ایک غزل برائے تنقید، تبصرہ اور اصلاح ،'' اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں''

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر پھر بھی نہ تُم آٓئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں

لئے پھرتا ہے کوئی قاضیوں کو اور وکیلوں کو
میں جیتوں یا میں ہاروں، بس موافق کاش رب کر لوں

محبت کل پہ مت ٹالو، نہ جانے کل ہے کیا ہونا
مجھے بس دو اجازت تُم، محبت آج، اب کر لوں

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کبھی بھی کام، اب کر لوں ، میں تب کر لوں

نہیں اس کے سوا چارہ۔ تُمہارے پاس کوئی بھی
مجھے کرنا ہے جب ٹہرا، مری مرضی، میں جب کر لوں

گزارش بس مری اتنی سی اظہر ہے خداوند سے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں​
 
باقی اصلاح تو بعد میں فی الحال دوسرے شعر کو تبدیل کرنے کی کوشش کرو
جی بہت بہتر ہے، یوں دیکھ لیجئے

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر پھر بھی نہ تُم آٓئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں

نہیں ملنا اگر انصاف دنیاوی عدالت سے
تو راضی پھر وکالت کے لئے، اے کاش رب کر لوں


محبت کل پہ مت ٹالو، نہ جانے کل ہے کیا ہونا
مجھے بس دو اجازت تُم، محبت آج، اب کر لوں

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کبھی بھی کام، اب کر لوں ، میں تب کر لوں

نہیں اس کے سوا چارہ۔ تُمہارے پاس کوئی بھی
مجھے کرنا ہے جب ٹہرا، مری مرضی، میں جب کر لوں

گزارش بس مری اتنی سی اظہر ہے خداوند سے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں​
 

الف عین

لائبریرین
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر پھر بھی نہ تُم آٓئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں
÷÷درست، اگرچہ دوسرا مصرع رواں نہیں

نہیں ملنا اگر انصاف دنیاوی عدالت سے
تو راضی پھر وکالت کے لئے، اے کاش رب کر لوں
÷÷رب کا قافیہ لانا کیا ضروری ہے؟ بات نہیں بنی یہاں۔

محبت کل پہ مت ٹالو، نہ جانے کل ہے کیا ہونا
مجھے بس دو اجازت تُم، محبت آج، اب کر لوں
÷÷
محبت کل پہ مت ٹالو، نہ جانے کل ہے کیا ہونا (اس کو بدلنے کی کوشش کرو، رواں نہیں
نہ جانے کل کب آئے گا
کیسا رہے گا؟

مجھے بس یہ اجازت دو ، محبت، آج، اب کر لوں

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کبھی بھی کام، اب کر لوں ، میں تب کر لوں
۔۔دوسرے مصرع میں ’کہوں‘ آنا چاہئے، یں واضح ہوتا ہے کہ محض یہ کہوں کہ اب جر لوں تب کر لوں تو کام نہیں ہوتا!!

نہیں اس کے سوا چارہ۔ تُمہارے پاس کوئی بھیمجھے کرنا ہے جب ٹہرا، مری مرضی، میں جب کر لوں
سرخ فقرہ سمجھ میں نہیں آیا۔

گزارش بس مری اتنی سی اظہر ہے خداوند سے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں
÷÷خداوند کا آخری دال گر رہا ہے وزن سے۔ اسے دعا کہو یا خواہش، گذارش کی جگہ
خدایا میری بس اتنی سی خواہش ہے، جو موت آئے
 
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر پھر بھی نہ تُم آٓئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں
÷÷درست، اگرچہ دوسرا مصرع رواں نہیں
جی بہت بہتر جناب تبدیل کئے دیتا ہوں
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر چہ یہ نہیں ممکن جو چاہا ہے، وہ سب کر لوں

