی
کیا تُجھے بے لباس رہنا ہے

کاش تُم کو قبول ہو آقا
بن کے اظہر کو داس رہنا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
وائے قسمت کنارے دریا کے
میرے ہونٹوں پہ پیاس رہنا ہے
÷÷یوں بہتر ہوگا
وائے قسمت کنارِ دریا بھی

ٹوٹ جائے دعا کرو مر کے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے
÷÷الفاظ کی نشست بدلو، ابلاغ درست نہیں ہو رہا۔

ہم فقیروں کو ڈس نہ لے ریشم
بوریا ہے، جو راس رہنا ہے
÷÷بوریئے ہی کو راس رہنا ہے
کہیں تو؟

چل کبھی کہہ خدا لگی تُو بھی
کیا تُجھے بے لباس رہنا ہے
÷÷مطلب؟

کاش تُم کو قبول ہو آقا
بن کے اظہر کو داس رہنا ہے

÷÷کیا یہ نعتیہ شعر ہے؟ درست ہے۔
 
وائے قسمت کنارے دریا کے
میرے ہونٹوں پہ پیاس رہنا ہے
÷÷یوں بہتر ہوگا
وائے قسمت کنارِ دریا بھی
جی بہت بہتر جناب

ٹوٹ جائے دعا کرو مر کے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے
÷÷الفاظ کی نشست بدلو، ابلاغ درست نہیں ہو رہا۔
اگر یوں کہا جائے تو ؟
مر کے شائد یہ ٹوٹ ہی جائے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے


ہم فقیروں کو ڈس نہ لے ریشم
بوریا ہے، جو راس رہنا ہے
÷÷بوریئے ہی کو راس رہنا ہے
کہیں تو؟
جی بہت بہتر جناب

چل کبھی کہہ خدا لگی تُو بھی
کیا تُجھے بے لباس رہنا ہے
÷÷مطلب؟
جی یہ شعر تبدیل کئے دیتا ہوں

کاش تُم کو قبول ہو آقا
بن کے اظہر کو داس رہنا ہے

÷÷کیا یہ نعتیہ شعر ہے؟ درست ہے۔
جی بجا فرمایا یہ نعتیہ شعر ہے

گویا اب صورتحال یوں بنتی ہے

اب ترے آس پاس رہنا ہے
زندگی بھر اُداس رہنا ہے

وائے قسمت کنارے دریا بھی
میرے ہونٹوں پہ پیاس رہنا ہے


مر کے شائد یہ ٹوٹ ہی جائے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے


ہم فقیروں کو ڈس نہ لے ریشم
بوریئے ہی کو راس رہنا ہے

گندگی ہے جو چھو کے گزری ہے
کچھ سمے تک تو باس رہنا ہے

پھر سے وہ مہرباں ہوا ہم پر
پھر سے اُس کا سپاس رہنا ہے


کاش تُم کو قبول ہو آقا
بن کے اظہر کو داس رہنا ہے
 

الف عین

لائبریرین
میں نے تو ’کنارَ‘ دریا لکھا تھا!!!
باقی تو درست ہیں، لیکن یہ دونوں اب بھی مطمئن نہیں کر رہے
گندگی ہے جو چھو کے گزری ہے
کچھ سمے تک تو باس رہنا ہے

پھر سے وہ مہرباں ہوا ہم پر
پھر سے اُس کا سپاس رہنا ہے
 
میں نے تو ’کنارَ‘ دریا لکھا تھا!!!
باقی تو درست ہیں، لیکن یہ دونوں اب بھی مطمئن نہیں کر رہے
گندگی ہے جو چھو کے گزری ہے
کچھ سمے تک تو باس رہنا ہے

پھر سے وہ مہرباں ہوا ہم پر
پھر سے اُس کا سپاس رہنا ہے
یوں دیکھ لیجئے اُستاد محترم

اب ترے آس پاس رہنا ہے
زندگی بھر اُداس رہنا ہے

وائے قسمت کنارِ دریا بھی
میرے ہونٹوں پہ پیاس رہنا ہے

مر کے شائد یہ ٹوٹ ہی جائے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے

ہم فقیروں کو ڈس نہ لے ریشم
بوریئے ہی کو راس رہنا ہے

زندگی بھر لہو میں کچھ گرمی
اور پھولوں میں باس رہنا ہے

کتنا مشکل، حقیقتوں کا سفر
آخرش بے لباس رہنا ہے


کاش تُم کو قبول ہو آقا
بن کے اظہر کو داس رہنا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
یہاں کہیں ”ہے‘ کا اضافہ چاہئے پہلے مصرع میں
کتنا مشکل، حقیقتوں کا سفر
آخرش بے لباس رہنا ہے
 
