ایک غزل برائے تنقید، تبصرہ اور اصلاح ،'' اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں''

مقطع کی ضرورت اتنی شدید کیوں ہے، بے مقطع ہی غزل مکمل ہے۔ ردیف قوافی ہی تم نے ایسے رکھے ہیں کہ اشعار چست نہیں وارد ہوتے۔ ۔۔نیا شعر دو لخت محسوس ہوتا ہے اور رواں بھی نہیں۔
جی بہتر ہے اسے نکال دیتا ہوں مظلع بن ہی جائے گا پہلے والے اشعار میں سے

اجازت ہو تو میں کچھ دیر خوابوں میں طلب کر لوں
بڑی تاریک راتیں ہیں ، میں روشن ایک شب کر لوں

طبیعت میں مری پارہ بھرا ہے، کیا خبر تُجھ کو
میں کرنے پر جب آ جاؤں، تو مشکل کیا ہےسب کر لوں

مجھے کرنا ہے جو بھی، آج کرنا ہے، ابھی کرنا
نہیں ہوگا، کہوں جو کام اب کر لوں، میں تب کر لوں

میں ڈرتا ہوں ، اگر پھر بھی بلانے پر نہ تُم آئے
خدا جانے میں کیا کر لوں، خدا جانے میں کب کر لوں

محبت کے عمل میں جلد بازی ہی ضروری ہے
اسے اظہر نہ میں ٹالوں، جو کرنا ہے وہ اب کر لوں
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ زمین کی مجبوری کی وجہ سے کچھ اشعار مجبوراً درست قرار دئے گئے ہیں، اگرچہ زبان و بیان کے لحاظ سے پسند نہیں
 
Top