نہیں ملنا اگر انصاف دنیاوی عدالت سے
تو راضی پھر وکالت کے لئے، اے کاش رب کر لوں
÷÷رب کا قافیہ لانا کیا ضروری ہے؟ بات نہیں بنی یہاں۔
یہ شعر تبدیل کئے دیتا ہوں
طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
کبھی بھی میں، کسی بھی وقت، جو چاہوں، میں جب کر لوں


محبت کل پہ مت ٹالو، نہ جانے کل ہے کیا ہونا
مجھے بس دو اجازت تُم، محبت آج، اب کر لوں
÷÷
محبت کل پہ مت ٹالو، نہ جانے کل ہے کیا ہونا (اس کو بدلنے کی کوشش کرو، رواں نہیں
نہ جانے کل کب آئے گا
کیسا رہے گا؟

مجھے بس یہ اجازت دو ، محبت، آج، اب کر لوں
یوں کہوں تو کیسا رہے گا جناب
محبت کا عمل اس بات کا بھی متقاضی ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں


مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کبھی بھی کام، اب کر لوں ، میں تب کر لوں
۔۔دوسرے مصرع میں ’کہوں‘ آنا چاہئے، یں واضح ہوتا ہے کہ محض یہ کہوں کہ اب جر لوں تب کر لوں تو کام نہیں ہوتا!!
جی بہت بہتر ہے
مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کہوں میں کام، اب کر لوں یا تب کر لوں

نہیں اس کے سوا چارہ۔ تُمہارے پاس کوئی بھیمجھے کرنا ہے جب ٹہرا، مری مرضی، میں جب کر لوں
سرخ فقرہ سمجھ میں نہیں آیا۔
یہ شعر تبدیل کئے دیتا ہوں
بلاتا ہوں تُمہیں پھر سے، سجا کر اپنے خوابوں کو
اگر پھر بھی نہ تُم آئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں


گزارش بس مری اتنی سی اظہر ہے خداوند سے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں
÷÷خداوند کا آخری دال گر رہا ہے وزن سے۔ اسے دعا کہو یا خواہش، گذارش کی جگہ
خدایا میری بس اتنی سی خواہش ہے، جو موت آئے
یوں دیکھ لیجئے جناب
خدایا ہے دعا اتنی سی اظہر کی، جو موت آئے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں

گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر چہ یہ نہیں ممکن جو چاہا ہے، وہ سب کر لوں

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
کبھی بھی میں، کسی بھی وقت، جو چاہوں، میں جب کر لوں


محبت کا عمل اس بات کا بھی متقاضی ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں


مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کہوں میں کام، اب کر لوں یا تب کر لوں

بلاتا ہوں تُمہیں پھر سے، سجا کر اپنے خوابوں کو
اگر پھر بھی نہ تُم آئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں


خدایا ہے دعا اتنی سی اظہر کی، جو موت آئے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں
 

الف عین

لائبریرین
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر چہ یہ نہیں ممکن جو چاہا ہے، وہ سب کر لوں
//اس سے تو پہلی صورت ہی بہتر تھی، یوں کر دو
اگر پھر بھی نہ تم آئے۔۔

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
کبھی بھی میں، کسی بھی وقت، جو چاہوں، میں جب کر لوں
پہلا مصرع بہت خوب، دوسرا مصرع مزید روانی چاہتا ہے۔

محبت کا عمل اس بات کا بھی متقاضی ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں
//متقاضی اس بحر میں کہاں آتا ہے۔ شاید تم اس کا تلفظ ت پر تشدید سے کر رہے ہو، یہ غلط ہے، ت پر محض زبر ہے۔ یوں کہو
محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں۔۔۔۔

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کہوں میں کام، اب کر لوں یا تب کر لوں
//دوسرا مصرع ابھی بھی چست نہیں


بلاتا ہوں تُمہیں پھر سے، سجا کر اپنے خوابوں کو
اگر پھر بھی نہ تُم آئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں
//سجا کر؟ اس phraseکو بدلنے کی کوشش کرو۔