یہاں کہیں ”ہے‘ کا اضافہ چاہئے پہلے مصرع میں
کتنا مشکل، حقیقتوں کا سفر
آخرش بے لباس رہنا ہے
جی بہتر ہے

اب ترے آس پاس رہنا ہے
زندگی بھر اُداس رہنا ہے

وائے قسمت کنارِ دریا بھی
میرے ہونٹوں پہ پیاس رہنا ہے

مر کے شائد یہ ٹوٹ ہی جائے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے

ہم فقیروں کو ڈس نہ لے ریشم
بوریئے ہی کو راس رہنا ہے

زندگی بھر لہو میں کچھ گرمی
اور پھولوں میں باس رہنا ہے

ہے یہ مشکل، حقیقتوں کا سفر
آخرش بے لباس رہنا ہے


کاش تُم کو قبول ہو آقا
بن کے اظہر کو داس رہنا ہے​
 
بلا تمہید
وائے قسمت کنارِ دریا بھی
میرے ہونٹوں پہ پیاس رہنا ہے

یہاں بات دو طرح بیان ہو سکتی ہے۔
(1) پیاس کا رہنا ہے:میں پیاسا ہوں۔ (2) پیاس کو رہنا ہے:مجھے پیاسا رہنا ہے۔
موجودہ صورت ان دونوں میں سے کوئی تقاضا بھی پورا نہیں کر رہی۔
 
مر کے شائد یہ ٹوٹ ہی جائے
جیتے جی کچھ تو آس رہنا ہے

’’شاید‘‘ راجح ہے، ’’شائد‘‘ بھی رائج ہے تاہم میرے نزدیک مستحسن نہیں ہے۔
جب تک جی رہے ہیں آس تو رکھنی ہو گی یا آس کو رہنا ہو گا۔ مسئلہ وہی ہے جو پیاس والے شعر میں ہے۔
اس شعر کے باقی لوازمات پر بحث فی الحال موقوف۔
 
عمومی تفہیم کے لئے عرض کرتا چلوں کہ ۔۔۔
مصدر جہاں اپنی اصل حالت میں آئے یعنی علامتِ مصدر (نا) کے ساتھ اور اس پر افعالِ ناقصہ وارد ہوں، اُسے ہم فعل تام کہتے ہیں۔
اسے کچھ کہنا تھا، مجھے جانا ہے، آپ کو بھی سوچنا ہوگا، اب سنبھل جانا چاہئے؛ وغیرہ۔

شذرہ: یہ بالکل وہی صورت ہے جو انگریزی میں ’’انفینی ٹِو‘‘ کی ہوتی ہے، اس پر ’’ورب‘‘ سے پہلے ’’ٹو‘‘ داخل کرتے ہیں۔
 
رسماً فعل تام کو ہمیشہ مذکر لکھا جانا چاہئے،جیسے: مجھے ان سے بات کرنا ہو گی، آپ کو چھ کتابیں لانا ہیں؛ وغیرہ۔
تاہم فی زمانہ اس کی پروا نہیں کی جا رہی (مذکر مؤنث دونوں طرح درست مان لیا گیا ہے)، جیسے:

پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک
کیسے آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا​
ردیف: دل کا​
 

الف عین

لائبریرین
رسماً فعل تام کو ہمیشہ مذکر لکھا جانا چاہئے،جیسے: مجھے ان سے بات کرنا ہو گی، آپ کو چھ کتابیں لانا ہیں؛ وغیرہ۔
تاہم فی زمانہ اس کی پروا نہیں کی جا رہی (مذکر مؤنث دونوں طرح درست مان لیا گیا ہے)، جیسے:

پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک
کیسے آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا​
ردیف: دل کا​
آصی بھائی یہ دہلی لکھنؤ کا فرق ہے، دہلی والے مؤنث فعل استعمال نہیں کرتے۔ موجودہ دہلی اور لکھنؤ والے دونوں دونوں طرح اسعمال کرتے ہیں۔
اظہر کا استعمال درست ہے
 
یہ شعر مجھ پر کھلا ہی نہیں۔ کس کو بے لباس رہنا ہے، اس کے دیگر تلازمے کون سے ہیں۔ حقیقت بے لباس ہو سکتی ہےحقیقتوں کا سفر کیونکر بے لباس ہو گا؟۔
محترم اُستاد یہاں یہ کہنا مطلوب تھا کہ حقیقتیں ننگی ہوتی ہیں اور اُن کے سفر پر چلنے والوں کو بھی ننگا ہی رہنا پڑتا ہے، جو کے ایک مشکل کام ہے
 
Top