خدایا ہے دعا اتنی سی اظہر کی، جو موت آئے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں
//درست، لیکن ’خدایا: کی ضرورت نہیں۔۔ پہلے مصرع میں بہتری کی گنجائش ہے، جیسے
دعا اتنی سی ہے اظہر کی، اس کی جب بھی موت آئے
 
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
اگر چہ یہ نہیں ممکن جو چاہا ہے، وہ سب کر لوں
//اس سے تو پہلی صورت ہی بہتر تھی، یوں کر دو
اگر پھر بھی نہ تم آئے۔۔
اُستاد محترم یوں دیکھ لیجئے از راہ کرم
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں


طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
کبھی بھی میں، کسی بھی وقت، جو چاہوں، میں جب کر لوں
پہلا مصرع بہت خوب، دوسرا مصرع مزید روانی چاہتا ہے۔
اگر یوں کہا جائے اسے تو جناب؟
طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
نہیں کرنا، نہیں کرنا، جو کرنا ہو تو سب کر لوں


محبت کا عمل اس بات کا بھی متقاضی ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں
//متقاضی اس بحر میں کہاں آتا ہے۔ شاید تم اس کا تلفظ ت پر تشدید سے کر رہے ہو، یہ غلط ہے، ت پر محض زبر ہے۔ یوں کہو
محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں۔۔۔ ۔
جی بہت بہتر جناب
محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں


مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوتا کہوں میں کام، اب کر لوں یا تب کر لوں
//دوسرا مصرع ابھی بھی چست نہیں
اسے یوں کہا جائے تو؟
مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں



بلاتا ہوں تُمہیں پھر سے، سجا کر اپنے خوابوں کو
اگر پھر بھی نہ تُم آئے، تو جانے کیا میں کب کر لوں
//سجا کر؟ اس phraseکو بدلنے کی کوشش کرو۔
جی بہت بہتر، یوں دیکھ لیجئے گا
میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں


خدایا ہے دعا اتنی سی اظہر کی، جو موت آئے
نہ رہ جائے مرے ذمہ کوئی بھی کام، سب کر لوں
//درست، لیکن ’خدایا: کی ضرورت نہیں۔۔ پہلے مصرع میں بہتری کی گنجائش ہے، جیسے
دعا اتنی سی ہے اظہر کی، اس کی جب بھی موت آئے
یہاں شعر تبدیل کر کے اگر یوں کہا جائے جناب تو؟
کہیں کہرام برپا کر نہ دے یہ خامہ فرسائی
ہے بہتر خامہ ٗ اظہر کے میں خاموش لب کر لوں


گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
نہیں کرنا، نہیں کرنا، جو کرنا ہو تو سب کر لوں

محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں

کہیں کہرام برپا کر نہ دے یہ خامہ فرسائی
ہے بہتر خامہ ٗ اظہر کے میں خاموش لب کر لوں
 

الف عین

لائبریرین
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں
۔۔درست

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
نہیں کرنا، نہیں کرنا، جو کرنا ہو تو سب کر لوں
۔۔بات نہیں بنی اب بھی۔ اس سے تو پہلی صورت بہتر تھی۔

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں
÷÷کچھ حد تک بہتر ہے

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں
÷÷ درست
کہیں کہرام برپا کر نہ دے یہ خامہ فرسائی
ہے بہتر خامہ ٗ اظہر کے میں خاموش لب کر لوں
÷÷بات سمجھ یں نہیں آئی
 
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں
۔۔درست

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
نہیں کرنا، نہیں کرنا، جو کرنا ہو تو سب کر لوں
۔۔بات نہیں بنی اب بھی۔ اس سے تو پہلی صورت بہتر تھی۔
بہت بہتر جناب، یوں کہا جائے تو مناسب ہو گا کیا؟
طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
میں کرنے پر جب آ جاؤں، تو مشکل کیا ہےسب کر لوں


مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں
÷÷کچھ حد تک بہتر ہے

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں
÷÷ درست
کہیں کہرام برپا کر نہ دے یہ خامہ فرسائی
ہے بہتر خامہ ٗ اظہر کے میں خاموش لب کر لوں
÷÷بات سمجھ یں نہیں آئی
یہ شعر تبدیل کئے دیتا ہوں جناب
کیا میں نے نہیں ہے آج تک جو کام وہ اظہر
تری خاطر تُو کیا جانے، نہیں کوئی عجب کر لوں


گویا اب غزل کچھ یوں ہوئی

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
میں کرنے پر جب آ جاؤں، تو مشکل کیا ہےسب کر لوں

محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں

کیا میں نے نہیں ہے آج تک جو کام وہ اظہر
تری خاطر تُو کیا جانے، نہیں کوئی عجب کر لوں
 
اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں
۔۔درست

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
نہیں کرنا، نہیں کرنا، جو کرنا ہو تو سب کر لوں
۔۔بات نہیں بنی اب بھی۔ اس سے تو پہلی صورت بہتر تھی۔
بہت بہتر جناب، یوں کہا جائے تو مناسب ہو گا کیا؟
طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
میں کرنے پر جب آ جاؤں، تو مشکل کیا ہےسب کر لوں


مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں
÷÷کچھ حد تک بہتر ہے

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں
÷÷ درست
کہیں کہرام برپا کر نہ دے یہ خامہ فرسائی
ہے بہتر خامہ ٗ اظہر کے میں خاموش لب کر لوں
÷÷بات سمجھ یں نہیں آئی
یہ شعر تبدیل کئے دیتا ہوں جناب
کیا میں نے نہیں ہے آج تک جو کام وہ اظہر
تری خاطر تُو کیا جانے، نہیں کوئی عجب کر لوں

گویا اب غزل کچھ یوں ہوئی

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
میں کرنے پر جب آ جاؤں، تو مشکل کیا ہےسب کر لوں

محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں

کیا میں نے نہیں ہے آج تک جو کام وہ اظہر
تری خاطر تُو کیا جانے، نہیں کوئی عجب کر لوں

 

الف عین

لائبریرین
میں کرنے پر جب آ جاؤں، تو مشکل کیا ہےسب کر لوں
بہتر صورت شائد یوں ہو
جوکرنے پر میں آ جاؤں، تو مشکل کیا ہے، سب کر لوں

البتہ عجب قافیہ والا شعر پسند نہیں آیا
 
میں کرنے پر جب آ جاؤں، تو مشکل کیا ہےسب کر لوں
بہتر صورت شائد یوں ہو
جوکرنے پر میں آ جاؤں، تو مشکل کیا ہے، سب کر لوں
جی یہ صورت بھی بہت بہتر ہے

البتہ عجب قافیہ والا شعر پسند نہیں آیا
دوسرا شعر دیکھ لیجئے محترم اُستاد
نہیں میں قید رہ سکتا، کہ آزادی یہ نعمت ہے
مجھے اظہر کہو تو بس، کہ جو چاہوں میں جب کر لوں


گویا صورتحال اب کچھ ایسی بنی

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
جوکرنے پر میں آ جاؤں، تو مشکل کیا ہے، سب کر لوں

محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے کل پر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے، وہ اب کر لوں

نہیں میں قید رہ سکتا، کہ آزادی یہ نعمت ہے
مجھے اظہر کہو تو بس، کہ جو چاہوں میں جب کر لوں

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں

نہیں میں قید رہ سکتا، کہ آزادی یہ نعمت ہے
مجھے اظہر کہو تو بس، کہ جو چاہوں میں جب کر لوں
 

الف عین

لائبریرین
مقطع کی ضرورت اتنی شدید کیوں ہے، بے مقطع ہی غزل مکمل ہے۔ ردیف قوافی ہی تم نے ایسے رکھے ہیں کہ اشعار چست نہیں وارد ہوتے۔ ۔۔نیا شعر دو لخت محسوس ہوتا ہے اور رواں بھی نہیں۔
 
Top